سیاست نہیں معیشت بچاؤ
ایک دن مسند خلافت پر متمکن ہو کر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے رفقاء کار سے ارشاد فرمایا ”میرا خیال تھا کہ امیر لوگوں پر زیادتی کرتا ہے، مگر اب معلوم ہوا ہے کہ یہ عوام ہیں جو (اپنے ) امیر کے ساتھ زیادتی کے مرتکب ہوتے ہیں“ ۔ مدینۃ العلم کے اس مختصر سے جملہ میں امور مملکت کی یہ اہم ترین تلخ حقیقت مخفی ہے کہ بعض اوقات اہل یا نا اہل حکمرانوں کی وجہ سے نہیں بلکہ عوام کی اپنی بد اعتدالیوں کے باعث بھی ریاستیں تباہ و برباد ہو جایا کرتی ہیں۔
تھوڑی دیر کے لیے سوچئے کہ جس طرح کے جمہوری پارلیمانی نظام کے تحت ہمارے حکمران منتخب ہو کر آتے ہیں۔ کیا یہ حکمران حقیقی معنوں میں اتنی قوت نافذہ رکھتے ہیں کہ جسے بروئے کار لاتے ہوئے، وہ اکثریتی عوامی رائے کے یکسر برخلاف جاکر ملک کو مختلف سیاسی، معاشی اور ثقافتی بحرانوں سے نکالنے کے لیے دور رس اور نتیجہ خیز انقلابی اقدامات اٹھا سکیں؟ یقیناً اس سوال کا جواب ایک بہت بڑی ناں میں ہی دیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ ہماری پوری سیاسی تاریخ چغلی کھا رہی ہے کہ ابھی تک تو کم ازکم ہمارے سیاسی نظام میں ایک بھی ایسا حکمران نہیں گزرا، جس نے ملک کے وسیع تر مفاد میں اور عوامی رائے سے متصادم کوئی بھی حکومتی اقدام اٹھانے کا فیصلہ کر کے اسے کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچایا ہو۔
لطیفہ ملاحظہ ہو کہ گزشتہ 76 برس میں نہ جانے کتنے سیاسی و جمہوری حکمرانوں نے ملک کو توانائی کے سنگین بحران سے نجات دلانے کے لیے بازار اور مارکیٹیں شام 6 بجے بند کروانے کا منصوبہ ترتیب دیا۔ مگر پھر ہر مرتبہ کاروباری طبقہ کے ذرا سے احتجاج کی شدت کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ اپنا فیصلہ، خود ہی بیک جنبش قلم منسوخ کر کے خوشی کے شادیانے بجانے لگ جاتے ہیں۔ ہمارے نام نہاد عوامی حکمران ملک میں بجلی کی چوری، ڈالروں کی سٹہ بازی، چینی اور پیٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری اور اسٹریٹ کرائمز کے منظم گروہوں کے خلاف کریک ڈاؤن فقط اس لیے نہیں کر پاتے کہ عوام انہیں کبھی اپنے ووٹ سے اور کبھی احتجاج سے بلیک میل کرنا شروع کر دیتی ہے اور سیاست دان بھی اقتدار کو دوام بخشنے کی حرص میں اتنے بے بس اور لاچار ہوتے ہیں کہ عوام کے ہاتھوں ہنسی خوشی بلیک میل ہو ناقبول کرلیتے ہیں۔
سادہ سی بات ہے کہ جن کے ووٹوں کی طاقت پر میرے حلقہ کا انتخاب جیتنا منحصر ہو، میں واپڈا والوں کو ان کا بجلی کا کنڈا کیسے کاٹنے دے سکتا ہوں؟ نیز جو محلے والے پولنگ والے دن میرے پولنگ ایجنٹ بنتے ہوں، میں ان کی ڈالروں کی سٹہ بازی پر آخر کیسے اور کیونکر قدغن لگا سکتا ہوں؟ جبکہ جلسے، جلوسوں اور ریلیوں میں میرے پنڈال کو جو لوگ بھی دامے، ورمے سخنے چار چاند لگانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، بھلا ان مخلصین کو اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری سے روکنا کیا کوئی عقل کی بات ہوگی؟ یا پھر میرے وہ سر پھرے کارکنان جو میرے ایک حکم پر ہر وقت مرنے مارنے پر تیار بیٹھے رہتے ہیں۔ کیا میں ایسے وفادار جوانوں کا اسٹریٹ کرائمز کرنے کی ذرا سی خطا پر قانون کی گرفت میں جانا افورڈ کر سکتا ہوں؟ یقیناً کبھی نہیں بالکل بھی نہیں۔
یہ ہی وہ چند مبنی بر حقائق سیاسی مجبوریاں ہیں جن کے پیش نظر ہمارے منتخب حکمران ملکی مفاد میں بہت بڑے کیا، چھوٹے فیصلے بھی نہیں کر سکتے۔ لیکن دوسری جانب نگراں حکومت چونکہ عوامی پسند یا ناپسند کی بنیاد پر تشکیل نہیں دی جاتی۔ لہٰذا، اس کے لیے بڑے فیصلے کر کے، ان پر من و عن عمل درآمد کروانا کوئی خاص مشکل کام نہیں ہوتا۔ مثلاً چند ہفتوں قبل وجود میں آنے والی نگراں حکومت کی تشکیل میں چونکہ عوام کے ووٹوں کے بجائے طاقت ور حلقوں کی مرضی و منشا کا عمل دخل زیادہ شامل ہے۔
اس لیے نگراں حکومت نے مہنگائی اور بے روزگاری کی ابتر صورت حال اور ملکی معیشت کی بہتری کے لیے جو فوری اور ناگزیر فیصلے کیے ہیں ان میں بجلی کی چوری، ڈالروں کی سٹے بازی، چینی اور پیٹرولیم مصنوعات کی سمگلنگ، ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری اور سٹریٹ کرائمز کے منظم گروہوں کے خلاف کریک ڈاؤن سب سے اہم ہے۔ کیونکہ نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کا انحصار جمہوری یعنی عوام کے ووٹوں پر بالکل بھی نہیں ہے۔ اس لیے وہ پوری انتظامی قوت اور سیاسی ارادے کے ساتھ اپنے انتظامی فیصلوں کو نافذ کرنے جا رہے ہیں۔
دوسری طرف عوام کو بھی اس بات کا اچھی طرح سے ادراک ہے کہ ان کے احتجاج کی دھمکی کم ازکم نگراں وزیراعظم کی سیاسی صحت اور انتظامی کارکردگی پر تو کوئی خاص فرق نہیں ڈال سکتی۔ لہٰذا، عوام نے بھی نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کے مصداق اپنا بگڑا ہوا عوامی مزاج درست کروانے کے لیے خود کو بسرو چشم نگراں حکومت کے سپرد کر دیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں، جن میں سے کم ازکم کسی ایک جماعت کا آئندہ قومی انتخابات کے بعد اقتدار میں آنے کا قوی امکان ہے۔ یعنی پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن، دونوں جماعتوں کی اعلیٰ قیادت بھی یہ دلی خواہش رکھتی ہے کہ نگراں وزیراعظم جناب انوارالحق کاکڑ ہی ملکی معیشت کو بحرانی کیفیت سے نکالنے کے تمام مشکل اور سخت فیصلے اپنے عبوری دور حکومت میں ہی کر گزریں۔ تاکہ جب اگلے انتخابات کے بعد اقتدار کی دیوی ان پر مہربان ہو تو انہیں سخت فیصلے کر کے عوامی غیض و غضب کا نشانہ نہ بننا پڑے۔
جس کی تازہ ترین مثال پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری کی جانب سے ”سیاست کے بجائے، معیشت بچاؤ“ کا نعرہ بلند کرنے ہوئے یہ کہنا ہے کہ ”انہیں اچانک ہی“ ادراک ”ہوا ہے کہ ہمارا پیارا وطن عزیز چونکہ سنگین معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ اس لئے پہلے معیشت کی فکر کرنی چاہیے سیاست بعد میں دیکھی جائے گی اور مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں بعد میں بھی ہو سکتی ہیں“ ۔
ملک کے سیاسی حلقوں میں جہاں آصف علی زرداری کے مذکورہ بیان کو اور خاص طور پر اس کی ٹائمنگ کو حیرت و استعجاب کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے، وہیں پاکستان پیپلز پارٹی کے راہنماؤں اور کارکنوں کے لیے بھی یہ بیان انتہائی تشویش کا باعث بنا ہوا ہے کیونکہ صرف ایک دن قبل پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کراچی میں میڈیا بریفنگ کے دوران الیکشن کمیشن کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ملک میں وقت پر منصفانہ انتخابات کے انعقاد کو نہ صرف پارٹی کی اولین ترجیح قرار دیا تھا بلکہ 90 دن کے اندر عام انتخابات کی تاریخ کا فوری اعلان کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ مگر بظاہر لگ یہ ہی رہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون جان بوجھ کر سیاسی وکٹ کے دونوں اطراف کھیلنے کی زبردست حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔ تاکہ کسی طرح زبوں حال معیشت کو نگراں حکومت بچانے میں کامیاب ہو جائے جبکہ سیاست کو تو یہ دونوں جماعتیں اگلی بار اقتدار میں آ کر بچا ہی لیں گی۔
- نوازشریف کی واپسی، فائدے اور نقصانات - 27/09/2023
- چیف جسٹس کے 404 دن اور عوام کے 56 ہزار مقدمے - 23/09/2023
- سیاست نہیں معیشت بچاؤ - 13/09/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).