کینیڈا میں ہردیپ سنگھ کا قتل اور بھارتی غنڈہ گردی


کینیڈا میں ہردیپ سنگھ نجر کا قتل کسی عام شخص کا قتل نہیں یہ بھارتی نژاد کینیڈین کا قتل ہے۔ بھارت جو دنیا میں سب بڑا سیکولر ملک ہونے کا دعویدار ہے۔ کینیڈا جو وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی مساوات اور عوام دوستی کی وجہ سے انسانی حقوق کے حوالے سے دنیا بھر میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ ہردیپ سنگھ ان دونوں جمہوریتوں کا نمائندہ تھا۔ وہ تیسری دنیا کے کسی غریب ملک کا باسی نہیں تھا جو کسی افریقی ملک میں مارا جائے اور قاتلوں کا سراغ نہ ملے۔

امریکی اخبار ”واشنگٹن پوسٹ“ کے مطابق پینتالیس سالہ ہردیپ سنگھ نجر گیارہ اکتوبر 1977 کو بھارتی پنجاب کے شہر جالندھر میں پیدا ہوئے اور 1997 سے کینیڈا میں مقیم تھے وہ اپنے پلمبنگ کے کام کے ساتھ ساتھ ”سرے“ شہر میں گوردوارے اور سکھ کمیونٹی کے آرگنائزر بھی تھے۔ ہردیپ بھارتی پنجاب میں سکھ کمیونٹی کے حق کی بات کرنے والی ایک موثر آواز تھے اور علیحدگی پسند تحریک خالصتان کے جانے مانے رہنما بھی۔ بھارتی میڈیا کے مطابق بھارت نے ان کا نام دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر رکھا تھا اور دہلی پولیس ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر چکی تھی تاہم وہ شر پسندی کے بھارتی الزامات کی صحت سے انکاری تھے ان کا کہنا تھا کہ پچیس سال سے وہ کینیڈا کے رہائشی ہیں لہذا بھارت میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کا الزام مضحکہ خیز ہے۔ رواں سال اٹھارہ جون کی شام ہردیپ کو ”سرے“ شہر کے گوردوارے کے باہر پارکنگ میں جس کے وہ نگران تھے ان کے پک اپ ٹرک میں گولیاں بار کر ہلاک کر دیا گیا۔ کینیڈین اخبار ’ٹورنٹو سن ”کے مطابق دو نقاب پوش ملزمان نے ان پر گولیاں برسائیں جبکہ تیسرا سہولت کار فرار کرانے کے لئے کار میں موجود تھا۔ ہردیپ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موقع پر ہی جان کی بازی ہار گئے انہوں نے لواحقین میں بیوہ اور دو بیٹے چھوڑے ہیں۔ اس افسوسناک واقعہ کے بعد کینیڈا میں مقیم سکھ شہریوں نے بھارتی سفارتخانے کے باہر مظاہرے شروع کر دیے یاد رہے کینیڈا میں پندرہ لاکھ سے زائد سکھ آباد ہیں۔

کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے پارلیمنٹ سے خطاب میں کہا کہ ہردیپ سنگھ کے قتل میں بھارتی حکومت کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں انہوں نے کہا کہ کینیڈین شہری کی دوسرے ملک کی جانب سے ان کئی سرزمین پر ہلاکت خودمختاری اور جمہوری روایات کی خلاف ورزی ہے۔ کینیڈا نے بھارتی سفیر پون کمار کو کینیڈا سے ملک بدر کر دیا۔ کینیڈہن وزیر خارجہ میلانیا جولی نے کہا کہ ملک بدر کیے جانے والے بھارتی سفیر کینیڈا میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ایجنٹ تھے۔ گو کہ بھارت نے کینیڈین الزامات کی تردید کرتے ہوئے ایک کینیڈین سفیر کو بھارت سے بے دخل کر دیا ہے لیکن اسے بھارتی ہٹ دھرمی کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کیونکہ یہ خالصتان تحریک سے وابستہ سکھ کسی سکھ رہنما کی پہلی ٹارگٹ کلنگ نہیں۔ رواں سال مئی میں پاکستانی پنجاب کے شہر لاہور میں پرمجیت سنگھ کو نامعلوم افراد نے سر میں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ برطانیہ میں مقیم اوتار سنگھ پراسرار طور پر ہلاک ہوئے بھارتی ذرائع دونوں رہنماؤں کا تعلق بھارت میں علیحدگی پسند تحریک خالصتان سے بتاتے ہیں۔ سکھ کمیونٹی نے دونوں واقعات میں ذمہ داری بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ پر عائد کی تاہم دنیا نے کوئی توجہ نہ دی۔ کینیڈا میں خالصتان کے حوالے سے ریفرنڈم اور سکھ کمیونٹی کو حاصل سیاسی آزادی سے مودی حکومت نالاں ہے دہلی میں ہونے والی G 20 کانفرنس میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کے درمیان سرد مہری کو میڈیا کے کیمرے دنیا کو دکھا چکے ہیں۔

سکھ کمیونٹی کا احتجاج تو دنیا اب سے پہلے نظرانداز کرتی ہی آئی ہے، پاکستان نے بھی صوبہ بلوچستان میں ”را“ کی شر پسند کارروائیوں کی جانب کئی بار دنیا کی توجہ مبذول کرائی۔ پاکستان سے بھارتی جاسوس پکڑے گئے، افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی کے لئے بھارتی فنڈنگ کے شواہد سامنے آئے، جڑانوالہ میں پاکستانی مسیحی برادری کو مسلم اکثریت سے لڑانے کی سازش کی کڑیاں بھارت سے جا ملیں لیکن پاکستان کی شکایات اور ثبوتوں کو عالمی سطح پر اس حساسیت اور سنجیدگی سے نہیں لیا گیا جو اس کا حق تھیں۔ کشمیر میں برسوں سے جاری انسانی حقوق کی پامالی اور حریت پسند رہنماؤں پر مظالم پر اگر طاقتور ممالک بروقت آواز اٹھاتے تو آج سکھ کمیونٹی بھارتی بربریت کا شکار نہ ہوتی۔ اگر پاکستان کی جانب سے بھارتی سازشوں اور دہشت گردوں کی پشت پناہی کی شکایات پر ہی بھارت کو تنبیہ کی جاتی تو آج اسے کینیڈا کی خودمختاری پامال کرنے کئی جرات نہ ہوتی۔ بالآخر کینیڈا کے بھارت کے خلاف ٹھوس موقف کے بعد امریکہ نے بھی بھارت کو کینیڈا سے ہردیپ سنگھ کے قتل کے حوالے سے تعاون کا مطالبہ کیا ہے۔ آسٹریلیا سمیت کئی ممالک نے صورتحال پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ بھارت اپنی طاقت کے غرور میں وہ غلطی کر بیٹھا ہے جس سے اس کا چہرہ دنیا بھر میں بے نقاب ہو گیا ہے۔ اگر بھارتی غنڈہ گردی نہ روکی گئی تو کوئی بھی ملک اس کی شرپسندی اور دخل اندازی سے محفوظ نہیں رہے گا اور بھارت میں اقلیتوں کے لئے زمین تنگ ہوتی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments