اسلام آباد لٹریچر فیسٹول ۔ عام آدمی کی بھی سنو


Loading

تین روزہ اسلام آباد لٹریچر فیسٹول منعقد ہوا جو عام لوگوں کے لئے قلمکاروں، ادیبوں، دانشوروں، فنکاروں، اساتذہ اور دیگر تخلیقی شعبہ ہائے علم و فن سے بالمشافہ ملنے کا ایک اہم موقع ہوتا ہے۔

اسلام آباد ویسے بھی پاکستان اور مارگلہ کی پہاڑیوں کے بیچ ایک ایسا جزیرہ ہے جہاں پہنچنے کے لئے بھی جیب میں کم از کم سمارٹ فون کا ہونا ضروری ہے تاکہ آن لائن سواری کا بندوبست ہو سکے۔ بعض اوقات واپسی کے لئے آن لائن سواری بھی دستیاب نہیں ہوتی۔

اس بار لٹریچر فیسٹول محترمہ فاطمہ جناح کے نام سے منسوب ایف نائن پارک میں منعقد کیا گیا تھا۔ بڑی خوشگوار حیرت یہ تھی کہ پورے ایک سیکٹر ایف نائن پر محیط اس پارک میں پیدل چلنے کے ٹریک، برگر بیچنے والے ایک آؤٹ فٹ، سوِئمنگ پول، جم خانہ اور مجسموں کے علاوہ ایک بہت ہی شاندار کمیونٹی سینٹر بھی ہے جو سماجی، علمی و ادبی سرگرمیوں کا ایک قومی مرکز بھی بن سکتا ہے۔ ویسے تو اس پارک میں ایک شاندار ریسٹورنٹ اور اوپن ائر تھیٹر بھی ہے جو آج تک کبھی استعمال ہوا ہی نہیں۔

فاطمہ جناح پارک کے چاروں اطراف میں ایک دوسرے سے دو دو کلومیٹر کے فاصلے پر داخلی و خارجی دروازے ہیں۔ لٹریچر فیسٹول کے بارے میں صرف ایف نائن پارک بتایا گیا تھا جس کی وجہ سے لوگوں کو پوچھ پوچھ کر کمیونٹی سینٹر پہنچنا پڑا جو آن لائن سواری لے کر آنے والوں کے لئے اور بھی مہنگا ثابت ہوا۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی سے ویسے بھی عامتہ الناس کی دسترس سے باہر اسلام آباد ایف نائن پارک تک پہنچ صرف مڈل کلاس یا سواری کے حامل لوگوں تک ہی محدود رہی۔

جیسے تیسے کر کے یہاں پہنچنے والوں کو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ صحافیوں کا یہ میلہ صحافیوں نے صحافیوں کے لئے سجایا ہے۔ بولنے والے صحافی، سننے والے صحافی، سوال کرنے والے صحافی جواب دینے والے بھی صحافی۔ بات انسانی حقوق کی ہو یا نئی کتاب کی، بولنے کا حق صرف صحافیوں کو ہی رہا۔

عام لوگ صحافیوں کو پہلے ایک بار پڑھتے تھے یا سنتے تھے اب چار بار پڑھتے اور سنتے ہیں۔ اخبار میں کالم پڑھنے کے بعد دن بھر سماجی رابطے کی ویب سائٹس میں بھی ان ہی کے پیغامات کی بھر مار ہوتی ہے۔ ٹیلی ویژن پر ٹاک شو کے بعد وی لاگ اور پوڈ کاسٹ پر ان ہی کو سنا جاتا ہے۔ اب عوامی میلے میں بھی ان ہی صحافیوں کے سوال و جواب سن کر ایسا محسوس ہوا کہ جیسا کہ یہ میلہ بھی آن لائن ہی چل رہا ہو۔ سٹیج کے پیچھے لگے ٹی وی سکرین پر ان کو مسلسل دیکھتے ہوئے ایک لمحے کے لئے بھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ وہ سامنے بیٹھے ہیں بلکہ لگتا تھا کہ کوئی پوڈ کاسٹ چل رہی ہے ہے یا ٹی وی پر معمول کی نشریات ہیں۔

انسانی حقوق کے سیشن میں صحافیوں نے اپنی پریس کلب اور یونین آف جرنلسٹ والی لڑائی اس بات پر شروع کی کہ کس نے کون سا انٹرویو غلط کیا تھا اور کون زیادہ اچھا صحافی ہے۔ حالانکہ صحافیوں کا ایک سیشن پہلے ادب اور صحافت کے موضوع پر ہو چکا تھا جس میں انھوں نے اپنی بھڑاس اگر ٹاک شوز، پوڈ کاسٹ اور وی لاگ کے بعد کچھ رہ گئی تھی تو نکالی تھی۔

صرف صحافی ہی نہیں بلکہ وزیر صحافت صاحب بھی تینوں دن یہیں پر رہے۔ شاید یہ ان ہی کے حسن کرشمہ ساز کا کمال تھا کہ یہاں سے جامعات کے اساتذہ، انسانی حقوق پر کام کرنے والے کارکن، فلم، تھیٹر اور ڈرامہ کے فنکار، مصور، نئے ادیب، شاعر، مصنف وغیرہ لٹریچر یا ادب کی کٹیا سے بے دخل کر دیے گئے تھے اب یہاں ایڈیٹ باکس کی سکرینوں پر اپنے ہیئر اسٹائل، نیکٹائی اور سوٹ بوٹ کی وجہ سے مقبول صحافی نما اینکر نمایاں تھے جو ہر موضوع پر نابغہ قرار دیے گئے تھے۔ اگر صحافیوں کی شکلیں بھی بدل دی جاتیں تو کم از کم ورائٹی ہی ملتی مگر وہ بھی ہر سیشن میں چند معدودے ہی تھے۔ شاید صحافیوں کی سیاسی گروہ بندی کا کمال تھا۔

اسلام آباد لِٹریچر فیسٹول عموماً انگریزی لکھنے اور بولنے والوں کا میلہ ہوتا ہے۔ گو کہ یہاں اردو ادب کی بات ہوتی ہے اور مشاعرہ بھی ہوتا ہے مگر منتظمین اور رضا کار سب ان ہی اداروں سے آتے ہیں جہاں انگریزی کا چلن عام ہے۔ اس کے بعد ایک قومی کتب میلہ بھی لگتا ہے جس میں زیادہ تر اردو میں لکھی کتابیں اور لکھنے والے آتے ہیں۔ دونوں میں حاضرین کا فرق یہ ہوتا ہے کہ لٹریچر فیسٹول میں ماضی میں ترقی پسند کہلانے والے اور آج کے لبرل زیادہ شریک ہوتے ہیں اور کتب میلہ میں ماضی کے رجعت پسند اور آج کے بنیاد پرست کہلانے والے زیادہ ہوتے ہیں۔ اگر کتابوں کی بات کی جائے تو لٹریچر فیسٹول میں انگریزی کتابیں ہی زیادہ نہیں ہوتی ہیں بلکہ ترقی پسند ادب کا بھی غلبہ ہوتا ہے۔ کتب میلہ میں زیادہ تر مذہبی کتابیں ہوتی ہیں اور اس میں بھی مختلف مکاتب فکر کے درمیان مقابلہ صاف نظر آتا ہے۔ اس کے باوجود یہاں ترقی پسند ادب کے نسخے بھی ملتے ہیں۔

اس ملک کا المیہ یہی ہے کہ یہاں کتابیں کم لکھی پڑھی جاتی ہیں۔ جہاں تک ترقی پسند ادب کی بات ہے تو اس میں اب شاذ ہی کچھ نیا ملتا ہے۔ انسانی حقوق اور شہری آزادیوں تک محدود ہوئی بائیں بازو کی سیاست اب اپنا بیانیہ جس کو تھیسس کہتے تھے تشکیل دینے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔ سیاسی جماعتوں کا سالانہ کانگریس یا کنونشن اب کسی سیاسی کارکن کو یاد بھی نہیں جس میں کئی روز تک بند کمرے کا اجلاس اور پھر جلسہ عام ہوتا تھا۔ بند کمرے میں بیانئے کی تشکیل اور کھلے اجلاس میں تائید ہوتی تھی۔

