کتاب کی کشش کم نہ ہوگی


یہ کوئی سولہ برس پرانی بات ہوگی، جب اخبار پڑھنے کی چیز ہوا کرتا تھا، زیادہ صفحات کے ساتھ خریدنے کی استطاعت میں بھی تھا۔ ایک لڑکا جس نے آج تک غیر نصابی کتب کے سوا کوئی کتاب نہ خریدی تھی وہ اخبار متواتر خریدتا، ایڈیٹوریل صفحہ فولڈ کر کے کالج کے بستے میں ڈال دیتا۔ گھر سے کالج کی راہ تک دو سوزوکیاں بدل کر سفر انجام کو پہنچتا تھا۔ اس کا یہ معمول تھا کہ دو کالم کالج جاتے ہوئے، اور دو کالج سے گھر آتے ہوئے سوزوکی میں ہی پڑھ ڈالنے۔

انتظار حسین، امجد اسلام امجد، عبد القادر حسن، زاہدہ حنا، مسعود اشعر، غازی صلاح الدین اور یاسر پیرزادہ سے میرا تعارف اسی زمانے میں، انہی صفحات کی بدولت ہوا۔ انتظار حسین تھرپارکر میں مور کی وفات اور ماحولیات پر ان کے اثرات کا ذکر کر رہے ہیں، امجد اسلام امجد صاحب کسی کتاب پر تبصرہ فرما رہے ہیں، زاہدہ حنا کسی ادبی فیسٹیول کی روداد سنا رہی ہیں اور یاسر پیرزادہ منجمد نظریات کے بتوں کو پاش پاش کر رہے ہیں۔

وقت گزرتا گیا، وہ سولہ سترہ برس کا لڑکا اخبار پڑھتے پڑھتے کب کتاب خرید کر پڑھنے لگ گیا، کچھ معلوم نہیں۔ انجینئرنگ کرلی، پروفیشنل لائف شروع ہوئی۔ آفس جاتے ہوئے سفر کا ایک حصہ میٹرو بس میں گزرتا اور ایک سوزوکی میں۔ دنیا و مافیا سے بے خبر تاوقتیکہ کوئی حسین لڑکی یا عورت نظروں کے سامنے نہ آئے۔ میٹرو بس میں سیٹ کبھی مل گئی اور کبھی یونہی کھڑے ہو کر کتاب تھام کر پڑھنی شروع کر دینی۔ سوزوکی والا کسی سٹاپ پر کتنی دیر رکا ہے، ٹریفک جام ہے یا نہیں۔ اس بات سے کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا فقط اس روز جس روز کتاب ساتھ لانا بھول جاؤں۔

وقت کے ساتھ یہ عادت کم ہو گئی۔ دنیا کی تیز رفتاری کے ساتھ چلنے کے لئے ہر جگہ جلدی اور وقت سے پہلے پہنچنے کی دوڑ میں سفر کے وسائل اور ذرائع بدلے، ہم سہل پسندی اور پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کے دوران کوفت نہ اٹھانے کے عادی ہوئے تو بہت سی اچھی عادتیں ساتھ چھوڑتی چلی گئی۔ آج مدت کے بعد ایک رکشے میں بیٹھا تو پچھلی سیٹ پر بلب روشن تھا، اندھا کیا مانگے دو آنکھیں۔ زنبیل سے کتاب نکالی اور ورق گردانی شروع، راہ میں کتنا رش ہے، سڑک بند ہے یا کھلی، اپنے کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ اور سہیل احمد خان صاحب نے کتابوں اور مطالعے سے عشق بارے ہی تو لکھا ہے۔

”فراغت کو جدید زندگی کا دھارا بہا کر لے گیا، چمن سکڑ گئے یا گھر سے دور ہو گئے۔ جو ہیں وہاں آئس کریم اور پوپ کارن کھاتے ہجوم کے درمیان کتاب پڑھنے کا انہماک کہاں ملے گا اور خود کتاب، کہا جا رہا ہے کہ کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور سی ڈی کے زمانے میں کتابوں کا بازار بھی مندا پڑتا جا رہا ہے۔ جی ہاں اگر پچاس ہزار کا انسائیکلوپیڈیا یا ایک ہزار کی سی ڈی میسر ہو جائے تو آپ کسے ترجیح دیں گے؟ خیر ہمارے ہاں جیسے جدید سواریوں کے دور میں تانگے بھی چلتے ہیں، اسی طرح ہمارے ہاں تو کتاب ابھی موجود رہے گی۔

یوں بھی جہاں ایک ہزار کتاب خریدنے والے موجود نہ ہوں سی ڈی پر کتابیں کتنے لوگ لیں گے۔ بہرحال، کتاب رہے یا نہ رہے میری نسل کے ان لوگوں کے لیے، جنہیں مطالعے کا ذوق ہے۔ کتاب کی کشش کم نہیں ہوگی۔ ہم کمپیوٹر چلانا سیکھ جائیں گے، حوالے کی بعض کتب کے لئے سی ڈی کا سہارا لیں گے لیکن وابستہ کتاب کے ساتھ ہی رہیں گے۔ آئندہ نسلوں کی ترجیحات اپنی ہوں گی اور انہیں ان کو متعین کرنے کا حق ہو گا۔ ”

مزید لکھتے ہیں :

”برسات کے دنوں میں کتابوں کی الماریاں کھول کر جائزہ لینا۔ ریستوران، ٹرین یا بس میں کتاب کا مطالعہ، سردی کے دنوں میں کوٹ کی جیب میں کتاب ٹھونسنا، کتابوں کو سرہانے تلے رکھنا اور ضرورت پڑنے پر ان کا تکیہ بنانا۔ کتاب سے رشتے کی متعدد صورتیں ہیں۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments