قاضی سے وابستہ امیدیں  


حضرت علی کرم اللہ وجہ کا قول ہے کہ کفر کا نظام چل سکتا ہے ظلم کا نہیں۔ پاکستان میں ہر روز ظلم و بربریت کی نئی داستانیں رقم ہو رہی ہے۔ کبھی خبر سننے کو ملتی ہے کہ کسی وڈیرے نے فلاں غریب کو سرعام قتل کر دیا ظلم کا نشانہ بنا ڈالا کہیں کوئی مارا گیا تو کسی کی عزت پامال کردی گئی۔ اور یہ سارے واقعات گواہوں کے سامنے بلکہ ویڈیوز تک کی موجود گی میں ریکارڈ بھی ہو جاتے ہیں لیکن ان سب ثبوتوں اور گواہوں کے باوجود یہ درندے چند مہینوں بعد آزاد کیسے ہو جاتے ہے۔

یہی نہیں عوامی دیرینہ مسائل ہوں یا مملکت سے متعلق معاملات سب کی نظریں ہماری کمزور، خستہ حال عدلیہ کی جانب لگی ہوتی ہیں جہاں کے اپنے مسائل کچھ کم نہیں اور ایسے مشکل وقت میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا انصاف کی سب سے بڑی کرسی پر براجمان ہونا حبس زدہ ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوا ہے گو کہ ماضی میں بھرپور کوشش کی گئی کہ وہ سپریم کورٹ کے سب سے بڑے عہدے تک نہ پہنچ سکیں اس وقت بھی جس جوان مردی سے خود پر لگے بے بنیاد الزامات کے سامنے ڈٹ کر اپنا دفاع کیا اور تمام من گھڑت الزامات کو شکست دی وہ داستان بھی بھی تاریخ کا حصہ رہے گی۔

قاضی فائز عیسیٰ ایک ایسے عدالتی نظام کے سربراہ قرار پائے ہیں جو مقدس گائے کا روپ دھار چکی ہے جسے نہ صرف ہر قسم کا استثنی حاصل ہے بلکہ انصاف کے ادارے بہت حد تک سیاسی اور بے اثر بھی ہوچکے ہیں یہاں حقائق، ثبوت، انصاف سے زیادہ نظریہ ضرورت کو ترجیح دیا جانا عام ہو چکا ہے قاضی فائز عیسیٰ کے چارج سنبھالتے ہی پارلیمانی فیصلے پر بننے والی قانون سازی پر عدالتی کارروائی کو فل کورٹ کے ہمراہ براہ راست نشر کرنے کا فیصلہ ایک ایسا اقدام ہے جس کی جتنی پذیرائی کی جائے وہ کم ہے۔

اعلی عدلیہ کے وہ تمام ججز جو اس سے قبل پردے کے پیچھے ہوا کرتے تھے وہ سب منظرعام پر آ گئے اور ملک کی سب سے بڑی عدالت کو پورے ملک نے بغور دیکھنے کی سعادت حاصل کی۔ اس سے قبل یہی ہوتا آ رہا تھا کہ جو کارروائی ہوئی ہے اس کا احوال اخبارات، نیوز بلیٹن میں آیا ورنہ پھر کیس کے وکلاء باہر آ کر میڈیا سے گفتگو میں اندر کا احوال اپنے اپنے انداز میں سچا جھوٹا من مانا سنا دیا کرتے جس کی بنا پر ہر کوئی اپنی رائے قائم کرتا رہا۔

مگر اب جو مثال چیف جسٹس نے سماعت براہ راست نشر کر کے قائم کی وہ تاریخ بن گئی ہے جو سنہرے حروف سے لکھے جانے کے لائق ہے۔ اس سے پہلے کبھی کسی چیف میں ایسی ہمت ہوئی نہ کبھی کوشش کی گئی کہ انصاف کے اداروں کو عوام کی پہنچ تک لانے کا کوئی اقدام ہو پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس ایک ایسا معاملہ ہے جو معزز عدلیہ کے ساتھ اس کے سربراہان کی حدود کے تعین کے حوالے سے پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے قانون سے متعلق ہے۔ اس کیس کی سماعت میں ہونے والی کارروائی انتہائی دلچسپ رہی جس میں مدعی سست گواہ چست دکھائی دیا۔

چیف جسٹس کے ریمارکس کہ ان کے اختیارات پر پارلیمنٹ کی جانب سے لگائی گئی حدود یا تقسیم پر چیف جسٹس کو تو اعتراض نہیں مگر درخواست گزار ایک سیاسی پارٹی اور دیگر فریقین کو ہے۔ چیف جسٹس نے بارہا اس عزم کو دہرایا کہ مجھے اپنے اختیارات سے زیادہ آئین کی پاسداری عزیز ہے سب آئین کے تابع ہیں اب کوئی غیر آئینی کام نہیں ہو گا، ججز کے فیصلوں سے نقصان ہوا ہے، یہ چیف جسٹس کے اختیارات محدود کرنے کا قانون نہیں ہے بلکہ بوجھ کم کرنے کا ہے یہ سب اور دیگر ریمارکس انتہائی حوصلہ افزا اور قابل ستائش ہیں۔

ہمارے ملک کی عدالتوں کی ساکھ اور یہاں زیر التواء کیسز کی بھرمار سے کون واقف نہیں دنیا میں ہمارا عدالتی نظام آخر کے نمبروں میں شمار ہوتا ہے جو کہ پاکستان کی بدحالی کا ایک سبب بھی ہے جب سائل کو انصاف نہ ملے اشرافیہ کو من مانے فیصلے اور مظلوم کی کوئی سنوائی نہ ہونا کسی المیے سے کم نہیں اس پر ظلم یہ کہ غریب عوام کی کیسسز کی سماعتوں کا طویل انتظار اپنے کیس کی باری اور فیصلوں کے انتظار میں دنیا سے رخصت ہو جانا عام بات ہو ایسے میں عوامی سوچ لئے کسی چیف جسٹس کا اعلیٰ عدلیہ کی کمان سنبھالنا باعث فخر اور امید افزا ہے۔

ہمارا عدالتی نظام بھی اس قدر بوسیدہ اور تباہ حال ہو چکا ہے کہ اس میں بہتری کے لئے دن رات ایک کرنا اور وہ بھی سالہاسال تک ضروری ہے۔ یہاں سائلین کے نامکمل کیسز کی تعداد لاکھوں میں ہے وکلاء کا کیسز کو طول دے کر غریب سے پیسے بٹورنا معمول ہے کسی کو کوئی غرض نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس ملک میں پولیس، عدالت اور اسپتال سے جو محفوظ رہا وہ کامیاب رہا جبکہ ان اداروں کا عوامی فلاح و بہبود کا ضامن ہونا اہم تقاضا ہے کہ ان اداروں کی کارکردگی کا اثر عوام پر براہ راست ہوتا ہے مگر ان تینوں اداروں کا حال جس ابتری کا شکا ر ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں جس کا جرمانہ عوام بھگت رہی ہے روزانہ کی بنیاد پر عدالتوں میں عوام کا خوار ہونا بھی معمول بن چکا ہے۔

اس میں دو رائے نہیں کہ ہمارے ملک کے نظام عدل سے حصول انصاف کی تمنا دیوانے کا خواب ہو چکی تھی ایسے میں قاضی فائز عیسیٰ کی شکل میں عوام کو اپنا مسیحا نظر آنا اچنبھے کی بات نہیں۔ مانا کہ سفر انتہائی مشکل اور کانٹوں بھرا ہے ابھی بھی بڑی تعداد میں محدود سوچ، مفاد پرستوں کی بھرمار ضرور ہے مگر اب جو عوامی امیدیں روشن ہوئی ہیں وہ بھی مثالی ہیں۔ آنے والا وقت یقیناً سب اچھا ہونے کا یقین دلا رہا ہے امید ہو چلی ہے کہ ادارے اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے عوام کے مسائل کو حل کرنے میں اپنا بہترین کردار ادا کریں گے تو کچھ ممکن نہیں کہ اس ملک پر چھائے مایوسی کے بادل چھٹ جائیں گے۔ ہمیں چاہیے کہ قاضی فائز جیسے افسران کی تعیناتی پر ہر تعصب کو بالائے طاق رکھ کر سراہیں اور ان کی کامیابی کے لئے دعاؤں کو دراز کریں تاکہ ایسے افراد مل کر عوام کے تعاون سے اس ملک کی تقدیر بدلنے میں اپنا بھرپور حصہ ڈالیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments