چین کی اعلیٰ قیادت میں اتھل پتھل اور ژی جن پنگ کی حکمرانی


چین کے صدر ژی جن پنگ نے رواں برس مارچ 2023 میں اپنی تیسری میعاد کے آغاز پر چین کے اعلیٰ عہدوں پر اپنے وفادار رہنماؤں کی غیر معمولی تعداد تعینات کی تھی۔ ان رہنماؤں کے بارے میں انہیں امید تھی کہ وہ چین کے لیے ان کے عظیم عزائم کے حصول کا راستہ ہموار کریں گے۔ تاہم، ایک سال سے بھی کم وقت میں، پے در پے ہنگامہ خیز واقعات نے ژی کی انتخاب کردہ حکمران اشرافیہ کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ اس سے ایک طرف ژی جن پنگ کی قوت فیصلہ سازی پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں بلکہ بین الاقوامی دنیا میں ان کی حکمرانی پر اعتماد بھی تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ یہ سب ایک ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب چین کو اندرون ملک سنجیدہ معاشی مسائل کا سامنا ہے، دوسری طرف عالمی سطح پر امریکہ کے ساتھ جین کی مسابقت تیز و تند ہو رہی ہے۔

حالیہ چند مہینوں میں، عالمی سطح پر چین کے اہم مذاکرات میں کلیدی خدمات انجام دینے والے چینی کابینہ کے دو سینئر ارکان لاپتہ ہو گئے ہیں۔ وزیر دفاع لی شانگفو تین ہفتوں سے عوام میں نہیں دیکھے گئے، جس سے قیاس آرائیاں بڑھ رہی ہیں کہ وہ زیر تفتیش ہیں۔ چند ہفتے قبل، وزیر خارجہ کن گینگ کو ایک ماہ تک عوامی منظر سے غائب رہنے کے بعد ڈرامائی طور پر معزول کر دیا گیا تھا۔ ان رہنماؤں کی اچانک گمشدگی ایسے وقت میں رونما ہوئی ہے جب ژی مغرب کے ساتھ بڑھتے ہوئے تناؤ کے درمیان قومی سلامتی کو درپیش ممکنہ خطرات کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

لی شانگفو اور کن گینگ چین کے ان پانچ ریاستی کونسلروں کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں جو اپنی اہمیت اور اختیارات کے لحاظ سے کابینہ کے دیگر وزیروں سے بالاتر سمجھے جاتے ہیں۔ لی شانگفو سنٹرل ملٹری کمیشن نامی اس طاقتور ادارے کے بھی رکن ہیں جو ژی کی سربراہی میں مسلح افواج کی کمانڈ کرتا ہے۔ ان دو اعلیٰ جرنیلوں کی اچانک برطرفی نے پیپلز لبریشن آرمی کی راکٹ فورس کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ ایلیٹ یونٹ ژی جن پنگ نے چین کی روایتی اور جوہری میزائل صلاحیتوں کو جدید بنانے کے لیے قائم کر رکھا ہے۔ اس تناظر میں چینی فوج میں وسیع تر تطہیر کے خدشات سامنے آئے ہیں۔

ژی جن پنگ کی قیادت میں چینی حکومت پر اخفا کی چادر مزید دبیز ہو گئی ہے۔ حکومت نے مذکورہ اہلکاروں کی تبدیلیوں کے ضمن میں کسی عوامی وضاحت کی ضرورت محسوس نہیں کی اور نہ ہی حکومت نے ان واقعات کے بعد پھیلنے والی ناگزیر قیاس آرائیوں کو ختم کرنے میں کوئی دلچسپی ظاہر کی ہے۔

کن گینگ

گزشتہ روز امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل نے متعلقہ امور سے آگہی رکھنے والے افراد کے حوالے سے لکھا ہے کہ وزیر خارجہ کن گینگ کے بارے میں بین الاقوامی کمیونسٹ پارٹی کی تحقیقات کے ذریعے پتہ چلا ہے کہ وہ واشنگٹن میں چین کے سفیر کے طور پر خدمات انجام دیتے ہوئے کسی خاتون سے جسمانی تعلقات میں ملوث تھے۔ چین کی وزارت خارجہ نے وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

دو اعلیٰ ترین رہنماؤں کی موجودہ حیثیت کے بارے میں ابہام اور شکوک و شبہات سے چین کے بین الاقوامی تاثر کو دھچکا پہنچا ہے۔ واضح رہے کہ بیجنگ حکومت اپنے سیاسی ماڈل کو مغربی جمہوریتوں سے زیادہ مستحکم اور موثر قرار دینے میں سرگرم رہتی ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ چین کی حکمران اشرافیہ کے درمیان بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتحال نے اس کے یک جماعتی نظام کی کمزوریوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ ژی جن پنگ کی تیسری مدت کے دوران ذاتی طاقت کے ارتکاز سے یہ بحران بڑھا ہے۔

سنگاپور کی نیشنل یونیورسٹی کے ایک سینئر ریسرچ فیلو ڈریو تھامسن نے کہا، ”چین میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ واقعی بیجنگ سے نمودار ہونے والے ایک خوفناک سیاسی خطرے کی نمائندگی اور عکاسی کرتا ہے۔“

”شی جن پنگ اور ان کے چنے ہوئے ماتحتوں کے ساتھ ان کے تعلقات کے درمیان سیاسی خطرہ تو موجود ہے ہی، اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ چین میں ان ضابطوں اور اقدار میں بھی بنیادی کمزوریاں موجود ہیں جو کسی نظام میں پائیدار روایات اور قابل پیش بینی طرزعمل کو جنم دیتے ہیں۔“

چینی نظام میں لی شانگفو وزیر دفاع کا کردار اس اعتبار سے رسمی کردار ہی ہے کہ وہ جنگی افواج کی کمان نہیں کرتے۔ تاہم وہ بیرونی دنیا میں چین کی فوجی سفارت کاری کا ایک اہم چہرہ ہیں۔

سنگاپور میں ایس راجا رتنم اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ریسرچ فیلو جیمز چار نے کہا ہے کہ اگر لی شانگفو واقعی مشکل میں ہے تو بیجنگ میں ژی جن پنگ کی تیسری میعاد کے ابتدائی مرحلے ہی میں دو اہم ریاستی کونسلروں کی برطرفی سے انتہائی منفی تاثر پیدا ہو گا۔

مارچ میں وزیر دفاع کے عہدے پر ترقی پانے کے بعد سے، لی شانگفو نے اپنے روسی ہم منصب سے ملاقات کے لیے دو بار ماسکو کا سفر کیا، منسک میں بیلاروس کے صدر سے ملاقات کی، اور سنگاپور میں سیکیورٹی کانفرنس کے دوران امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن سے مصافحہ کیا۔

تاہم، حالیہ ہفتوں میں، مبینہ طور پر لی شانگفو نے متعدد سفارتی مصروفیات میں شرکت نہیں کی۔ وہ ویتنامی حکام کے ساتھ سرحدی دفاع سے متعلق سالانہ اجلاس اور بیجنگ میں سنگاپور کی بحریہ کے سربراہ کے ساتھ ملاقات سے غیرحاضر رہے۔

Li-Shangfu

تاہم ماہرین میں یہ رائے بھی موجود ہے کہ امریکہ اور چین کے تعلقات کو مستحکم کرنے کی کوششوں کے ضمن میں لی شانگفو کی پراسرار غیرموجودگی کو ایک اچھا شگون بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ امریکہ نے 2018 میں چین کی طرف سے روسی ہتھیاروں کی خریداری میں کٓردار ادا کرنے پر لی شانگفو پر پابندیاں لگا دی تھیں۔ بیجنگ میں حکام نے بارہا اشارہ دیا ہے کہ جب تک پابندیاں منسوخ نہیں کی جاتیں، لی شانگفو امریکہ کے ساتھ ملاقات نہیں کریں گے۔

اگر لی کو وزیر دفاع کے عہدے سے ہٹایا جاتا ہے تو یہ ممکنہ طور پر دونوں سپر پاورز کے درمیان اعلیٰ سطحی فوجی مذاکرات کی بحالی کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ژی کے اپنے وفاداروں کے ممکنہ زوال سے اعلیٰ رہنما کے بارے میں بری طرح منفی تاثر جھلکتا ہے، جس نے طاقت اور فیصلہ سازی کو اپنے ہاتھوں میں اس سطح پر مرکوز کیا ہے جو حالیہ دہائیوں میں چین میں نظر نہیں آتا تھا۔

کمیونسٹ پارٹی کے ایک اخبار کے سابق ایڈیٹر ڈینگ یووین، جو اب امریکہ میں مقیم ہیں، کہتے ہیں کہ، ”ژی کے ہاتھوں ترقی پانے والے دو ریاستی کونسلر چھ ماہ کے اندر مشکلات کا شکار ہو گئے، چاہے حکام اس کا دفاع کرنے کی کتنی ہی کوشش کریں، ژی اس الزام سے بچ نہیں سکتے۔ پارٹی کے اندر سوالات ہوں گے کہ انہوں نے کس قسم کے لوگوں کو اہم عہدوں پر رکھا ہے۔“

جاپان میں امریکی سفیر راہم ایمانوئل نے تو ٹویٹر پر ژی جن پنگ کی کابینہ کا موازنہ اگاتھا کرسٹی کے ناول ”اور پھر وہاں کوئی نہیں“ سے کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”نوکریوں سے نکالے جانے کی اس دوڑ کون جیتے گا، چین کا نوجوان یا ژی کی کابینہ؟“

چین پہلے ہی نوجوانوں کی ریکارڈ بے روزگاری اور مقامی حکومت کے بڑھتے ہوئے قرض سے لے کر رئیل اسٹیٹ کے بڑھتے ہوئے بحران تک متعدد معاشی پریشانیوں کا شکار ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ژی جن پنگ کے حکمران حلقے میں بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتحال دنیا کی دوسری بڑی معیشت میں اعتماد کے بحران کو ہوا دے رہی ہے۔

واشنگٹن ڈی سی میں چین میں جمہوری حقوق کے لیے کوشاں فاؤنڈیشن کے ایک اہم اہلکار کریگ سنگلٹن کہتے ہیں۔ ”ژی کی تازہ ترین اعلیٰ سطحی تطہیر ان کے اس خیال کو واضح کرتی ہے کہ کسی قوم کی طاقت اقتصادی کارکردگی یا مفروضہ فوجی صلاحیت سے نہیں، بلکہ نظریاتی ہم آہنگی سے متعین ہوتی ہے۔ انہوں نے یہ سبق سوویت یونین کے خاتمے سے حاصل کیا تھا۔“

”لی شانگفو کی برطرفی چین کے خارجہ تعلقات پر کوئی سنجیدہ اثر نہیں ڈالے گی لیکن تقریباً یقینی طور پر عالمی کاروباری برادری کے چینی کمیونسٹ پارٹی کی حد سے بڑھتی جارحیت اور چین میں کم ہوتی شفافیت کے حوالے سے روز افزوں خدشات کو تقویت ملے گی۔“

65 سالہ فوجی رہنما لی شانگفو نے جنوب مغربی صوبے سیچوان میں چین کی ایک اہم سیٹلائٹ لانچ سائٹ پر اپنی عملی زندگی شروع کی اور ترقی کرتے ہوئے اس کے ڈائریکٹر بن گئے۔ لانچ سینٹر میں تین دہائیاں گزارنے کے بعد انہیں 2013 میں، ژی کے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد ، پیپلز لبریشن آرمی کے ہیڈ کوارٹر میں اسلحہ سازی کے شعبے میں ترقی دی گئی۔

General Zhang Youxia

لی شانگفو کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ جنرل ژانگ یوشیا ان کے سرپرست ہیں۔ ژانگ یوشیا ژی کے بچپن کے دوست اور فوج میں قریبی اتحادی ہیں۔ ژانگ کی اہمیت کو علامتی طور پر واضح کرنے کے لئے گزشتہ اکتوبر میں قیادت کی تبدیلی کے دوران سنٹرل ملٹری کمیشن (سی ایم سی) کے پہلے نائب چیئرمین کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی، اگرچہ وہ ریٹائرمنٹ کی عمر پوری کر چکے ہیں۔ لی شانگفو 2017 سے 2022 تک، CMC کے اسلحہ سازی کے شعبے کے سربراہ کی حیثیت میں چین کے ہتھیاروں کی خریداری کے انچارج تھے، اس عہدے پر قبل ازیں جنرل ژانگ یوشیا بھی فائز تھے۔

راکٹ فورس کے دو اعلیٰ جرنیلوں کو اچانک ہٹائے جانے سے کچھ دن پہلے، جولائی میں آلات کی ترقی کے محکمے نے خرید و فروخت میں بدعنوانی کے خلاف ایک نئے کریک ڈاؤن کا اعلان کیا، جس میں 2017 سے شروع ہونے والی قابل اعتراض سرگرمیوں کے بارے میں تجاویز طلب کی گئیں۔ لی شانگفو نے 2017 ہی میں اس شعبے کی قیادت سنبھالی تھی۔

اقتدار میں آنے کے بعد سے، ژی نے بدعنوانی کے خلاف ایک بے رحم مہم چلا رکھی ہے، جس میں اب تک سینکڑوں اعلیٰ حکام، جرنیلوں اور لاکھوں ماتحت اہلکار گرفت میں آ چکے ہیں۔ نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے محقق تھامسن کہتے ہیں کہ ”10 سال قبل بھی ژی جن پنگ بدعنوانی سے لڑ رہے تھے۔ آج بھی انہیں وفاداری کے مسائل کا سامنا ہے۔ وہ اب بھی پارٹی اور فوج میں باہم اعتماد پر تحفظات رکھتے ہیں۔ اس سے بیجنگ میں طرز حکمرانی کے کچھ بنیادی مسائل ظاہر ہوتے ہیں۔ چیک اینڈ بیلنس کا فقدان اور پارٹی میں ٹاپ ڈاؤن اختیارات پر حد سے زیادہ انحصار ان ترغیبات کو دور کرنے میں معاون نہیں ہو سکتے جو بدعنوانی کی اصل جڑ ہیں۔“

Corruption executions

یہاں تک کہ جب وہ حالیہ دہائیوں میں کسی بھی دوسرے چینی رہنما کے مقابلے میں پہلے ہی زیادہ طاقت حاصل کر چکے ہیں، ژی اب بھی پارٹی اور فوج میں اپنے اختیار کو مستحکم کرنے کی مہم میں دوگنا اضافہ کر رہے ہیں۔ تھامسن نے کہا کہ نظام میں افراد کے درمیان سیاسی اعتماد کا فقدان اس مہم کا بنیادی محرک ہے۔

گزشتہ ہفتے جب وزیر دفاع کے بارے میں قیاس آرائیاں عروج پر تھیں، ژی نے چین کے شمال مشرقی حصے میں دورہ کرتے ہوئے فوج کے اندر اتحاد اور استحکام پر زور دیا۔ ژی واحد چینی رہنما نہیں ہیں جو بے پناہ ذاتی اقتدار حاصل کرنے کے بعد اپنے ہی حلقے کے خلاف ہو گئے ہیں۔ چیئرمین ماؤزے تنگ، ژی سے پہلے سب سے طاقتور چینی رہنما، نے ثقافتی انقلاب میں اپنے بہت سے قابل اعتماد اتحادیوں کو پاک کیا۔

ایس راجا رتنم اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ماہر چار نے خبردار کیا ہے کہ حالیہ سیاسی ہلچل کا یہ مطلب نہیں کہ ژی اقتدار پر اپنی گرفت کھو رہے ہیں۔ ”یہ حقیقت کہ وہ جسے چاہے ہٹا سکتا ہے۔ ژی کے اختیارات کی عکاسی کرتا ہے“ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ ”لی اور کن کی گمشدگی چین میں یک جماعتی مرکزی حکومت کی علامت ہے۔ جب تک ژی جن پنگ میں پورے سیاسی نظام کی اصلاح کا عزم بیدار نہیں ہوتا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اس طرح کی تطہیری مہم بازی جاری رہے گی۔“

(سی این این کے لئے Nectar Gan کی اس تحریر کا ترجمہ وجاہت مسعود نے کیا ہے۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).