صحافیوں کا بھرم، کاکڑ کا آئینہ اور سی پی این ای کی خفگی
سنا ہے پاکستان میں شائع ہونے والے اخبارات کے ”سیٹھوں“ کی تنظیم اے پی این ایس اور سی پی این ای نے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کے اس بیان کا بہت ہی زیادہ برا منایا ہے جو انہوں نے گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس کے دوران پوچھے گئے سوال کے جواب میں دیا۔ اور ذاتی طور پر میں یہ سمجھتا ہوں کہ کاکڑ صاحب نے اب تک جو اچھے بیانات اور تجزیے پیش کیے ہیں ان میں ان کا یہ بیان اور تجزیہ بھی شامل ہے اب یہ الگ بحث ہے کہ اپنے کاکڑ صاحب جو بیان دیتے ہیں ہوتا اس کے برعکس ہی ہے۔ مگر لائٹ موڈ میں ان کے منہ سے جو مبنی بر حقیقت بات نکلی ہے انہیں اس پر ڈٹ جانا چاہیے۔
انوار الحق کاکڑ صحافیوں اور صحافت کو بہت قریب سے جانتے ہیں۔ ان کا بیان پاکستان کی پرنٹ میڈیا انڈسٹری پر بے لاگ تجزیے کی حیثیت رکھتا ہے مگر افسوس کہ ان کے بیان کو سیٹھوں نے اپنے صفحات سے تو غائب کرا ہی دیا ساتھ ہی الٹا چور کوتوال اور پشتو کی کہاوت ”غل ہم زہ۔ خولہ ور ہم زہ“ کے مصداق تند و تیز قسم کا رد عمل پر مبنی بیان بھی جاری کر دیا۔ میں نے چونکہ انوار الحق کاکڑ کی ویڈیو پہلے دیکھی اور سی پی این ای کا بیان بعد میں پڑھا۔ اس لئے بیان پڑھتے ہوئے پروین شاکر کا شعر زبان پر رہا کہ
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کردے گا
سی پی این ای اور اے پی این ایس کے بیان کو محمود و ایاز اور زید و بکر کی تخصیص کے بغیر سبھی اخبارات نے فرنٹ پیج پر جلی سرخیوں کے ساتھ شائع کیا۔
اب سوال یہ ہے کہ انوار الحق نے ایسی کیا بات کہی کہ سیٹھ بیک ساتھ چلا اٹھے ؟ ہوا یہ کہ دوران پریس کانفرنس ایک صحافی نے نگران وزیر اعلی سے ایڈورٹائزمنٹ ریٹس بڑھانے کے سلسلے میں بنائی گئی سمری کے حوالے سے سوال کیا اور کہا کہ ”سابق وزیراعظم نے اشتہارات کے ریٹ بڑھانے سے متعلق جو سمری منگوائی تھی وہ وزارت خزانہ میں دب گئی ہے۔ کل آپ نے ہمارے ساتھ بیٹھنا ہے، کوئی اتنا بھرم رہ جائے کہ آپ جب ہمارے ساتھ بیٹھیں تو آپ کہہ سکیں کہ آپ پرنٹ میڈیا کے لئے کچھ کر کے گئے ہیں“
اس کے جواب میں انوار الحق کاکڑ نے جو کچھ کہا وہ بھی پڑھ لیں۔ نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں پرنٹ میڈیا کا بزنس ماڈل ہی فلاپ ماڈل ہے کیوں فلاپ ہے اس کے لئے انہوں نے برطانوی اخبار گارڈین کا حوالہ دیا کہ آپ جب ان کی سائٹ پر جاتے ہیں تو وہ آپ سے ایک پاؤنڈ کی کنٹری بیوشن مانگتا ہے اور گارڈین حکومت پر نہیں ریڈر شپ پر چلتا ہے۔ مگر پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں اب بھی یہی ماڈل چل رہا ہے کہ حکومت آپ کو اشتہارات دے۔ وزیراعظم کے الفاظ تھے ”حکومتیں ان اے وے سبسڈائز ہی کر رہی ہیں“ ۔
دراصل وزیراعظم کے جواب کے اس والے حصے کا میرے خیال میں سی پی این ای اور اے پی ایس پر نہ کوئی اثر ہونا ہے اور نہ ہی وہ اس سے اختلاف کر سکتے ہیں۔ اصل درد نگران وزیراعظم کے اسی جواب میں کہے گئے ان الفاظ سے اٹھا ہے جو انہوں نے ورکنگ جرنلسٹس سے متعلق ادا کیے ۔
انہوں نے کہا کہ ”یہ میری ذاتی رائے ہے۔ حکومت کی رائے نہیں۔ گھبرائیں نہیں۔ بھرم میں آپ کا توڑوں گا۔ آپ ریونیو جنریشن اور بزنس ماڈل خود ٹھیک کریں۔ جو گھی بنا رہا ہے وہ چینل بنا رہا ہے، جو ریئل سٹیٹ کا کام کر رہا ہے وہ بھی چینل بنا رہا ہے۔ کیمرہ مین اور رپورٹر کو صرف کارڈ دے دیا جاتا ہے وہ پریس کارڈ پر لوگوں سے پیسے لے رہا ہوتا ہے“ ہال میں موجود ورکنگ جرنلسٹس نے اس پر خوب تالیاں بجائیں ”نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ رائے عامہ کی تشکیل کرنے والے بڑے اینکر جو رائے عامہ کی تشکیل کرتے ہیں وہ اور ورکنگ جرنلسٹس ایک برابر ہونے چاہئیں۔ ورکنگ جرنلسٹس کی تنخواہوں کی بھی سمری بننی چاہیے او ریہ سمری حکومت سے نہیں مالکان سے بننی چاہیے۔“
آپ انوار الحق کاکڑ کی سیاسی وابستگی پر سوال اٹھا سکتے ہیں ان سے سیاسی نظریاتی فکری ہر طرح کا اختلاف رکھ سکتے ہیں لیکن میڈیا سے متعلق ان کا بیانیہ ان کا موقف ان کا تجزیہ اور تبصرہ سو فیصد اور سولہ آنے درست ہے۔
قربانی اور کنٹری بیوشن کی اگر بات ہو تو اس میں سی پی این ای اور اے پی این ایس بہت پچھلی قطار میں ہیں قربانیاں تو کارکنوں نے دی ہیں، بھوک، افلاس اور رشتہ داروں کے طعنے ورکنگ جرنلسٹس سنتے ہیں، گوبر یہ لوگ اٹھاتے ہیں دودھ اور اس کے بائی پراڈکٹس مالکان کے حصے میں آ تا ہے، بلوچستان کی محدود اخباری صنعت میں ایسے بیسیوں لوگ ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا صحافت تھا آج ان کا کوئی نام لیوا نہیں، کچھ مر کھپ گئے، کچھ اہلخانہ پر بوجھ اور کچھ اب بھی تین تین چار چار اخبارات کے ساتھ کام کر کے بمشکل تیس چالیس ہزار ماہانہ کماتے ہیں اور مالکان ( اللہ تعالیٰ انہیں اور نوازے ) دھڑا دھڑ جائیدادیں بنا رہے ہیں کوئی مائننگ انڈسٹری میں ہے کسی کا رئیل اسٹیٹ بزنس، کسی نے مارگلہ کے دامن میں جائیدادیں بنائیں کسی کی واسکٹ کی ایک جیب میں ایک شہر کے اخبار کی کاپی اور ہاتھ میں دوسرے شہر سے شائع ہونے والے اخبار کی کاپی، سرکار پوچھے تو یہ دکھاؤ، سردار پوچھے تو یہ والا۔
خود کو پاکستان کا سب سے بڑا اور کثیر الاشاعت اردو اخبار کہنے والا ادارہ چھ صفحات تک محدود ہو گیا ہے، چھ صفحات کی شرح نکالیں تو تین صفحات پر اشتہارات، ایڈیٹوریل پیج اور ایڈیٹوریل بورڈ بلوچستان سے عاری۔ ان نام نہاد بڑے اور نیشنل کہلانے والے اخبارات سے تو پھر بلوچستان کے وہ اخبارات ہی اچھے ہیں جنہیں سی پی این ای اور اے پی این ایس ریجنل کہہ کر کے ان کا استحقاق مجروح کرتے ہیں لیکن یہی اصل نیشنل ہیں جو کم از کم پاکستان کے بیت المال کے پیسوں سے سات سمندر پار تو جائیدادیں نہیں بناتے۔
آپ کو اگر پاکستان میں اشرافیہ کی سہولت کاری کے منظم بندوبست کی حرکیات کا پتہ ہے تو آپ میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ پاکستان کو جرنیلوں ججز اور سیاستدانوں سے زیادہ نام نہاد میڈیا نے نقصان پہنچایا ہے مصنوعی قیادتوں کو اخبارات کے ایڈیٹرز نے ہی پروموٹ کیا ہے۔ گنتی کے آٹھ دس لوگ جن کے بزنس ماڈل پر نگران وزیراعظم نے دو چار سوالات کیا اٹھائے کہ پوری انڈسٹری ان کے خلاف ہو گئی۔
غالباً دریش درانی کا ایک شعر ہے جس کا اردو ترجمہ یوں بنتا ہے کہ ”کچھ لوگ آئینے بیچنے والوں کو زبردستی شہر سے نکال رہے ہیں۔ کیونکہ یہ لوگ اپنی شکل سے ڈرے ہوئے ہیں۔“
سیٹھ لوگ پریس فریڈم اور کنٹری بیوشن کی بات کر رہے ہیں۔ آپ کسی بھی فورم پر آ کر مجھے قانع کریں کہ پاکستان کی پریس انڈسٹری کو پریس کرنے کے سواء آپ کی کیا کنٹری بیوشن رہی ہے۔ آج کے کارپوریٹ میڈیا کی بات نہیں کر رہا جس میں مالک سات سمندر پار بیٹھ کر حکومتوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتا ہے یا اپنی آمدن اور آمدن کے ذرائع چھپا نے کے لئے میڈیا کا سہارا لیتا ہے پاکستان کی صحافت کے زریں دور کی بات کر رہا ہوں۔
آپ لائیں ترازو سی پی این ای اور اے پی این ایس کی قربانی اور کنٹری بیوشن بتائیں میں بتاتا ہوں کہ کارکن کی کیا قربانیاں اور کنٹری بیوشن ہے آپ ہر وقت کے حکمران کے کاسہ لیس رہے آپ نے مصنوعی قیادتوں کی نشوونما کر کے انہیں ملک پر مسلط کیا، پی ایف یو جے میں آپ ہی کے پیسوں سے نقب لگائی جاتی رہی ہے، آزادی صحافت کے غم میں نہیں بلکہ اپنی دال گھلانے کے لئے آپ نے ہی این پی ٹی کو توڑا، آپ نے ویج بورڈ تک اپنے بیٹیوں اور بھائیوں بھانجوں میں بانٹا، آپ نے آئی ٹی این ای کے ججز کو تحائف میں تولنے کی کوششیں کیں مگر نگران وزیراعظم کے منہ پر ہاتھ نہیں رکھ پائے۔
نگران وزیراعظم نے جو کچھ دیکھا، پڑھا، بھگتا اور محسوس کیا بول دیا۔ اب مخالفانہ بیانات تو آئیں گے ان پر دباؤ بھی پڑے گا۔ انہیں زچ کرنے کے لئے اسائنمنٹ ایڈیٹرز کو بھی ایکٹیو کیا جائے گا ان کے خلاف اقتدار کی غلام گردشوں میں لابنگ بھی کرنے کی کوشش کی جائے گی لیکن کاکڑ صاحب کو پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے انہیں اخباری مالکان کی ساہو کاری کا پردہ میڈیا پر فاش کرنے کی ضرورت نہیں جس کرسی پر بیٹھے ہیں اس پر اطمینان سے بیٹھے رہیں اور سبکدوش پارلیمنٹ نے جاتے جاتے بطور نگران انہیں جو اضافی اختیارات دیے ہیں ان اختیارات کو بروئے کار لائیں اور مشروط کر دیں اخبارات کی سبسڈی کو اخبارات کی ایڈیٹوریل پالیسی کے ساتھ۔ پھر دیکھیں کمالات۔ کیا پتہ انوار الحق کاکڑ کا یہ اقدام پی ایف یو جے زکے راجوں مہاراجوں کے لئے بھی نئی تحریک کا باعث ہو۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).