مہنگائی، لاقانونیت اور غریب عوام

تین دن قبل کراچی کے علاقے کورنگی نمبر 2 میں واقع بک شاپ میں ڈکیتی کے دوران بڑی ہی بے دردی سے باپ اور بیٹے کو گولیاں مار دی گئیں۔ اور تمام رقم لوٹ کر تمام ڈاکو بآسانی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ کراچی میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا جس میں ڈکیتی کے دوران کسی معصوم کو قتل کر دیا گیا ہو۔ روزانہ کی بنیاد پر ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں اور ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔
حکومت اور سیاسی جماعتیں تو ویسے ہی ناکام ہو چکی ہے۔ کراچی سمیت پورا ملک اسٹریٹ کرائمز کی لپیٹ میں ہے۔ سونے پر سہاگہ مہنگائی اور لاقانونیت نے کر دیا ہے۔ سول نافرمانی سے بات اب بہت آگے جا چکی ہے۔ اب سول وار کی طرف ہم جا رہے ہیں۔ خانہ جنگی، انارکی، انتشار کی کیفیت پروان چڑھ رہی ہے جو کسی بھی وقت لاوا بن کر پھٹ سکتی ہے۔ ارباب اقتدار معاملات کی سنجیدگی کو سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔ ٹیکسز میں ہوش ربا اضافہ، بجلی کے بھاری بھرکم بل، پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے اشیائے خورد و نوش تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں۔ عام آدمی کو اب ایک وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہے۔ بھوکے بچوں کو سسکیاں ماں باپ کے کلیجوں کو چیر رہی ہیں اور بالآخر کلیجے پر پتھر رکھ کر اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے پھول جیسے بچوں کو قتل کر رہے ہیں۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی مثال دینے والے حکمرانوں کو یہ بات سوچنے کی اشد ضرورت ہے کہ کیا ہمارا معاشرہ ایک ”اسلامی معاشرہ“ کہلانے کے کسی بھی طور پر لائق ہے؟
جس معاشرے میں معصوم پھول جیسی بچیوں کے ساتھ زنا بالجبر کر کے قتل کر دیا جاتا ہو؟
جس معاشرے میں چند پیسوں کے لیے ناحق گولیاں مار دی جاتی ہو؟
جس معاشرے میں پڑوسی بھوکا سوتا رہے، کسی کو کوئی فکر نہیں ہوتی، مگر اس گھر کی عورتیں کیا کر رہی ہوتی وہ سب کو پتہ ہوتا ہے؟
جس معاشرے میں تعلیمی درسگاہوں میں جنسی زیادتی کے واقعات معمول بن گئے ہوں مقدس پیشے کے علمبرداروں نے ہی اس کا تقدس پامال کر دیا ہو؟
یہ اسلامی معاشرہ تو کسی صورت نہیں ہو سکتا ۔ بلکہ اس معاشرے میں تو اب اخلاقیات کا بھی کوئی تصور باقی نہیں ہے۔
اسلامی معاشرہ تو بے پناہ خوبیوں کا حامل ہوتا ہے۔ وہاں ہر شہری کی جان و مال اور عزت آبرو کی حفاظت کی جاتی ہے۔ مگر یہاں تو مسلمان تو کیا غیر مسلموں کی بھی عزت و آبرو محفوظ نہیں ہے۔ یہ ملک اسلامی جمہوریہ صرف نام کا رہ گیا ہے۔ اس ملک کے کرتا دھرتاؤں نے تو اسلامی تقدس کا خیال رکھا، نہ جمہوریت کا ۔
اس معاشرے میں صرف وہ شریف ہے جسے موقع نہیں ملا۔ جسے موقع مل گیا اس نے دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور دو ہاتھ کم پڑ گئے، تو اپنے رشتے داروں اور یہاں تک کے اپنے نوکروں کے ہاتھوں سے بھی گنگا اشنان کیا ہے۔
جس ملک میں لاکھوں کلومیٹر دور امریکہ، اسرائیل کے خلاف ریلیاں تو نکالی جاتی ہیں، احتجاج کیا جاتا ہے، مگر اپنے حقوق کے لئے نکلنا بہت بھاری محسوس ہوتا ہے۔ عشق رسولﷺ کے نام پر اپنی ہی عمارتیں گرائی جاتی ہیں۔ اپنے ہی شہریوں کے گھروں کو مسمار کیا جاتا ہے۔ بے گناہوں کو مار دیا جاتا ہے۔ اس نبیﷺ کے نام پر جنہوں نے ہمیشہ عفو و درگزر کر درس دیا۔ جنہوں نے فرمایا کہ ”پہلے خبر کی تحقیق کرلو، ایسا نہ ہو کہ بعد میں پچھتانا پڑے۔“
مگر یہاں ہوتا کیا ہے؟
کوئی بھی اٹھ کر کھڑا ہوجاتا ہے، کسی پر الزام لگا دیتا ہے۔ مجمع جمع ہو کر پرتشدد ہوجاتا ہے۔ اس بندے کو مار مار کر اس کی ہڈیاں تک توڑ دی جاتی ہیں۔ عبادت گاہوں پر حملے کیے جاتے ہیں۔ بعد میں تفتیش میں پتہ چلتا ہے کہ ایسا کوئی واقعہ تھا ہی نہیں، یہ سب ملزم نے بدلہ لینے کے لیے کیا ہوتا ہے۔
تو کہاں ہے قانون۔ کہاں ہے گورنمنٹ کی رٹ۔ جو ہر دفعہ چیلنج ہوتی ہے۔ اور حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔
کہاں ہے ہمارے علماء جو اس پرتشدد معاشرے کو سکون فراہم کرسکیں۔
عوام کی جان و مال کی کسی کی بھی نظر میں کوئی رتی برابر بھی اہمیت باقی نہیں رہی ہے۔ عوام کی اہمیت کیڑے مکوڑے سے بھی بدتر ہو گئی ہے۔
مولا علی کا فرمان ہے :
کفر کا نظام تو چل سکتا ہے مگر ظلم کا کبھی بھی نہیں۔
میں تو اس وقت سے ڈر رہا ہوں جب ارباب اقتدار کی عیاشیوں، مراعات اور ان کی سلطنتوں کو ڈھا دیا جائے گا۔ لیکن یہ صرف اس وقت ہو سکتا ہے جب عوام کو اپنا حق حاصل کرنے کی جستجو ہو، ان کے ساتھ جو ظلم 75 سال سے کیا جا رہا ہے اس کو سمجھیں۔ برادری، تنظیم اور مسلک سے بالاتر ہو کر متحد ہو کر اپنے حقوق کی جنگ لڑیں۔ اور اس کے لیے کسی لیڈر کی ضرورت ہے۔ اور مجھے یقین ہے جب عوام کو اس بات کی سمجھ آ جائے گی تو کوئی لیڈر بھی مل ہی جائے گا جو انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لائے۔
- مہنگائی، لاقانونیت اور غریب عوام - 13/09/2023
- صدف نعیم کی موت اور میڈیا ورکرز کا استحصال - 31/10/2022
- انقلاب در انقلاب کا خواب اور مہنگائی کے ستائے عوام - 28/05/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).