عام لوگوں کو سیاسی جماعتوں کے بیانئے کی تشکیل و تائید سے محروم ہوئے عرصہ ہو چکا ہے۔ اب ان کو ٹیلی ویژن پر ایک تقریر سننے کو ملتی ہے جو بعض راہنما روزانہ کی بنیاد پر کرتے ہیں اور ہر بار ایک نیا نقطہ نظر ہوتا ہے مگر اس کی پرواہ کسی کو نہیں نہ بولنے والے کو نہ سننے والوں کو کیونکہ دونوں سیاست کی عملیت سے لا تعلق ہو چکے ہیں۔ اب سیاست اب عام آدمی کا لائحہ عمل نہیں بلکہ چند لوگوں کی شطرنج کی ایسی بساط ہے جس میں عام لوگ مہرے بھی نہیں۔

عام لوگوں کی سماجی سرگرمیوں میں شرکت کچھ میلے ٹھیلوں تک ہی محدود ہو چکی ہے۔ اب ان میلوں میں بھی اساتذہ، طلباء، سماجی کارکنان، انسانی حقوق کے کارکنان، قلمکاروں، فنکاروں اور دانشوروں کی جگہ پر دن رات ریاست اور طاقت کے بیانیے کی ترویج کرنے والے بٹھا دے گئے ہیں۔ ایسے میں ان بنیادی سوالات کا جواب کیسے ملے گا کہ اس ملک میں کتاب کیوں نہیں لکھی جاتی، فلم کیوں نہیں بنتی، تھیٹر کیوں ختم ہوا اور موسیقی کے آلات کیوں توڑ دیے جاتے ہیں۔ اس استاد کا مقدمہ کون لڑے گا جس کی جان بخشی ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں بلا کر اس بات پر کی جاتی ہے کہ وہ طلبہ کو سچ بتانے سے توبہ کرے۔ کم از کم پارلیمان میں نہیں، کسی عدالت میں نہیں کسی اخبار میں نہیں کسی ٹیلی ویژن چینل میں نہیں تو کم از کم یہ سوال کسی میلے میں کرنے کی اجازت دیجئے۔ ان فنکاروں کی کون سنے گا جن کو زندگی اور فن میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ اس ادیب کی داد رسی کون کرے گا جس کی لکھی کتاب چھاپنے کو کوئی تیار نہیں نہ بیچنے کے لئے کہ وہ عتاب کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ اس شاعر کی نظم کون سنے گا جس کی طرح میں معاشرے کا نوحہ ہے۔ اس فنکار کو کون سنے گا جس کی جنسیت اس کے فن کے راستے میں حائل ہے۔ اس مصور کی تصویر کون دیکھے گا جس میں زرد پتوں کے علاوہ کچھ نظر آتا کیونکہ بقول پروین شاکر اس کے اپنے بدن کو ملا ہے چنار کو موسم۔

بس اتنی سی التجا ہے کہ پارلیمان، عدالتوں، پریس کلب اور ٹیلی ویژن سکرینوں تک رسائی ممکن نہیں تو کم از کم عام آدمی کو میلے ٹھیلوں سے بے دخل نہ کیجیو۔ اگر سیاست کی طرح عام آدمی ان میلے ٹھیلوں سے بھی لا تعلق ہو گیا تو پھر یہ میلے بھی نہیں رہیں گے کیونکہ میلہ ہوتا ہی عام آدمی کا ہے، اشرافیہ کا تو صرف سودا بکتا ہے۔ اگر یہاں سے عام آدمی کی بے دخلی ہوئی تو پھر تمھارا سودا بھی نہ بک سکے گا۔ اپنا سودا بیچنے کے لئے ہی سہی عام آدمی کی بھی سنو۔

 

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 286 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments