شناخت پریڈ اور پولیسیہ پردہ
انسان جتنا مہذب ہوتا رہا اتنا ہی اس کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں تبدیلی آتی رہی۔ ضروریات زندگی جب خاندان قبیلے محلے اور گاؤں سے باہر ضرورت بنی تو سماجی رویوں کی وجہ سے پردہ فروغ پاتا رہا۔
اسلام نے اس کو جتنی اہمیت دی مسلمانوں کے مابین اتنا ہی متنازعہ ہے۔ خاص کر مختلف فقہاء کے مابین اور پھر ایک ہی فقہ کے مختلف علماء کے مابین متنازعہ تو نہیں پر مختلف ضرور ہے۔ اور قرآن کریم کی آفاقیت کو ان فقہاء اور اماموں کے سخت فتوؤں، مخصوص مسلکی تعلیم نے عام لوگوں کو علاقائی، قومیت، اور سماجی قیود کے مقید بنا ڈال کر اس کی آفاقیت کو اپنی اپنی مرضی اور ضروریات کے مطابق موڑ دیا۔ اور اس کی شکل تو کیا حیثیت اور اہمیت ہی بگاڑ دی ہے۔
لیکن آج ہم اس پردے کی بات کرتے ہیں جو پاکستان کی پولیس ملزمان سے دوران تفتیش کراتی ہے۔
پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر آئے روز دیکھا جاتا ہے کہ پولیس کا کوئی چھوٹا بڑا افسر اکثر بلکہ آج کل تو جب تقریباً نوے فیصد گرفتار ملزمان کو پریس کانفرنسوں میں پیش کرتے ہیں۔ جس میں وہ کچھ جونیئر اور سینئر پیٹی بند ساتھیوں کے ساتھ ایک بڑی سی میز کے پیچھے بیٹھے ہوتے ہیں۔ اور ان کے پیچھے ملزم یا ملزمان کو ہتھکڑیاں لگائے دو چار پولیس آفیشلز فخر کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ان ملزمان کے چہرے ڈھانپنے کے لیے ٹوپیاں پہنا کر پیش کرتے ہیں۔
یہ سب افسران خوا کسی بھی رینک کے ہوں اور ملک بھر میں کہیں سے بھی ہوں۔ سب کی پریس سٹیٹمنٹ بالکل ایک جیسے ہی ہوتی ہے صرف نام۔ پتہ اور کیس کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ البتہ اس جدید دور میں بھی زمانہ قدیم کے کچھ مستقل اور یکساں جملے ضرور شامل ہوتے ہیں۔ جیسے
ا) فلاں صاحب کی ہدایت پر فلاں فلاں پر مشتمل فلاں کی سرکردگی میں انوسٹی گیشن ٹیم بنائی گئی (ناموں اور عہدوں کی ایک طویل مگر غیر ضروری فہرست پیش کی جاتی ہے)
ب) فلاں نے جدید خطوط اور سائنسی انداز میں جدید طریقہ کار کو بروے کار لا کر اور ملزمان کے خلاف دائرہ تنگ کر کے ان کو گرفتار کیا گیا
ج) ملزمان سے نہایت حکمت عملی اور جدید سائنسی خطوط پر تفتیش کی گئی اور ملزمان نے اپنا جرم قبول کر لیا جو آپ کے سامنے ہیں۔
دوسری طرف یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اکثر مرغی چور ملزمان جو پکڑے جاتے ہیں ان کے گلے میں بھی سلیٹ لٹکا کے اس پر اس کا نام۔ ولدیت۔ مقدمہ نمبر۔ تاریخ۔ جرم اور تھانہ لکھ کے ایسی تصویر پرنٹ۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر انتہائی تضحیک کے ساتھ شائع کی جاتی ہے۔ وہ بھی اس حال میں کہ ابھی وہ ملزم ہی ہوتا ہے مجرم نہیں۔ اور جب تک اس کے خلاف جرم ثابت نہیں ہوتا اور سزا یاب نہیں ہوتا وہ اتنا ہی قابل عزت ہوتا ہے جیسے کوئی عام شہری۔ اور یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ ملزم قانون کا لاڈلہ بچہ ہوتا ہے۔
ایسے ملزمان جن کو جرم کرتے وقت مدعی مقدمہ پہچانتا نہ ہو اور بوقت وقوعہ صرف دیکھا ہو۔ اور رپورٹ لکھتے وقت اس کا حلیہ جیسے قد۔ بال۔ داڑھی مونچھیں کی اور دیگر کوئی تفصیل درج کر کے لکھوائے کہ سامنے آنے پر اس کی شناخت کر سکتا ہوں۔ تو عام طور پر جب پولیس ایسے حلیے کا کوئی بندہ اس کیس میں گرفتار کرتا ہے۔ تو پولیس مدعی سے اس کی پہچان کراتے ہیں۔ ایسے عمل کو شناخت پریڈ کہتے ہیں۔ قانون شہادت آرڈر 1984 کے آرٹیکل 22 ایسا کرنے کے اختیار اور طریقہ کار کے بارے میں ہے
ایسے کیسز میں جب بھی ملزم گرفتار ہوتا ہے تو قانون کے مطابق اس کیس میں ملزم نامزد کرنے کے لیے سب سے پہلے اس کی شناخت پریڈ لازمی کراتے ہے۔ وہ بھی جتنا جلدی ہو اتنا معتبر ہوتا ہے۔
ملزم کی گرفتاری کے وقت ہی سے اس کی شناخت چھپائی جاتی ہے اور کسی صورت میں مدعی کے سامنے نہیں لایا جاتا۔ چونکہ بہت سے قانونی تقاضوں کی تکمیل کے لیے اسے عدالت میں پیش کرنا ناگزیر ہوتا ہے۔ اس لیے ایسے اوقات میں اس کا چہرہ کسی نہ کسی طور ڈھانپ دیا جاتا ہے مطلب پردہ کرایا جاتا ہے تاکہ مدعی اس کو دیکھ نہ پائے۔ شناخت پریڈ کے لیے مقامی مجاز مجسٹریٹ کی اجازت لازمی ہوتی ہے۔ اور ایسا کرتے وقت وہ کسی بھی دوسرے مجسٹریٹ کو شناخت پریڈ کرانے کے لیے مقرر کرتا ہے۔ شناخت پریڈ جیل ہی میں کرایا جاتا ہے۔ جس کے لیے ملزم کو جیل منتقل کیا جاتا ہے۔ جیل میں ملزم کے حلیے کے نو دس افراد لائے جاتے ہیں اور ملزم کو ان میں مخصوص نمبر پر کھڑا کیا جاتا ہے اور پھر مدعی کو لایا جاتا ہے۔ جس سے ملزم جو چھپائے رکھا ہوا ہوتا ہے۔ وہ مجسٹریٹ اور جیل عملہ کے سامنے ان افراد میں ملزم کی پہچان کراتا ہے۔ اور یہ عمل کم از کم تین بار دہرایا جاتا ہے۔ اور ہر بار ملزم اور دیگر افراد کی پوزیشن تبدیل کرائی جاتی ہے۔ تاکہ شک کی کوئی گنجائش نہ رہے۔ مجسٹریٹ کے لیے لازم ہے کہ وہ تمام کارروائی کی تفصیلی رپورٹ من و عن تحریر کرے اور اپنی رائے دے۔ گواہان کے بیانات قلمبند کرے۔ اور اگر ملزم کو کوئی اعتراض ہو جیسے ایسی کارروائی سے قبل کسی بھی وقت کسی بھی جگہ پر اس کو ملزم کے سامنے لایا گیا ہے۔ تو مجسٹریٹ ایسے اعتراض کو بھی ریکارڈ پر لانے کا پابند ہے۔
شناخت پریڈ کا مقصد۔ صرف اور صرف کسی شخص کو مقدمہ میں بطور ملزم نامزد کرنا ہوتا ہے۔ ایسی نامزدگی کے بعد کیس کی تمام کارروائی بمطابق قانون ویسے ہی ہوتی ہے جیسے ایف آئی آر میں نامزد ملزم کی قانونی تقاضوں کی تکمیل کے لیے پولیس کا مخصوص ملزمان کا پردہ (پولیسیہ پردہ) کرانا لازمی ہوتا ہے۔ لیکن اکثر اوقات منشیات یا دیگر ایسے مقدمات میں جس میں پولیسیہ پردے کی قانونی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ پولیس پریس کانفرنسوں میں ملزمان کو چہرے ڈھانپ کے پیش کرتی ہے۔ عوامی احتجاج اور دوسرے سیاسی اور حکومتی دباؤ کو کم کرنے کی غرض سے اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ پولیس شناخت چھپا کے دوسرے بندوں ہی کو پیش کرتی ہے۔ کیونکہ سب اچھا پیش کرنے میں ان کا ماہر ہونا بہت ہی مشہور ہے۔
- کیا پختون من حیث القوم مجرم ہیں؟ - 08/12/2024
- پختونخوا ملی عوامی پارٹی پر غیر سیاسی الزام - 31/10/2024
- بے چارے سیاسی ورکر۔ نہ تحفظ نہ عدالت - 09/08/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).