جاگیردارانہ طرز حکومت اور دردناک سسکیاں
اگر بات کریں جاگیرداری کی تو دوسرے الفاظ میں اسے جاگیردارانہ نظام بھی کہا جاتا ہے۔ ذرا گہرائی میں جا کر دیکھیں تو یہ ایک قانونی، اقتصادی، فوجی، ثقافتی اور سیاسی رسوم و رواج کا مجموعہ تھا۔ قرون وسطیٰ میں معاشرے کے طاقت ور لوگوں کی طرف سے سیاسی اور فوجی طاقت کے بل بوتے پر لوگوں کو غلام رکھنے کے عمل کو جاگیردارانہ طرز کا نظام کہا جاتا ہے۔ اگر سندھ میں پیپلز پارٹی کی پندرہ سالہ دور حکومت کی بات کریں تو کہیں سے بھی نہیں لگتا کہ یہاں سندھ میں جمہوری نظام تھا، جس طرح حکمرانوں نے اپنے جاگیرداروں، سرداروں، وڈیروں اور پیروں کے ذریعے سندھ کی عوام کو ظلم و بربریت اور دباؤ میں رکھا ایسی مثال کہیں نہیں ملتی۔ دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے ہمارے دوست احباب اکثر یہی سوال کرتے ہیں کہ ہمیشہ الیکشن میں جیت پیپلز پارٹی کے حصے میں ہی کیوں آتی ہے؟ ان سوال کرنے والے دوستوں کو ہماری دردناک کہانیوں کا کیا پتا کہ ہم کس کرب سے گزرے ہیں؟ اب ذرا پیپلز پارٹی کے کارناموں کی فہرست دیکھئے :
ام رباب چانڈیو کے والد، چچا اور دادا کو اپنے گھر کے قریب ہی 2018 میں قمبر شہداد کوٹ کے میہڑ شہر میں قتل کیا گیا اسی مقدمے میں میں پیپلز پارٹی کے سابقہ دو بھائی رکن سندھ اسمبلی سردار خان اور بہران خان چانڈیو نامزد ہیں آج تک ام رباب انصاف کی منتظر ہے۔
ناظم جوکھیو کو گزشتہ برس اس وقت پیپلز پارٹی رکن سندھ اسمبلی جام اویس گہرام کے بنگلے میں ساری رات تشدد کر کے مار دیا۔ ناظم جوکھیو کا قصور یہ تھا کہ اس نے بیرونی شکاریوں کو تلور کا شکار کرنے سے روکا تھا ناظم جوکھیو کے ہولناک قتل کا دکھ، غصہ، سوگ اور صدمہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا تو جاگیرداروں نے اپنی تاریخ دہراتے ہوئے فہمیدہ سیال کو قمبر شہداد کوٹ کے چھوٹے قصبہ خیر پور جوسو میں قرآن سمیت دونوں کو شہید کر دیا۔
جس وقت اس پر گولیاں برسائی جا رہی تھیں اس وقت اس نے اپنے سینے پر قرآن رکھا ہوا تھا۔ ان ظالموں نے قرآن پاک کا لحاظ نہ کیا اور اس کے سینے پر گولیاں ماریں اور یہ گولیاں پہلے قرآن پاک کو شہید کرتے ہوئے فہمیدہ کے سینے میں پیوست ہو گئیں جس کی وجہ سے قرآن سمیت وہ شہید ہو گئیں۔ فہمیدہ کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ کسانوں اور جاگیرداروں کے درمیان لڑائی کو روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس مقدمے میں سابقہ پیپلز پارٹی کے رکن سندھ اسمبلی گنور خان اسران کے والد نامزد تھے۔
جناب! اب تو میرے ہاتھ لرزنے لگے ہیں اور ٹانگیں کاپنپنے لگی ہیں یہ سوچ سوچ کر کہ کہیں بڑے بڑے لوگوں کے خلاف کچھ غلط تو نہیں لکھ دیا؟
بڑے لوگ! ہاں ہاں ہمارے معاشرے کی نظر میں وہ بڑے لوگ ہی تو ہوتے ہیں ذرا سوچیں! اگر وہ بڑے لوگ نہ ہوتے تو ہمارے وکلاء ان کو خوش آمدید کرنے کے لئے عدالت سے نکل کر باہر سڑک پر ان کا انتظار کیوں کرتے اور کیوں ان کو گاڑیوں تک رخصت کرنے جاتے؟ چلیں پھر بھی مان لیتے ہیں کہ وہ بڑے لوگ نہیں ہیں تو ہمارے سندھ کے معزز صحافی برادران انہی بڑے لوگوں کے ساتھ سیلفی بنوا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش نہ کرتے کہ وہ بڑے لوگوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے ہیں۔
اگر وہ بڑے لوگ نہیں ہم ہی کی طرح ہیں تو عزت بھی ہماری طرح ہوتی۔ چلیں وڈیروں، سرداروں، جاگیرداروں کا ڈر خوف نکالتے ہیں پھر بھی ایک پیر کا ڈر خوف دل میں گھر کر رہا ہے کیونکہ اس پیر نے ”فاطمہ قتل کیس“ کی تفتیش سے پہلے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ان کی درگاہ پر لوگ مردہ لوگوں کو لے کر آتے ہیں تو ہم انہی مردہ لوگوں کو زندہ کر دیتے ہیں۔ اب مجھے بھی یہی ڈر ہے کہ کہیں وہ پیر اپنی کرامت سے مجھے بھی نہ مار دے شاید پھر میرے والدین بھی دوسرے لوگوں کی طرح مجھے بھی اس پیر سے زندہ کروا لیں گے۔ جاگیرداروں، سرداروں، نوابوں، وڈیروں اور پیروں کے ڈر خوف کی وجہ سے کہیں میں اپنے موضوع سے ہٹ تو نہیں گیا؟ چلیں اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔
علامہ اقبال نے صحیح فرمایا:
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
رانی پور کا سانحہ ”فاطمہ قتل کیس“ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے جو ان دنوں قومی میڈیا اور عالمی میڈیا کی زینت بنا ہوا تھا جس بے دردی سے با اثر پیروں کی حویلی میں اس دس سال معصوم بچی کو کافی دنوں سے ”جنسی زیادتی“ کا نشانہ بناتے رہے اور اس کو تنہا چھوڑ کر اس کے مرنے کا انتظار کرتے رہے دم توڑنے کے بعد غسل کروانے والی عورت رو رو کر سوال کرتی رہی کہ ظالموں نے فاطمہ کے کون سے جسم کے حصے پر تشدد نہیں کیا؟
فاطمہ کیس میں اسد شاہ جو کہ بتایا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کے سابق رکن سندھ اسمبلی سید فضل شاہ کا بھتیجا ہے تقریباً ڈیڑھ ماہ گزرنے کے بعد بھی ہمارے تفتیشی ادارے اس کیس کو انجام دینے سے قاصر ہیں۔ اسد شاہ کی بیوی کی گرفتاری ابھی تک نہیں ہو سکی جو کہ اس ہائی پروفائل کیس میں ملوث ہے۔
اب سوال اٹھتا ہے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری متاثرہ خاندان سے تعزیت کرنا تو دور کی بات ہے کبھی مذمتی بیان بھی نہیں دیا یقیناً اسی وجہ سے مذمتی بیان نہیں دیا ہو گا کیونکہ سارے ملزم جن کا یہاں پر ذکر کیا گیا ہے وہ سارے افراد اور پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر سندھ میں پیپلز پارٹی سے سارے جاگیرداروں، وڈیروں، پیروں، سرداروں اور نوابوں کو نکال دیا جائے تو پیپلز پارٹی تینوں صوبوں کی طرح سندھ سے بھی اپنا وجود ختم کر لے گی۔ اب ہمارے دوست احباب جو سوال کرتے ہیں تو ان کے علم میں اضافہ کرتے چلیں کہ یہ تو بالکل ہی چھوٹی سی فہرست ہے جو آپ لوگوں کے آگے رکھی گئی ہیں۔ اب فیصلہ آپ پر چھوڑتے ہیں کہ ایسے نظام کو جمہوری نظام کہیں یا جاگیردارانہ نظام کہیں؟
- 23 ستمبر: اشاروں کی زبان کا عالمی دن - 23/09/2023
- جاگیردارانہ طرز حکومت اور دردناک سسکیاں - 20/09/2023
- تحقیق کی دنیا اور ہماری درسگاہیں - 13/09/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).