مولانا طارق جمیل سے استفسار و استدعا
مولانا طارق جمیل کا بیٹا عاصم جمیل شام سمے خود کشی کرتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد ان کا بڑا بیٹا مولانا محمد یوسف جمیل بیان دیتا ہے کہ میرا بھائی عاصم جمیل ایک عرصے سے ڈپریشن کا مریض تھا، اسے بجلی کے جھٹکے بھی لگوائے جا رہے تھے اور علاج ابھی تک جاری تھا۔ اس نے گارڈ سے بندوق چھین کر خود کو شوٹ کیا ہے اور ان کی موت واقع ہو چکی ہے۔
صبح ہوتی ہے مولانا کا چھوٹا بھائی ڈاکٹر طاہر کمال یہ بیان دیتا ہے کہ میرا بیٹا اور عاصم جمیل جم کر رہے تھے کہ اس کے پاس پستول تھا اچانک اس سے پستول کا بٹن دب گیا اور گولی سینے میں جا لگی جس وجہ سے ان کی وفات ہوئی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ہی گھر کے دو معتبر افراد کی باتوں میں اس قدر تضاد کیوں آیا؟
صاف ظاہر ہے جب اشرافیہ کو اپنے ہی گھر کی خودکشی کا دفاع کرنا پڑ گیا تو تضاد کا در آنا بعید نہیں تھا۔
رہی سہی کسر خود مولانا نے بیٹے کی قل خوانی پر نکال دی کہ میرے بیٹے کی زندگی بہ عین آنحضور ص کی زندگی جیسی تھی۔
مولانا صاحب نے پشاور کے ایک پٹھان کا واقعہ سنایا کہ ان کا مجھے میسج آیا انہوں نے بتایا کہ میں روزانہ ایک لاکھ مرتبہ درود شریف پڑھتا ہوں اور آنحضور ص کا اکثر مجھے دیدار بھی ہوتا ہے۔ آگے وہ بتاتے ہیں کہ مجھے خواب آیا ہے کہ آپ کا بیٹا عاصم جمیل آنحضور ص کے ساتھ کھڑے ہیں اور ساتھ مولانا یہ بھی فرما رہے تھے کہ اس پٹھان کو میرے بیٹے کا نام تک معلوم نہیں تھا۔
حیرت کی بات اسے یہ نام خواب میں معلوم ہوا ہے۔
مولانا صاحب آپ کے بیان کردہ اس واقعہ کا تھوڑا منطقی لحاظ سے جائزہ لیتے ہیں کہ ایک دن میں 24 گھنٹے ہوتے ہیں اور ان گھنٹوں کے 86400 سیکنڈ بنتے ہیں یعنی ایک سیکنڈ میں بھی اگر درود شریف پڑھا جائے تو بھی ایک لاکھ نہیں بن سکتا۔
اس کے علاوہ بندے نے چوبیس گھنٹے میں کھانا، پینا سونا، اور رفع حاجت بھی کرنا ہوتا ہے۔ کم از کم آٹھ سے دس سیکنڈ لگتے ہیں درود ابراہیمی پڑھنے میں۔ آپ کو خدا کا واسطہ ہے، اتنی لمبی چھوڑنے سے پہلے کچھ سوچ لیا کریں۔ آپ جیسے علمائے کرام کی وجہ سے لوگ مذہب سے بے زار ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمارے ایمان میں اگر کوئی خلل آیا تو روز محشر اس کی تمام تر ذمہ داری آپ جیسے مولوی صاحبان پر عائد ہو گی۔
حد ہے ویسے ایک باپ (مبلغ اسلام) کس طرح اپنے بیٹے کو خودکشی کرنے کے بعد بھی معاشرے میں صاف شفاف بنا کر پیش کر رہا ہے۔ مولانا یہ بات کس بنیاد اور ثبوت پر کہہ سکتے ہیں کہ آپ کا بیٹا خودکشی کرنے کے فوراً بعد جنت میں پہنچ گیا جب کہ آپ جیسے ملاوٴں کے منہ سے لاکھوں بار ہم سن چکے ہیں کہ خودکشی کرنے والا جہنم میں جاتا ہے۔ بہرحال جو مذہب کے مالک (یعنی علمائے کرام) بنے ہوتے ہیں ان کے ساتھ شاید کچھ رعایت ہوتی ہو گی بارگاہ الہٰی میں۔ واللہ اعلم
آپ کے مطابق آپ کا بیٹا جنت پہنچ گیا ہے اور آنحضور ص سے ملاقات کے بعد وہ وہاں خوش ہے اگر یہی کسی غریب کا بیٹا خودکشی کرتا تو آپ نے کہنا تھا کہ حرام کی موت مارا گیا ہے اور آپ نے شریعت کو بیچ میں لا کر یہ فتویٰ بھی صادر کر دینا تھا کہ اس کا جنازہ پڑھنا جائز نہیں اور جہنمی تو آپ اسے پہلے ہی اپنے بیانات میں قرار دے چکے ہیں۔
چوں نکہ اب آپ کا تعلق اشرافیہ سے ہے لہذا ہمیں تو یہ سمجھ آتا ہے کہ آپ کے بیٹے کے لیے آنحضور ص سے ملاقات اور جنت کا واجب ہونا ناگزیر تھا۔ مولانا صاحب آپ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ میرے بیٹے نے خودکشی نہیں کی بلکہ کسی نے غلط خبر پھیلا دی ہے اور ساتھ آپ یہ بھی فرما رہے تھے کہ میرا بیٹا شہید ہے۔
مولانا پہلے تو آپ اپنے چھوٹے بھائی اور بڑے بیٹے سے پوچھیں کہ انہوں نے ایسی متضاد اور غلط خبر پھیلائی ہی کیوں؟
ہم نے تو فی الفور آپ کے گھر کے بندوں کی باتوں پر یقین کیا اور آگے بھی یہی تصدیق کی تھی۔
اب تو اس بات کی ہر جگہ یعنی پولیس، ہسپتال اور عینی شاہدین سے بھی تصدیق ہو چکی ہے کہ مولانا کے بیٹے نے خود کو شوٹ کیا ہے۔
مولانا صاحب آپ ہمیں بتائیں کہ خود کو شوٹ کرنا اگر خودکشی نہیں تو اور کیا ہوتا ہے؟
دوسرا شہید کی تعریف بھی فرما دیں۔
ہمیں تو بس اتنا معلوم ہے کہ شہید وہ کہلاتا ہے جو اسلام کی خاطر لڑتا ہوا جان سے مارا جائے۔
چونکہ اب آپ نے اپنے بیٹے کو شہید کہہ ہی دیا ہے تو یہ بتانا فراموش مت کیجئے گا کہ وہ اسلام کی خاطر کس معرکہ میں مارا گیا ہے؟
اگر آپ کے مطابق آپ کے بیٹے کی زندگی آنحضور ص کی زندگی جیسی تھی تو اتنی عظیم زندگی کے ہوتے بھی انہیں آخر خود کو شوٹ کیوں کرنا پڑا؟
آپ کے بڑے بیٹے کے بیان کے مطابق کہ وہ ڈپریشن کا مریض تھا اور کئی عینی شاہدین بھی اس بات کی تصدیق کر چکے ہیں کہ وہ ذہنی مرض کا شکار تھا جب کہ آپ فرما رہے ہیں کہ میرے بیٹے کی زندگی آنحضور ص کی زندگی جیسی تھی۔
البتہ ایک ویڈیو کلپ میں آپ بھی یہی فرما رہے ہیں کہ میرا بیٹا عاصم جمیل نفسیاتی مریض، پاگل اور ان پڑھ تھا۔
اب سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا آنحضور ص کی زندگی جیسی زندگی پر کاربند کوئی بھی انسان، کیا ذہنی مریض ہو سکتا ہے؟ یہاں ہم ایک منٹ کے لیے آپ کی بات کو مان بھی لیتے ہیں کہ آپ کے بیٹے کی زندگی واقعی آنحضور ص کی زندگی جیسی تھی تو پھر اس خودکشی کا قصوروار کون ہو سکتا ہے؟ ہم تو یہ بات تسلیم کر ہی نہیں سکتے اور کوئی بھی نہیں کرے گا چونکہ آنحضور ص کے نقش قدم پر کوئی انسان کاربند ہو اور وہ خودکشی بھی کر جائے، ایسا ممکن ہی نہیں اور آنحضور ص کی زندگی پر کاربند انسان تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔
مولانا صاحب ذرائع سے تصدیق ہو گئی ہے کہ آپ کے بیٹے نے خودکشی کی ہے تو اب آپ کو لازماً اپنے بیٹے کی زندگی کو آنحضور ص کی زندگی سے جوڑنے والی بوالعجبی کا اعتراف کرنا ہو گا اور اپنے خدا کے حضور تائب بھی ہونا ہو گا وگرنہ آپ اپنے بھی اور خدا کی بارگاہ میں بھی گناہ گار ٹھہریں گے اگر ایسا نہیں کرتے تو پھر آپ کو وہ مذہبی شواہد و دلائل سب کے سامنے لانا ہوں گے جن کی بنیاد پر آپ یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ میرے بیٹے نے خودکشی نہیں کی بلکہ شہید ہوا ہے۔ ہو سکتا ہے ہم آپ کے مذہبی شواہد و دلائل سے پہلے بے خبر ہوں اور ہاں آپ کے ایسا کرنے سے جہاں ہم سب مطمئن ہو جائیں گے وہیں امت مسلمہ بھی آپ کی بار احسان ہو گی کہ آپ نے سب کو ایک پوشیدہ مسئلے کے حل اور نئے پہلو سے آگاہ کیا ہے۔
لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دیجئے گا کہ محض آپ کے نزدیک خودکشی کیا ہے؟ اب اگر آپ کے مطابق یہ خودکشی نہیں تو ہم آپ کو آپ کا ہی ایک بیان یاد کروائے دیتے ہیں کہ آپ نے ایک سال پہلے کہا تھا کہ مذہب اسلام میں خودکشی حرام ہے۔ اب ہمیں تو آپ کی باتوں پر محکم یقین ہے اور سارا زمانہ جانتا ہے کہ آپ اور آپ کا بیٹا دونوں مسلمان یعنی مذہبی ہیں۔
اب جب کہ اپنے گھر کی کہانی آئی تو آپ کئی طرح کی بے سروپا اور لایعنی باتیں کرتے چلے جا رہے ہیں۔ آخر آپ کو ہو کیا گیا ہے؟
آخری تجزیے میں مجھے تو یہ سمجھ آتی ہے کہ اشرافیہ پر جب خود بار آئے تو سرے سے مذہب و تاریخ ہی بدل دیتے ہیں۔ مولانا صاحب مجھے آپ کے بیٹے کا بے حد دکھ ہے اور تعزیت کے لیے میں آپ کے پاس حاضر بھی ہوں گا لیکن خدارا! اتنا خیال ضرور رکھیں اور اپنوں سے پوچھ گچھ بھی کریں تاکہ آپ کی اپنی باتیں تضادات سے اس قدر نہ بھر جائیں کہ آپ کے پاس اپنی باتوں کے دفاع کی نوبت ہی نہ بچے اور ایسا بھی نہ ہو کہ لوگ آپ جیسے علمائے کرام سے کنارہ کشی اختیار کرنے پر مجبور ہو جائیں۔
مولانا صاحب اگر آپ میرے ان استفسار کے جوابات دینے سے قاصر ہوں تو پھر آپ سے دست بستہ استدعا ہو گی کہ دل بڑا کر کے اپنے بیٹے کی غلطی کو تسلیم کر لیں۔ یقین کریں ایسا کرنے سے ایک تو آپ کی اپنی باتوں میں تضاد نہیں آئے گا اور دوسرا آپ کا قد کاٹھ بھی بلند ہو گا۔
- مولانا طارق جمیل سے استفسار و استدعا - 09/11/2023
- دریاٸی کلچر اور دھبی بلوچاں - 07/09/2023
- اکرام اللہ کا ناول ”گرگ شب“: نفسیاتی و فنی مطالعہ - 01/01/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).