سیاسی جماعتوں کی بیانیہ سازی


”صحافت“ جب ”بیانیوں“ کی جنگ بن جائے تو ”حقائق“ وقعت کھو دیتے ہیں۔ سچ اور جھوٹ میں امتیاز کے خاتمے کے بعد وہ ”علاقہ“ شروع ہوجاتا ہے جسے ٹرمپ کے امریکہ کا صدر منتخب ہوتے ہی اس کی ایک دھانسو ترجمان نے ”مابعد الاحقائق“ کا عنوان دیا تھا۔ بہرحال ہمارے ہاں اگر سیاسی جماعتوں کی ”بیانیہ سازی“ کے عمل پر غور کیا جائے تو اس میدان پر تحریک انصاف کا کامل اجارہ نظر آتا ہے۔ دورِ حاضر میں لوگوں کے پاس اخبارات پڑھنے کی فرصت نہیں رہی۔ ٹی وی شوز گھر میں لگائے ٹی وی پر نسبتاً کم لوگ دیکھتے ہیں۔ جسے ”خبر“ تصور کیا جاتا ہے وہ عوام کی اکثریت کو عموماً ٹویٹر، فیس بک کی بدولت ملتی ہے۔ بیانیہ سازی کے تناظر میں یوٹیوب ہے اور اس سے کہیں زیادہ کارگر ٹک ٹاک بھی ہے۔

چند روز قبل دانتوں کے علاج کی خاطر اسلام آباد کے ایک کلینک جانا پڑا۔ مجھے جبڑوں کی حفاظت کے لئے سرجری کے عمل سے گزرنا تھا۔ جو ڈینٹسٹ گزشتہ کئی برسوں سے میرے دانتوں کا نگہبان ہے عمر بڑھنے کے ساتھ اپنی صلاحیتِ گرفت کمزور کرچکا ہے۔ میری سرجری کے لئے اس نے ایک نوجوان ڈاکٹر سے مدد کی درخواست کی۔ جو ڈاکٹر تشریف لائیں وہ متاثر کن حد تک معصوم اور مہذب تھیں جن کی عمر میری بڑی بیٹی کے برابر ہوگی۔ میرے ڈاکٹر نے نہایت مان سے یہ کہتے ہوئے ان سے میرا تعارف کروایا کہ میں ایک ”مشہور“ صحافی ہوں جو اکثر ٹی وی شوز میں بھی موجود ہوتا ہے۔ اس خاتون نے نہایت برجستگی سے یہ جواب دیتے ہوئے میری ”اوقات“ عیاں کردی کہ اسے ”خبریں“ جاننے کا شوق نہیں۔ انسٹاگرام کی وجہ سے اگرچہ سیاستدانوں کے بارے میں معلومات اسے ملتی رہتی ہیں۔

میری ”اوقات“ یاد دلانے کے باوجود اس نے سرجری کے آغاز سے قبل جبڑوں کو درد سے بچانے کے لئے سن کرنے والا ٹیکہ لگانے کے بعد آسمان کی طرف منہ کرتے ہوئے ایک طویل دعا پڑھی اور اس کے بعد اللہ کا بلند آواز میں نام لے کر سرجری کا عمل شروع کیا۔ اس کی آلات سرجری پر گرفت کامل تھی اور تقریباً 50 منٹوں تک اس نے میری سرجری پر توجہ مرکوز رکھی۔ اپنے کام پر اس کے انہماک نے مجھے پاکستان کی نوجوان نسل کے بارے میں فخر کو مجبور کیا۔ اس نے جو ”مرمت“ کی تھی اس کے جائزے کے لئے مجھے ایک ہفتے بعد بھی اس ڈاکٹر سے ملنا پڑا۔ وہ خوش ہوئی کہ اس کی محنت رائیگاں نہیں گئی۔ جائزہ لینے کے فوری بعد ربّ کریم کا شکریہ ادا کرنے کے لئے ہاتھ اٹھا لئے۔ اپنے اطمینان کے بعد میرے لئے احتیاط کی چند تراکیب لکھتے ہوئے اس نے سرسری انداز میں مجھ سے فقط یہ پوچھا کہ میں عمران خان کے بارے میں بطور صحافی کیا محسوس کرتا ہوں۔ میں نے دیانتدارانہ رائے کا اظہار کر دیا۔ ابھی اپنی رائے مکمل ہی نہیں کر پایا تھا تو اس نے ”آپ نے میرا دل توڑ دیا ہے“ کہتے ہوئے گفتگو ختم کردی۔ اس شائستہ اور پروقار بچی کے رویے سے مجھے اندازہ ہوا کہ وطن عزیز میں انسٹاگرام بھی عمران خان کے بیانیہ کا پروموٹر بن چکا ہے۔

بہرحال آج کے موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔ بیانیہ سازی اور اس کے فروغ پر کامل اجارہ کی وجہ سے تحریک انصاف یہ تاثر پھیلانے میں کامیاب ہے کہ ان کے قائد کو قید میں رکھنے والی قوتیں اب ان سے کسی نہ کسی نوعیت کے ”مک مکا“ کو بے تاب ہیں۔ عمران خان کے ثابت قدم حامیوں کی اکثریت میں مقبول یوٹیوبر تواتر سے یہ ”خبر“ بھی پھیلا رہے ہیں کہ مقتدر کہلاتی قوتوں کے ”اہم ترین“ نمائندے اٹک جیل میں ان کے قائد سے مسلسل ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ ان سے درخواست ہو رہی ہے کہ وہ فی الحال جیل سے نکل کر کسی غیر ملک چلے جائیں۔ ان کی عدم موجودگی میں انتخاب کا عمل مکمل ہو جائے تو نئی حکومت کے قیام کے بعد وطن لوٹ آئیں۔ یوں ملک کو ”استحکام“ بھی نصیب ہو جائے گا اور عمران خان قیدوبند کی اذیتوں سے بھی محفوظ رہیں گے۔

ذات کا رپورٹر ہوتے ہوئے میں مذکورہ بالا کہانی پر یقین کرنے کو ہرگز تیار نہیں ہوں۔ ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے یہ بات کہنے کو مجبور ہوں کہ مقتدر قوتیں موجودہ حالات میں عمران خان کو بیرون بھجوانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتیں۔ فرض کریں عمران خان جلاوطنی کی مبینہ پیش کش کو تسلیم کرتے ہوئے لندن روانہ ہو گئے تو وہ ہزاروں مداحین سمیت برطانیہ کے ہر بڑے شہر میں بھاری بھرکم اجتماعات سے خطاب کریں گے۔ وہاں سے وہ زوم وغیرہ کے ذریعے قوم سے روزانہ خطاب کرتے ہوئے بھی حکومت کی زندگی اجیرن بنا دیں گے۔

ہمارے ہاں ٹی وی سکرینوں پر چھائے دو صحافی ہوا کرتے تھے۔ ہماری نظریاتی سرحدوں کے محافظوں نے انہیں پانچویں پشت کی ابلاغی جنگ لڑنے کے لئے وافر سرپرستی اور مالی معاونت فراہم کی تھی۔ عمران حکومت کے اختتام کے بعد وہ مگر امریکہ پہنچ گئے اور ان دنوں ان کے چلائے یوٹیوب چینل کھڑکی توڑ رش لے رہے ہیں۔ اس تناظر میں ذرا سوچیں کہ وطن سے نکل کر عمران خان اپنا یوٹیوب چینل شروع کر دیں تو اس کی مقبولیت اور اثر کا کیا عالم ہو گا۔ یہ دعویٰ کہ عمران خان کو معاف کردینے کے بعد ملک سے باہر بھجوانے کی پیشکش ہو رہی ہے عقل کا غلام ہوا میرا ذہن منطقی اعتبار سے قبول نہیں کر سکتا۔ اس دعویٰ کو مگر ہمارے متوسط طبقے کے کافی پڑھے لکھے افراد دل و جان سے درست تسلیم کر رہے ہیں۔

اس دعویٰ کے ساتھ کہانی یہ بھی چلائی گئی کہ عمران خان کو جب رہا کرنے کی پیشکش ہوتی ہے تو وہ نہایت اعتماد سے اپنے ساتھ ملنے والوں کو یہ بتا کر حیران کر دیتے ہیں کہ وہ جیل میں ”خوش“ ہیں۔ اس وقت تک یہاں سے باہر آنے کو تیار نہیں ہوں گے جب تک ان کے جیلوں میں رکھے یا مبینہ طور پر ”گم شدہ“ کیے حامیوں کی زندگی آسان نہیں ہوتی۔ یہ کہانی پھیلانے کے بعد دعویٰ یہ ہوا کہ عمران خان کا دل موہ لینے کے لئے اب ان کے وفاداروں کے ساتھ ہمدردانہ سلوک ہوا کرے گا۔

گزشتہ کئی ماہ سے ”گم شدہ“ ہوئے عمران ریاض خان کا پیر کے روز اچانک ”بازیاب“ ہوجانا مذکورہ بالا بیانیے کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ ابھی اس کے مضمرات کو لوگ اچھی طرح سمجھ ہی نہیں پائے تھے تو میرے بہت ہی مہربان رہے ایڈیٹر مشاہد حسین سید صاحب نے پیر ہی کے دن ایک ٹی وی انٹرویو دیتے ہوئے اس امکان کا برملا اظہار کر دیا ہے کہ عمران خان کے ساتھ ”مدر آف آل ڈیلز“ ہو سکتی ہے۔ مشاہد صاحب کے بیان کردہ امکان کو عمران ریاض خان کی ”بازیابی“ کے ساتھ ملا کر دیکھتے ہوئے تحریک انصاف اب اپنے لئے ”اچھے دنوں“ کا انتظار کرنا شروع ہو گئی ہے۔
بشکریہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments