کیا آپ پر امن عوامی احتجاج میں شامل ہونے جا رہے ہیں؟


میری ایک نظم۔ عالمی سیاست۔ کے چند اشعار حاضر خدمت ہیں
جبین عدل کی رنگت جو خونچکاں ٹھہری
ہمارے عہد کی ہر آہ بے زباں ٹھہری
نہ جانے کون کسی لمحہ قتل ہو جائے
حیات اہل سیاست سے بدگماں ٹھہری

سلامتی کے خداؤں نے خون تھوکا ہے
رفاقتوں کی روایت دھواں دھواں ٹھہری
ڈھکے چھپے جو تضادات تھے ابھر آئے
ہر ایک جنگ وفاؤں کا امتحاں ٹھہری

نہ کوئی شہر نہ دیہات بچ سکا اس سے
چلی جو ظلم کی آندھی تو پھر کہاں ٹھہری
سہیل چاروں طرف بے بسی کے طوفاں ہیں
صدا عوام کی ابھری تو بادباں ٹھہری
۔

پچھلے ایک مہینے سے جہاں اسرائیل کے سیاسی و عسکری رہنما جنگ روکنے کے خلاف بیان دے چکے ہیں اور امریکی حکومت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کو ویٹو کر دیا ہے وہیں ساری دنیا کے عوام جنگ بندی کے حق میں نکل آئے ہیں۔

میں نے پچھلے پچاس برسوں میں گلیوں بازاروں اور سڑکوں پر فلسطین کی آزادی و خودمختاری کے حق میں اتنے بڑے جلسے اور جلوس کبھی نہ دیکھے تھے۔ پچھلے چار ہفتوں سے امریکی عوام امریکی صدر کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں۔ امریکی سیکرٹری آف دی سٹیٹ کی تقریر کے دوران کئی خواتین نے احتجاج کرتے ہوئے جب اپنے ہاتھ فضا میں بلند کیے تو ان کے ہاتھ خون سے سرخ تھے۔

امریکہ کے پرامن یہودیوں نے جلوس نکال کر ساری دنیا کو بتایا کہ اسرائیلی حکومت ساری دنیا کے یہودیوں کی نمائندگی نہیں کرتی اور یہودیت اور صیہونیت میں بڑا فرق ہے۔

اسرائیلی عوام اپنے وزیر اعظم کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور اس کی برطرفی چاہتے ہیں۔ ساری دنیا کے بہت سے ممالک کے بہت سے شہروں میں پرامن عوامی احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ شہری غزہ کی جنگ میں معصوم بچوں عورتوں اور بزرگوں کے قتل کے خلاف ہیں اور اسرائیل کے شانہ بہ شانہ ایک فلسطینی ریاست کے حق میں ہیں۔ میں نے زندگی میں پہلی بار امریکی صدر اور سیکرٹری آف دی سٹیٹ کو عوامی احتجاج سے مجبور ہو کر دبی زبان میں دو ریاستی حل کا ذکر کرتے سنا ہے۔

یورپ کے ان ممالک میں بھی، جن کی حکومتیں امریکہ اور اسرائیل کا ساتھ دے رہی ہیں، عوام امن کے حق میں فلسطین کا جھنڈا لیے اپنے جذبات و احساسات کا برملا اظہار کر رہے ہیں۔

شمالی امریکہ اور یورپ میں جو شہری فلسطین کے حق میں اپنے پر امن خوابوں اور آدرشوں کا اظہار کر رے ہیں انہیں ان خوابوں کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ ان میں سے بعض کو پولیس نے سڑکوں پر بری طرح مارا ہے، بعض کو جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے اور بعض کو ملازمتوں سے برطرف کر دیا گیا ہے۔

ان جارحانہ اور غیر منصفانہ سزاؤں کے باوجود وہ پرامن شہری اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور اپنی حکومتوں کو بتاتے اور جتاتے رہے کہ وہ جن انسانی حقوق کا ساری دنیا میں پرچار کرتے رہے ہیں اب وہ ان ہی انسانی حقوق کو پامال کر رہے ہیں۔

امریکہ اور اسرائیل نے جنگ جاری رکھنے سے عرب اور مسلم ممالک میں بہت سی پرانی دوستیاں کھو دی ہیں اور بہت سی نئی دشمنیاں بنا لی ہیں۔

دنیا میں نجانے کتنے لوگ ٹی وی اور سیل فون کی سکرین پر جنگ کے ہولناک مناظر دیکھ کر
دکھی ہو گئے ہیں
اداس ہو گئے ہیں
نا امید ہو گئے ہیں

کچھ ایسے سر پھرے بھی ہیں جو یہ امید رکھتے ہیں کہ اس جنگ کے خاتمے کے بعد فلسطینیوں کو پہلی بار ان کا حق ملے گا اور وہ اپنی دھرتی ماں پر اپنے ہی ملک میں عزت سے رہ سکیں گے۔ جہاں کچھ لوگ پر امید ہیں وہیں بعض کا خیال ہے کہ یہ ان کی خوش فہمی اور خوش خیالی سے زیادہ کچھ نہیں۔ انہیں تو عالمی جنگ کے سیاہ بادل دکھائی دے رہے ہیں۔

۔
آخر میں ایک نظم حاضر خدمت ہے جس کا عنوان ہے۔
عوامی احتجاج۔
اب عوام تنگ آ کر
ظلمتوں سے گھبرا کر
آ گئے ہیں سڑکوں پر
لے کے شمعیں ہاتھوں میں
اپنے اپنے خوابوں کی
لے کے آس آنکھوں میں

اپنی اپنی صبحوں کی
خوش گماں بہت خوش ہیں
بدگماں ڈراتے ہیں

یا تو دودھ کی نہریں
اب بہیں گی گلیوں میں
اور یا غریبوں کے
کتنے خون کے دریا
اب بہیں گے سڑکوں پر
آؤ ہم بھی چلتے ہیں
آؤ دیکھتے ہیں اب
انقلاب آئے گا
یا عذاب آئے گا

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 742 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments