شرارت یا ضیافت؟ ہالووین ڈے کی ایک طفلانہ سرگرمی


ہم خاصی زود رنج قوم ہیں۔ جون کے مہینے میں، کسی تپتی دوپہر میں کوئی طفل شریر اگر ایک بار دروازے کی گھنٹی بجا کر فرار ہو جائے تو ہم پورا مہینہ، اپنے قیلولے قربان کر کے، دروازے کے پیچھے چھپ کر اس نادیدہ بچے کا انتظار کرتے ہیں کہ تاکہ اسے گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دے سکیں۔ جشن آزادی کے روز کوئی بچہ ترنگ میں آ کر باجا بجا دے تو محلے کے وہ بزرگ بھی جنہیں ثقل سماعت کا عارضہ ہوتا ہے اور جو اپنے ہر سامع کو غالب کا یہ شعر سنانا نہیں بھولتے :

بہرا ہوں میں تو چاہیے دونا ہو التفات
سنتا نہیں ہوں بات مکرر کہے بغیر

تو ایسے بوڑھے بھی لٹھ لے کر ”باجا بردار“ بچوں کے پیچھے دوڑے پھرتے ہیں۔ شب برات کو اگر کوئی پھلجھڑی روشن کر دے تو طمانچے سے اس معصوم کے چودہ طبق روشن کر دیے جاتے ہیں۔ پٹاخہ پھوڑے تو ہم سر پھوڑنے کے درپے ہو جاتے ہیں۔ بسنت کے تہوار پر ہم پتنگ اڑانے والے نادانوں سے جنگ پر آمادہ ہو جاتے ہیں، گویا پتنگ آمد، بجنگ آمد!

ادھر یہ معرکے ہوتے رہتے ہیں اور ادھر یورپ میں بچوں کی ناز برداریاں ہو رہی ہیں، نخرے اٹھائے جا رہے ہیں، دیدہ و دل فرش راہ کیے جا رہے ہیں۔ بچے، الٹا بڑوں کو ڈراتے دھمکاتے پھر رہے ہیں۔ چہرے پر بھبھوت رما کے، سیاہ لباس پہن کر جنوں، بھوتوں اور چڑیلوں کے روپ میں بچے گھر گھر جاتے ہیں، دروازے کی گھنٹی بجاتے ہیں اور آنے والے سے پوچھتے ہیں :شرارت یا ضیافت؟

ایسے شیطانوں سے توبہ ہی بھلی۔ بڑے ہار مان لیتے ہیں اور ’ضیافت‘ کے طور پر بچوں کو ٹافیاں، چاکلیٹ اور آئس کریم وغیرہ پیش کرتے ہیں۔

”شرارت یا ضیافت“ دراصل بچوں کا ایک کھیل ہے جو ہر سال اکتوبر کے آخری روز وہ کھیلتے ہیں لیکن اس روز صرف بچے ہی نہیں بلکہ بڑے بھی دنیا کو ’بازیچۂ اطفال‘ خیال کرتے ہیں اور نہایت جوش و خروش سے ایک تہوار مناتے ہیں جسے ”ہالووین“ کا نام دیا گیا ہے۔

”ہالووین“ آئرلینڈ کے ایک قبیلے کا ایک موسمی اور مذہبی تہوار تھا جو وہ دو ہزار سال قبل موسم گرما کے اختتام پر مناتے تھے۔ انہی ایام میں وہ پرانی فصل کی کٹائی کا کام مکمل کرتے تھے اور نئی فصل کی کاشت کے خواب دیکھتے تھے مگر یہ رات ان کے لیے ڈراؤنا خواب تھی۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اس رات کو مردہ افراد کی روحیں زمین پر اترتی ہیں اور انسانی دنیا اور جناتی دنیا کے مابین تعینات کے پردے اٹھ جاتے ہیں، ارواح خبیثہ انسانوں کو نقصان پہنچاتی ہیں، سو وہ انہیں خوش کرنے کے لیے آگ کے الاؤ روشن کرتے اور جانور قربان کرتے۔ غرض کہ یہ ان کے لیے خاصی خوف ناک رات تھی۔ غالب نے شاید ہالووین کی اسی رات کے لیے کہا تھا:

کیوں اندھیری ہے شب غم، ہے بلاؤں کا نزول
آج ادھر ہی کو رہے گا دیدۂ اختر کھلا

بعد ازاں یہ تہوار اہل کلیسا کے ہاتھ آیا تو انہوں نے اس میں خوف اور عقیدت کے کئی رنگ شامل کر دیے۔ اس دوران میں امریکہ دریافت ہو گیا اور اس تہوار کو بھی ’گرین کارڈ‘ مل گیا۔ شوخ چشم امریکیوں نے اسے ایک ثقافتی اور تفریحی سرگرمی بنا دیا۔ وہ ’خوف‘ سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور ’دہشت‘ سے لذت کشید کرتے ہیں۔ ہالووین کے دن شہر کو ”چڑیل“ کی طرح سجایا جاتا ہے۔ گھروں کو کھوپڑیوں اور ڈھانچوں سے آراستہ کیا جاتا ہے اور ”بھوت بنگلے“ کا تاثر پیدا کیا جاتا ہے۔ باورچی خانوں میں سیاہ اور سرخ رنگ کے خون آلود کھانے پکائے جاتے ہیں۔ ہر کوئی دہشت ناک قسم کے ماسک اور کاسٹیوم پہنے گھومتا نظر آتا ہے۔

مرد حضرات ’جنوں اور بھوتوں کا روپ اختیار کرتے ہیں‘ پری صورت دوشیزائیں بھی اس روز چڑیلیں بن جاتی ہیں جبکہ بیگمات میک اپ کے بغیر دن گزارتی ہیں۔ ’بچے‘ ننھے منے بھوت اور چڑیلیں بن کر ہر گھر کے دروازے پر جاتے ہیں اور سوال پوچھتے ہیں : شرارت یا ضیافت؟

یہ تہوار اب رفتہ رفتہ پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی اب اس کی جھلکیاں نظر آنا شروع ہو گئی ہیں جس پر قدیم وضع کے بزرگ اعتراض کرتے ہیں۔ انہیں کون سمجھائے کہ ثقافتی خلا اسی طور پر ہوا کرتے ہیں اور جو قوم اپنی رسموں اور تہواروں کی قدر نہیں کرتی، وہ ایک زود رنج قوم بن جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments