آدھا تیتر آدھا بٹیر والا کام نہیں چلے گا
تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف جب تحریک عدم اعتماد پیش کی جا رہی تھی درویش اس وقت ان لوگوں میں شامل تھا جو اپنی تحریروں کے ذریعے نون لیگ کو اس ایڈونچر سے باز رکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ نون لیگ کے چند اہم رہنماؤں تک براہ راست بھی اپنے تحفظات پہنچائے کہ موجودہ معاشی حالات کے تناظر میں کسی بھی دوسری جماعت کی نسبت نون لیگ کے مفاد میں اقتدار سنبھالنا سب سے نقصان دہ ہو گا۔ کیونکہ آئی ایم ایف سے معاہدہ پایہ تکمیل تک پہنچا تو لا محالہ مہنگائی کا سیلاب آئے گا جس کے بعد تحریک انصاف اپنی ناکامی عوام کے ذہنوں سے محو کر کے خود کو سیاسی شہید کے طور پر متعارف کرا لے گی۔
اس کے علاوہ اس خدشے کا بھی اظہار کیا تھا کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم جیسی جماعتیں اقتدار کے فوائد سے مکمل طور پر بہرہ مند ہوتی رہیں گی مگر حکومتی اتحاد کی سربراہی سنبھال کر بدنامی صرف نون لیگ کے حصے میں آئی گی۔ اسمبلیوں کے خاتمے کے بعد پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے بیانات سے یہ خدشات بھی درست ثابت ہوئے ہیں۔ نا اس وقت نون لیگ کے پاس مفروضہ خوف کے بیان کے سوا کوئی تسلی بخش جواب تھا اور نہ آج ہے کہ صرف عمران خان کو وزیراعظم ہاؤس سے نکالنے سے عوام کے مسائل کس طرح حل ہونے تھے اور اس بات کی کیا گارنٹی حاصل کی گئی تھی کہ نئی بننے والی حکومت کو آسانی سے چلنے دیا جائے گا۔
نون لیگ اور اس وقت کی دیگر اپوزیشن جماعتوں کو مگر تحریک انصاف کو اقتدار کے ایوانوں سے بیدخل کرنے کی پتہ نہیں کیا جلدی تھی؟ حالانکہ نون لیگ اور پی ڈی ایم کی دیگر جماعتیں اگر اقتدار حاصل کرنے میں اتنی بے صبری کا مظاہرہ نہ کرتیں، تو دیوالیہ پن کے کنارے پر کھڑی معیشت میں کسی ریاستی ادارے کے لیے دوبارہ تحریک انصاف کی سرپرستی کا تصور ممکن ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ حالانکہ جس شخصیت کی تقرری کا خوف سر پر سوار تھا وہ نون لیگ کی سیاست کے لیے اتنی نقصان دہ نہیں ہو سکتی تھی جتنی شہباز شریف صاحب کی خواہش اقتدار ہوئی ہے۔ یہ مفروضہ کہ معیشت کو سنبھالا دے کر اگلا انتخاب جیت لیا جائے گا خام خیالی ثابت ہوا ہے۔
ن لیگ تصور کر رہی تھی کہ اقتدار سے فراغت کے بعد خان صاحب کا عوام میں نکلنا مشکل ہو گا اور وہ کسی سہارے کے بغیر انتخابات میں نمایاں کارکردگی نہیں دکھا سکیں گے۔ لیکن ہم مسلسل خبردار کر رہے تھے کہ جس طرح عمران خان کا کرپشن مخالف بیانیہ خوب بکا تھا ہمارے نیم خواندہ معاشرے میں امریکہ مخالف سازشی بیانیہ بھی بہت اثر انگیز ہو سکتا ہے۔ اس پراپیگنڈے کا اثر زائل کرنے کے لیے ضروری تھا کہ حکومت سپریم کورٹ میں امریکی مداخلت کی تحقیقات کرانے کے لیے کھلی سماعت کراتی۔
نون لیگ نے مگر تاخیر کر دی، کمزوری اور معاملات پر حکومت کی گرفت نہ ہونے کے سبب عمران خان روز بروز عصبیت حاصل کرتے گئے اور مہنگائی کے سبب نون لیگ کی مقبولیت ہر روز گرتی گئی۔ ضمنی انتخابات میں جب نون لیگ کو بدترین شکست ہوئی اس وقت ہم نے لکھا تھا کہ اگلا انتخاب اگر جیتنا ہے تو نتائج سے بے پرواہ ہو کر نواز شریف کو چاہیے جلد از جلد واپس آ کر واضح الفاظ میں قوم کو آگاہ کریں وطن عزیز کی موجودہ حالت کی اصل وجوہات اور اسباب کیا ہیں اور ان کی جماعت غیر مقبول اقدامات لینے پر مجبور کیوں ہوئی۔
نواز شریف نے بہت تاخیر سے وطن واپسی کا فیصلہ تو کر لیا ہے وہ خود اور ان کی جماعت مگر اپنے پرانے بیانیے پر یکسو نہیں ہو رہی ہے۔ اپنی جماعت کے رہنماؤں سے خطاب میں پہلے نواز شریف نے مطالبہ کیا کہ ان کی حکومت کے خاتمے کے ذمہ داروں یعنی جنرل قمر جاوید، فیض حمید، ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ کا احتساب ہونا چاہیے۔ لیکن اس کے اگلے ہی روز نون لیگی رہنماؤں نے یوٹرن لیتے ہوئے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہم گڑے مردے اکھاڑنے کا مطالبہ نہیں کر رہے لیکن کم از کم نو مئی کے کرداروں کو سزا ضرور ملنی چاہیے۔ اس کا صاف مطلب تو یہی نکلتا ہے کہ نون لیگ اپنی توپوں کا رخ عدلیہ تک محدود رکھنا چاہتی ہے اور عسکری اداروں سے کوئی محاذ کھولنے کی ہمت نہیں کر پا رہی۔
ن لیگ کے اس یوٹرن کو کچھ لوگ محض شہباز شریف کا خوشامدانہ اقدام قرار دے رہے ہیں اور یہ تاثر دے رہے ہیں کہ انہوں نے ہی اپنے بڑے بھائی کو عجلت میں لندن جاکر اینٹی اسٹبلشمنٹ بیانیے سے روکنے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ میاں نواز شریف کی انقلابی سوچ بھی دنیا پر اس وقت عیاں ہو گئی تھی جب خواجہ آصف نے یہ بیان دیا تھا کہ سروسز ایکٹ میں ترمیم کے لیے نون لیگی ارکان اسمبلی نے میاں صاحب کے کہنے پر ووٹ دیا ہے۔ یہ بات اب راز نہیں کہ دوران قید میاں صاحب کی طبیعت انتہائی ناساز ہونے کے بعد انہیں طبی بنیادوں پر ملنے والی ضمانت اسی خدمت کا صلہ تھا۔
میرٹ کی پامالی کی یہی واحد مثال نہیں اس کے بعد بھی سپریم کورٹ میں ججز کی تقرری کے معاملے پر نون لیگ نے اپنے اصولی موقف سے انحراف کیا تھا۔ میاں صاحب نے تیسری مرتبہ اقتدار سے نکلنے کے بعد کہا تھا آئندہ وہ اصولوں اور میرٹ پر سمجھوتا نہیں کریں گے۔ لیکن ان کی جماعت کو اقتدار ملنے کے چند ماہ بعد ہی واضح ہو چکا ہے کہ انہوں نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور وہیں سے سفر شروع کیا ہے جہاں وہ چھوڑ کر گئے تھے۔
شریف برادران سمجھنے کو تیار ہی نہیں کہ اب وہ وقت نہیں رہا کہ گڈ کاپ اور بیڈ کاپ کی پالیسی سے کام چلا لیا جائے گا۔ یہ تسلیم کر لیں کہ میاں صاحب اصولوں پر مبنی سیاست کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے برادر خورد ان کا ساتھ دینے میں متامل ہیں۔ پھر بھی یہ سوال ضرور ہو گا کہ میاں صاحب اپنے خاندان کے علاوہ کسی ہاتھ میں اختیار دینے پر کیوں راضی نہیں۔ شاہد خاقان عباسی نے جماعت سے دوری اختیار کرنے کا فیصلہ راتوں رات نہیں کیا۔
ان سطور میں گزشتہ ڈیڑھ سال سے ہم لکھ رہے تھے کہ شاہد خاقان عباسی کو نظر انداز کرنے کے حوالے سے جماعت میں بہت بے چینی ہے اور مفتاح اسماعیل سے تضحیک آمیز طریقے سے وزارت واپس لینے سے یہ بے چینی عروج پر پہنچ چکی ہے۔ ضمنی انتخابات میں شکست بھی اپنوں کو نظرانداز کرنے دوغلی پالیسی اور بیانیے میں یکسوئی کے فقدان کے سبب ہوئی تھی۔ نون لیگ کو طے کرنا ہو گا کہ اس کا اصل بیانیہ کیا ہے۔ آدھا تیتر آدھا بٹیر والا کام مزید نہیں چلے گا ایسے نہیں کہ نعرے عوامی بالادستی اور حقیقی جمہوریت کے قیام کے لگائے جائیں مگر قیادت میں قربانی دینے کا حوصلہ نہ ہو۔ یہ حوصلہ اگر نہیں ہے اور نون لیگ اقتدار کی سیاست ہی کرنا چاہتی ہے تو مزید نقصان کرانے سے بہتر ہے کہ انقلابی باتیں چھوڑ کر اقتدار کے حصول کے ستر سال سے رائج راستے پر چلتی رہے۔
- دبئی میں پاکستانی شہریوں کی جائیدادیں - 17/05/2024
- کیا مثبت بات کریں - 02/05/2024
- زراعت سے ٹیکس ضرور لیں مگر - 05/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).