الیکشن کمیشن فوری طور سے انتخابی شیڈول کا اعلان کرے
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایک بار پھر الیکشن کمیشن سے اپیل کی ہے کہ انتخابی شیڈول کا اعلان کیا جائے تاکہ سیاسی پارٹیاں ووٹروں سے رابطہ مہم شروع کریں اور سیاسی الائنس کے حوالے سے معاملات طے کیے جائیں۔ بلاول بھٹو زرداری کا یہ مطالبہ جائز اور درست ہے۔ یہ تو دکھائی دے رہا ہے کہ الیکشن کمیشن 90 دن کی مدت کے اندر انتخابات کروانے کا ارادہ نہیں رکھتا لیکن ملک میں بے چینی و بے یقینی ختم کرنے کے لیے فوری طور سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان بے حد ضروری ہو چکا ہے۔
ایسے اعلان سے ان افواہوں اور خدشات کا خاتمہ ممکن ہو گا کہ موجودہ نگران حکومت کو طویل عرصے تک ملک پر مسلط کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے تاکہ عسکری قیادت اپنی مرضی کے مطابق ملکی معاملات چلا سکے۔ ہو سکتا ہے کہ ان افواہوں میں کوئی حقیقت نہ ہو لیکن جب انہیں مسترد کرنے کے لیے موثر طور سے کوئی اقدام دیکھنے میں نہیں آئے گا اور نگران وزیر اعظم یوں میڈیا مہم جوئی کریں گے جیسے وہ انتخابات میں سہولت کاری کے لیے اس عہدے پر فائز نہیں ہوئے بلکہ خود انتخابات میں حصہ لینا چاہتے ہیں تو بعض اوقات جھوٹ بھی سچ ہی محسوس ہونے لگتا ہے۔ آرمی چیف نے تاجروں سے بات چیت اور مختلف بیانات میں مسلسل معاشی استحکام کی بات بھی کی ہے۔ یہ استحکام حاصل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ملک میں عوام کی نمائندہ حکومت قائم ہو جو مکمل اتھارٹی کے ساتھ فیصلے کرسکے اور پارلیمنٹ کے ذریعے عوام کی خواہشات کے مطابق عوامی مسائل کا حل تلاش کیا جا سکے۔
اس انتظام کا متبادل متعدد بار ملک میں آزمایا جا چکا ہے لیکن ہر بار اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ فرد واحد کی حکومت کسی بھی دور میں پاکستان کو درپیش مسائل کا حل تلاش نہیں کر سکی اور نہ ہی عوام کو معاشی طور سے مطمئن کیا جا سکا ہے۔ ماضی کی تمام فوجی حکومتوں کے ادوار کا مشاہدہ کیا جائے تو دیکھا جاسکتا ہے کہ ایوب خان، جنرل ضیا اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار کو صرف امریکی اعانت اور معاشی سہولت کاری کی وجہ سے طوالت حاصل ہوئی تھی۔ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر ایوب خان سوویت یونین کے خلاف پاکستان کو امریکہ کی ’فرنٹ اسٹیٹ‘ نہ بناتے، جنرل ضیا اور پرویز مشرف اپنے اپنے دور میں افغان جنگوں میں امریکی معاون کا کردار ادا کرنے سے انکار کر دیتے تو ان حکومتوں کی مدت بہت مختصر ہو سکتی تھی کیوں کہ کسی فوجی آمر کو نہ تو دنیا تسلیم کرتی ہے اور نہ ہی اس کے پاس سیاسی و معاشی معاملات چلانے کا شعور ہوتا ہے۔ فوج کی تربیت سیکورٹی فورس کے طور ہوتی ہے۔ عسکری قیادت اکثر و بیشتر اس غلط فہمی کا شکار رہی ہے کہ وہ فوجی ڈسپلن اور بندوق کی طاقت کے بل بوتے پر ملک میں سیاسی حبس کا ماحول پیدا کر کے ترقی کا راستہ نکال سکتی ہے۔ یہ طریقہ بار بار ناکام ہو چکا ہے۔ موجودہ عسکری قیادت کو تاریخ کے اس سبق کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔
براہ راست حکومتی کنٹرول سنبھال کر، آئین معطل اور میڈیا و عدلیہ کو زیر نگیں کرنے کے ہتھکنڈوں سے کوئی بھی فوجی آمر ملک میں استحکام یا خوشحالی نہیں لا سکا۔ ناجائز اور عاقبت نا اندیشانہ طور سے امریکی جنگوں میں شراکت سے وقتی معاشی فائدے ضرور حاصل کیے گئے۔ ایوب عہد کے علاوہ ضیا و مشرف کے ادوار میں افغان جنگوں کی وجہ سے پاکستان نے کثیر امریکی امداد وصول کی لیکن دیکھا جاسکتا ہے کہ یہ بے بہا وسائل بھی ملکی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ بلکہ ان وسائل کی فراوانی سے انتہاپسندی، دہشت گردی، اسلحہ کا لین دین، اسمگلنگ اور بلیک مارکیٹ جیسی علتوں کو فروغ حاصل ہوا۔ اسی وجہ سے پاکستان کی پیداواری صلاحیت میں تو اضافہ نہیں ہوا لیکن بدعنوانی کو ضرور عروج ملا جس نے جستہ جستہ ملکی معیشت کو کھوکھلا کر دیا۔ سیاسی مقاصد سے مسلم لیگ (ن) کی قیادت ایک بار پھر یہ اصرار کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ اصل قصور وار عمران خان اور تحریک انصاف ہے اور انہیں اس کی سزا ملنی چاہیے۔ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ملک میں معاشی انحطاط کی کہانی کا پس منظر بہت بھیانک اور المناک ہے لیکن کسی بھی دور میں اس سے سبق سیکھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔
اب آرمی چیف ملکی سرمایہ داروں کو یہ تسلی دیتے ہیں کہ عرب ممالک ایک سو ارب تک کی سرمایہ کاری کریں گے جس سے ملکی معیشت بحال ہو جائے گی۔ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ بھی یہی راگ الاپتے رہے ہیں۔ لیکن ان دونوں حضرات کو علم ہونا چاہیے کہ سرمائے کی اپنی نفسیات ہوتی ہے۔ وہ اسی طرف رخ کرتا ہے جہاں پیداوار کے امکانات اور منافع کا امکان موجود ہو۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی ولی عہد خوشی خوشی بھارت کے دورے پر جاتے ہیں لیکن پاکستان کی اس درخواست کو قبول نہیں کیا جاتا کہ وہ چند گھنٹے اسلام آباد میں بھی گزار لیں۔ اس وقت پاکستان کو جس بے یقینی کا سامنا ہے، اس کی بنیادی وجہ نظام حکومت کے بارے میں بداعتمادی کی فضا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ ملک میں جمہوری حکومت کو راستہ دیا جائے گا یا عسکری ادارے مسلسل زبردستی اقتدار پر قابض رہنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ اس صورت حال میں کوئی کمپنی یا ملک پاکستان کی معیشت میں طویل المدت سرمایہ کاری نہیں کرے گا۔ ضروری ہے کہ دنیا کو یقین ہو کہ پاکستان ایک پائدار اور قابل اعتبار حکومتی نظام کی طرف گامزن ہے۔ اس کے لیڈر خواہ وہ سیاسی ہوں یا فوجی، ملکی آئین کا احترام کرتے ہوئے، عوامی رائے کے مطابق حکومت قائم کرنے کے اصول کو تہ دل سے قبول کریں گے یا حکومت سازی اور فیصلہ سازی کے سلسلہ میں بے یقینی جاری رہے گی۔ اگر اس معاملہ پر واضح اشارے نہ دیے گئے تو ملک میں ایک سو ارب ڈالر کے لگ بھگ تو کیا چند ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا خواب دیکھنا بھی غلط ہو گا۔
اس حوالے سے الیکشن کمیشن کا اعلان بنیادی اور فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے۔ اگر الیکشن کمیشن مسلسل انتخابات کے حوالے سے بے یقینی پیدا کرنے کا سبب بنے گا تو وہ نہ صرف اپنی آئینی ذمہ داری سے گریز کا مرتکب ہو گا بلکہ اس ایک کوتاہی سے ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ بہت جلد پاکستانی حکومت کو ایک بار پھر آئی ایم ایف سے نیا پیکیج لینے کے لیے بھاگ دوڑ کرنا پڑے گی لیکن نگران نظام کے تحت شاید ایسا کوئی معاہدہ کرنا آسان نہ ہو۔ کیوں کہ نگران حکومت کے تو نام سے ہی واضح ہوتا ہے کہ یہ عارضی انتظام ہے۔ دیوالیہ ہونے کے کنارے کھڑے کسی ملک کو اگر عالمی مالیاتی ادارہ سہارا دے گا تو وہ یہ بھی ضرور چاہے گا کہ وہاں پر کوئی قابل اعتبار حکومت موجود ہو۔ ایسی حکومت انتخابات کے انعقاد سے ہی ممکن ہے۔ اگر اس عذر کو مان بھی لیا جائے کہ الیکشن کمیشن حلقہ بندیوں کی وجہ سے 90 دن کی مقررہ مدت میں انتخابات نہیں کروا سکتا تو بھی انتخابی شیڈول کے بارے میں واضح اور دو ٹوک اعلان ہی ملکی و عالمی سطح پر بے یقینی کا خاتمہ کرسکے گا۔ اسی صورت میں ملکی معیشت میں پیش رفت کی امید کی جا سکتی ہے۔
یہاں یہ نوٹ کرنا بھی اہم ہے کہ 2008 میں پرویز مشرف کی حکومت ختم ہونے کے بعد اگرچہ بظاہر انتخابی طریقہ مروج کیا گیا اور یکے بعد دیگرے تین مختلف پارٹیوں نے حکومتوں کی قیادت کی۔ یہ انتظام اگر سختی سے جمہوری ہوتا اور فوج و عدلیہ آئین کی مقررہ حدود میں رہتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دیتیں تو ان پندرہ سال کا یہ عرصہ رائیگاں نہ جاتا۔ اور ایک قابل اعتبار نظام حکومت کی وجہ سے ملکی معیشت اور سفارت کاری کو اس وقت ان مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑا جو اس وقت اسے درپیش ہیں۔ ماضی قریب کے مشاہدہ سے دیکھا جا سکتا ہے کہ پہلے پیپلز پارٹی کی حکومت کو انگلیوں پر نچانے کا اہتمام کیا گیا اور عمران خان کے ذریعے میمو گیٹ اسکینڈل کو عوام کے دلوں میں پیپلز پارٹی کی سازش کے طور پر اتارنے کی کوشش کی گئی۔ نواز شریف کو آئندہ حکومت کا لالچ دے کر آصف زرداری کی حکومت کے خلاف عدالت جانے اور اسے کمزور کرنے کے کام پر مامور کیا گیا۔ 2013 میں جب نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہوئی تو پہلے تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنے سے اسے کمزور کرنے کی کوشش کی گئی۔ البتہ آصف زرداری کی عقلمندی سے پارلیمنٹ نے نواز شریف کی حمایت کی اور یہ سازش ناکام ہو گئی۔ اس کے بعد تحریک لبیک پاکستان کے ذریعے فیض آباد دھرنے کے ذریعے اسے چیلنج کیا گیا۔ ڈان لیکس نے حکومت کو مسلسل دفاعی پوزیشن کی طرف دھکیلا اور بالآخر پاناما پیپرز کا سہارا لے کر ایک مقبول لیڈر کو نا اہل قرار دے کر جیل میں ڈال دیا گیا۔
اسی مدت میں ملک میں ہائبرڈ نظام قائم کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی اور عمران خان کی قیادت میں ’ون پیج‘ والی حکومت قائم کردی گئی۔ تھوڑے عرصے کے ہنی مون کے بعد ایک سیاسی پارٹی اور فوج کا یہ مشترکہ منصوبہ ناکام ہو گیا۔ اپریل 2022 میں عدم اعتماد تحریک کی کامیابی سے اس تجربہ کا آخری باب بھی رقم ہو گیا۔ اب یہ ساری کہانی لوگوں کو ازبر ہے۔ یہاں اسے بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ملک میں کوئی ایسا نظام کام نہیں کرے گا یا اسے عوام کا اعتماد اور عالمی بھروسا حاصل نہیں ہو گا جو کسی جعل سازی کا نتیجہ ہو۔ فوج کے ساتھ مل کر انتخابات میں گڑ بڑ سے اقتدار حاصل کرنے کی کوئی بھی کوشش، پاکستان کے موجودہ بحران کو اسی طرح گہرا کرے گی، جیسے کسی فوجی لیڈر کی طرف سے براہ راست حکومت پر قبضہ کرنے کا کوئی منصوبہ، ملکی تقدیر کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہو گا۔
ملکی سیاسی پارٹیاں اور عسکری قیادت موجودہ سیاسی، معاشی و سماجی اور سفارتی بحران حل کرنے کے بارے میں خواہ جیسے بھی سہانے خواب دیکھیں یا دکھائیں لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ طاقت کے زور پر عوامی رائے نظر انداز کرنے کے تمام تجربے ناکام ہوچکے ہیں۔ ایک بار پھر ایسا ہی کوئی تجربہ پاکستان میں کسی بہت بھیانک طوفان یا المیے کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔
- نگرانوں کی وضاحتیں اور شخصیت پرستی میں گھری قومی سیاست - 27/09/2023
- عمران ریاض کی واپسی سے نواز شریف کی واپسی تک - 26/09/2023
- کیا عمران خان کے علاوہ نواز شریف بھی انتخابات سے باہر رہیں گے؟ - 24/09/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).