جو سات سمندر پار جا بسی ہے


رات ڈھل رہی تھی۔ سرد و جامد بے خواب رات میں احمریں ستارے جگمگا کر اپنا دیوانہ پن ظاہر کر رہے تھے۔ مکان، درخت، پہاڑ، چاند سب رت جگا منا رہے تھے۔ پورا عالم سما مع دب اکبر و اصغر قطبی تارے کے گرد طواف کر رہا تھا۔ وہی پانی جو سمندروں سے بخارات بن کے اڑا تھا بوند بوند دھرتی کی کوکھ میں ٹپک کر اسے زمردیں رنگ دے گیا تھا۔ مخملیں دوب اور درختوں کے سبز پتے مزید خوبصورت ہو گئے تھے۔ شام کی ہلکی بارش سے آسمان دھل کر روشنی کے عمیق غار میں ڈھل چکا تھا جس کے اندر جھانک کر کائنات کا حسن مستور دیکھا جا سکتا تھا۔

یہ اسی حسن مستور کا کرشمہ ہے جو کبھی کبھی مجسم ظہور پذیر ہو کر انسان کی مسرتوں میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔

وہ کافی دیر پہلے ہی ادھر آ گیا تھا۔ آہستہ سے دروازہ کھولا اور کمرے کے اندر داخل ہو کر پردے کی اوٹ میں چھپ گیا۔

کمرے کے درمیان موجود کرسی پر ایک لڑکی کاہلانہ راحت میں پڑی تھی۔ دونوں آنکھیں بند تھیں۔ کرسی کی پشت پر لٹکے ان گنت لانبے گھنے سیاہ گیسووں کے گول گول چھلے زمین کو چھو رہے تھے۔ لوح جبیں کے بلور میں صرف ایک بل تھا جس پر کچھ بال بکھرے ہوئے تھے۔ ہلکی نیلگوں روشنی میں ڈوبے کمرے کے اندر موجود خنکی سردیوں کی آمد کا پتا دے رہی تھی۔ ٹانگوں پر ایک سموری شال پڑی ہوئی تھے۔ وہ پردے کی اوٹ میں کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔

لڑکی کھلے گلے کا جمپر پہنے ہوئے تھی جس کے اندر سے جھلکتے زرد آلو کے سے خوش رنگ ریشمی شانوں پر اس کی نگاہیں ٹکی ہوئی تھیں۔ اس رنگت کی ایک تتلی اس نے اپنے گرین ہاؤس کے پھولوں پر منڈلاتی دیکھی تھی جسے دیکھ کر اس کا بچپن لوٹ آیا تھا۔ اس نے بھاگ کر تتلی کو پکڑ لیا تو وہ اس کی ہتھیلی کی نرم و نازک جلد پر بیٹھ کر پھڑپھڑانے لگی۔ وہ اس کے ساتھ کھیلنے لگا۔ اڑا دیتا تو شگفتہ غنچوں سے ٹکراتی پروں کی ہوا کانوں میں کھلکھلاتی ہنسی کی طرح بجتی۔ پکڑ لیتا تو وہ ہاتھوں کو چومنے لگتی۔

اسے کوئی جلدی نہیں تھی۔ ابھی کافی وقت باقی تھا۔ بہت آہستگی سے اپنا کام مکمل کرنا تھا۔ روشنی کے دھندلا پن اور کمرے کی خاموشی میں پردے کے پیچھے وہ کسی بت کی طرح ساکت و صامت کھڑا تھا۔ سانس لینے کی حرکت بھی نظر نہیں آتی تھی۔ کبھی کبھی جب لڑکی آنکھیں بند کر لیتی تو وہ اس کی طرف مزید سرک جاتا۔

کمرے میں موجود ہر چیز پر سکون مطلق طاری تھا۔

وہ دزدیدہ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ لڑکی کافی افسردہ و نڈھال دکھائی دے رہی تھی۔ اس کے باوجود گم صم، اداس و واماندہ چہرے میں اتنی کشش تھی کہ وہ اس کے حسن میں کھو گیا۔ کمرے میں موجود ہر چیز سے حسن ٹپک رہا تھا اور کمرے کے درمیان پڑی کرسی پر لیٹی وہ لڑکی…

‘دیکھیں گے کب وہ محفل کالبدر فی النجوم
وہ چاند کب ملے گا، وہ تارے کب آئیں گے

اس جیسی حسین لڑکی اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ چہرہ جانا پہچانا تھا جیسے ابھی کچھ دن پہلے ہی کہیں دیکھا ہو یا پھر جیسے بچپن کا کوئی شناسا چہرہ جسے پہچاننے میں مشکل بھی نہ ہو اور جس کا بدلا ہوا روپ دل قبول بھی نہ کرے۔ وہ اس افسردہ چہرے کو دیکھ کر یک بارگی ٹھٹک کر رہ گیا۔

تھوڑا سا آگے بڑھا، دیوار پر لگے کلاک پر نظر پڑی تو واپس اسی جگہ آ کر لڑکی کو دیکھنے لگا جس کی آنکھیں اب سامنے میز پر پڑے لیپ ٹاپ کی روشن سکرین پر ٹکی ہوئی تھیں۔ اس کی چمک سے ان نازک انکھڑیوں کی ضیا اور دوبالا ہو گئی تھی۔

سکرین پر تصویریں بدل رہی تھیں۔ وہ بھی ان تصویروں میں کھو گیا۔
”دیکھو تمہارا جوتا بالکل نیا ہے اور تم بھاگ بھاگ کر پانی میں جا رہی ہو، یہ خراب ہو جائے گا۔“
” مجھے سیپیاں ملتی جا رہی ہیں۔ یہ دیکھیں۔“
تصویر میں ننھے منے سے ہاتھ پر چھوٹی چھوٹی کئی سیپیاں پڑی دکھائی دے رہی تھیں۔
”جاؤ! اور لے کر آؤ۔“
***
لیپ ٹاپ پر سلائیڈ شو جاری تھا۔ سکرین پر کچھ لمحے بعد تصویر بدل جاتی۔
سامنے والی تصویر میں ایک مرد، عورت اور بچی افق کے اس پار دیکھ رہے تھے۔

دریا کے ساحل پر بچوں کا کھیل جاری تھا۔ سہ پہر ختم ہوئی تو شام چھا گئی۔ افق کی لکیر پر قرمزی رنگ ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پھیلتا چلا گیا۔ تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ یہ قرمزی سے سرمئی اور پھر سیاہ ہو گیا۔ ادھر سورج نے دھرتی کی اوٹ میں منہ چھپایا ادھر مشرق سے ماہ چہاردہم جلوہ گر ہو گیا۔

وہ ہر چیز سے بے نیاز، ایک دوسرے میں کھوئے، پرتبسم چاند پر نظریں جمائے کھڑے تھے۔
پورن ماشی کا چاند دیکھ کر بچی نے آنکھیں بند کر لیں اور مرد کی انگلی پکڑ کر چک پھیریاں لینے لگی۔
”گھوم بالکے گھوم۔“
”گھوم گیا۔“
”کیا نظر آ رہا ہے؟“
”چاند۔“
”چاند میں کیا ہے؟“
– – – –
وہ ہنسنے لگی تھی۔
٭٭٭

لڑکی کے لبوں پر کچھ لمحے کے لیے مسکراہٹ بکھری اور سیدھی ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ وہ فوراً پردے کے پیچھے چھپ گیا۔ لڑکی نے وال کلاک کی طرف دیکھا اور پھر کرسی کے ساتھ کمر ٹکا کر لیٹ گئی۔

اس کا چہرہ ایک انوکھی روشنی لیے ہوئے تھا۔ اندھیرے کمرے میں چراغ کی طرح روشن چہرہ جیسے سورج کالے بادلوں کی اوٹ سے جھانک رہا ہو۔ تیرگی اور نور کا مقابلہ۔

ایسی روشنی کہ وسیع و عریض ائرپورٹ پر دن کا سماں بندھ گیا تھا۔ مضمحل مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے مرد، عورت اور ان کے درمیان سرو قد سلگتی لڑکی جس کی جھیل سی آنکھوں میں امید و بیم کے بجرے ہلکورے لے رہے تھے۔

”واپس مڑ کر دیکھنے والا پتھر کا ہوجاتا ہے۔“
”پتھر کی مورتیاں تو امر ہوتی ہیں۔“ نرم سی آواز میں کچھ درد تھا۔

”لیکن غم و خوشی کی مسرت سے ناواقف اور ان کے سینے میں دل نہیں دھڑکتا۔“ مضبوط ٹھوس آواز لہراتی ہوئی کانوں سے ٹکرائی۔

”پتھر کی مورتیاں مندروں کی رونق ہیں اور کروڑوں انسانوں کا آخری سہارا۔“
”ہاں! کروڑ ہا نا اہل و نادان لوگوں کا جھوٹا سہارا۔
دھڑکتے دل والی نرم و نازک دیویاں ہی انسان کا اصل آسرا ہیں اور ہمارا غرور بھی۔ ”
وہ چلی گئی۔ آنکھوں میں آس و امید کے آنسو سجائے وہ لوٹ آئے۔
تصویر بدل گئی۔

سنہری فریم میں جڑی تصویر میں تین افراد تھے : لڑکی اور وہی عورت و مرد۔ وہ ان چہروں کو غور سے پڑھ رہا تھا۔ سوچنے لگا۔

یہ کہاں کی تصویر ہو سکتی ہے؟
کسی شادی کی تصویر؟
ماضی میں جھانکا۔ کچھ نہ ملا۔
مستقبل؟

لڑکی نے کرسی پر سیدھی ہو کر ایک جمائی لی پھر انگڑائی لیتے ہوئے وہیں ڈھیر ہو گئی۔ خیالوں کی لڑی ٹوٹ گئی۔ وہ موتیوں کو سنبھالنے کی کوشش کرنے لگا جو ریت کی طرح اس کی مٹھی سے پھسل رہے تھے۔

کلاک کی سوئیاں ایک دوسرے کے قریب ہوتی جا رہی تھیں۔

وقت بہتا جاتا ہے بس کچھ دیر کو یوں لگا کہ رک گیا ہے۔ وقت، وقت کہلائے جانے کے قابل نہیں رہا۔ لڑکی نے آنکھیں بند کر لیں۔

دونوں سوئیاں سیدھی ہو گئیں۔

وہ اس کے پیچھے پہنچ گیا۔ اتنا قریب کہ اس کی سانسوں کی گرمی محسوس ہو رہی تھیں۔ وہ اسے پکڑنا چاہتا تھا۔ اس سے پہلے آہستہ سے پکارا

”صائمی!“
لڑکی نے نہیں سنا۔ شاید آواز میں الفاظ شامل نہیں تھے
یا
الفاظ ہی خاموش ہو گئے تھے۔

اس نے پر سکوت کمرے کے سناٹے میں جھانکنا شروع کر دیا۔ کمرے کی ویرانی میں کوئی کھلکلاہٹ، کوئی قہقہہ موجود نہیں تھا۔ اس خلا میں اگر کوئی عکس دکھائی دیتا تھا تو وہ اس کے اپنے مغلق خیالات کا تھا۔ یاد کی وادی میں بیتے افسانوں کی گونج تھی۔ آج محبت پیاسی تھی، گہری اداسی تھی۔ اک نگاہ حرص تھی، نگاہ محبت فروز تھی جو ہر طرف تھرک رہی تھی، ڈھونڈ رہی تھی۔

وہ کچھ کہنا چاہتا تھا، چلانا چاہتا تھا لیکن زبان کند ہو چکی تھی! صرف مسکراہٹ ہی اس کی ترجمان بن سکتی تھی۔

وہ مسکراتے ہوئے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔ مہکتا ہوا چہرہ اس کے روبرو تھا، نظر گیر عالم چہرہ جو اس کے سامنے ہی گل گلزار بنا تھا، جس کے لوں لوں پر اس کی آنکھوں نے سال ہا سال بوسے لیے تھے۔ وہ پلکیں جھپکائے بغیر حسن مستور کے اس کرشمے کو، اس کی رحمت کے اس مجسمے کو تکے جا رہا تھا۔ وہ صفحہ دہر کا ایک ایسا لاشریک شاہکار تھی جس کی رگوں میں کرشماتی موج حیات دوڑ رہی تھی۔ وہ موج حیات جو شب و روز، ہمہ وقت اس کائنات میں رقص کناں ہے۔ جس کے دل میں قرنوں اور زمانوں کا خون حیات ابل ابل کر انسانیت کا مان بڑھا رہا تھا۔ وہ اسے یاد دہانی کروانا چاہتا تھا،

”اے حسن ملکوتی! مجھے،
تم سے پیارا اور نہ کوئی،
بس تم سے پیار ہے۔ ”
وہ اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگا۔ تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر چہرے کو اوپر اٹھایا۔
اس کے کانوں کے پاس منہ لا کر گانے لگا،
”ہیپی برتھ ڈے۔“
اس کے الفاظ میں آواز شامل نہیں تھی۔ طلاقت لسانی کے حامل کی صدا لبوں سے جدا ہوتے ہی ہوا ہو گئی تھی۔
دل اس کی بے بسی دیکھ کر دھڑکنا بھول گیا۔ اس نے سینے کو زور سے تھپڑایا اور کہا، ”چلتے جا۔“

دل یک دم چل پڑا اور ایک فوارہ جیسے ذبح کیے ہوئے بکرے کے گلے سے اچھلتا ہے اس کی آنکھوں سے اچھل پڑا۔ لڑکی نے خلا میں تکتے ہوئے لانبی گھنی پلکوں کو مٹکایا، وہ پھر ٹھہر گیا۔

بولا، ”دھڑکے جا۔“
پوچھنے لگا، ”کس کے لیے؟“
”اپنے لیے، میرے لیے۔“
نادان بولا، ”اب تو یہ ممکن نہیں۔“
”اس کے لیے جس کے بسرام سے تیرے آنگن میں بہار ہے۔“
دل اچھل پڑا۔

وہ اس کی انگلی پکڑ کر باہر لے آیا۔ آکسفورڈ کی افسوں زدہ فضا میں نور کی چادر بچھی ہوئی تھی۔ بارش سے دھلی کائنات کے انگ انگ سے نشہ پھوٹ رہا تھا جیسے ابھی ابھی جام میں بھگو کر نکالی گئی ہو۔ چاند پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔

سفید چادر چاندنی رات اور اس کا حسن صبیح: وہ اس کے سحر میں کھو گیا۔
چاند کی سیم افشانی دیکھ کر لڑکی نے آنکھیں بند کر کے چک پھیریاں لینی شروع کر دیں۔
”گھوم بالکے گھوم۔“
”گھوم گیا۔“
”کیا نظر آ رہا ہے؟“
”چاند۔“
”چاند میں کیا ہے؟“
”چہرہ“
”کس کا؟“
”بابا آپ کا۔“
”نہیں!
بیٹے کا۔ ”
”بابا آج تو آپ کا ہی نظر آ رہا ہے۔“
آج پہلی بار وہ بھی آنکھیں بند کر کے گھوم گیا۔ پرنم نگاہوں میں ایک شبنمی چمک عود کر آئی،
”ہاں، ہاں!
سنو، سنو! وہ کیا کہہ رہا ہے، غور سے سنو۔
ہیپی برتھ ڈے۔ ”

خاموش آواز کا ہنگامہ گونج اٹھا۔ وہ مسکرا نے لگی۔ چاندنی رات میں چمکتی پہاڑیوں پر بابونہ کے پھول کھل گئے۔ وہی بابونہ جن سے بنا ہوا تاج ملکہ کوہسار کی بل کھاتی سڑکوں پر، پگڈنڈیوں پر، ٹھمکتے مٹکتے وہ سر پر سجا لیا کرتی تھی۔ تاحد نظر پھول ہی پھول تھے لیکن کوئی بھی پھول دلکشی و دلربائی میں اس تبسم کا ہم پلہ نہ تھا۔

”دیکھو دیکھو! مکان، درخت، پہاڑ، پھول، چاند تارے سب گا رہے ہیں،
ہیپی برتھ ڈے ٹو یو۔ ”
وہ اٹھی، فریج سے کیک نکال لائی۔ کینڈل کو پہلے روشن کیا پھر ہلکی سی پھونک سے اسے بھجوایا اور گانے لگی
”ہیپی برتھ ڈے ٹو می۔“

کیک کاٹا۔ ایک ٹکڑا ہاتھ میں لے کر کمرے کی تنہائی میں ادھر ادھر دیکھ کر اپنے ہی منہ میں ڈال کر کہنے لگی

”بابا، آپ کے لیے۔“
لیپ ٹاپ کی سکرین پر چمکتی تینوں کی تصویر جو مضمحل نظر آتی تھی مسرور ہو گئی۔

(بیٹی کی سالگرہ پر: جو سات سمندر پار جا بسی ہے۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments