حضرت مفتی قوی” المعروف رفع حاجت”
سعادت حسن منٹو کہا کرتا تھا
” کہ میں کبھی شراب پینے کے بعد الائچی اپنے منہ میں نہیں رکھتا اور طوائف کے پاس کبھی منہ چھپا کے نہیں جاتا“
مطلب ”میں“ جو ہوں، جیسا بھی ہوں سو ہوں اور جو کرتا ہوں ڈنکے کی چوٹ پر کرتا ہوں اور خود کو پارساؤں کی صف میں شامل کرنے یا پاکیزہ ثابت کرنے کے لیے خود کی ذات کو خواہ مخواہ کے تقدیسی لحاف میں لپیٹنا پسند نہیں کرتا۔
جوش ملیح آبادی کی ”یادوں کی بارات“ یا ساقی فاروقی کی ”پاپ بیتی“ پڑھ لیں آپ کو شائبہ تک بھی نہیں گزرے گا کہ کہیں پر ان مصنفین نے خود کی ذات کو کسی ماورائی چولے میں چھپانے کی کوشش کی ہو۔ انہوں نے اپنی نارمل سی زندگی کو ”ایز اٹ از“ لکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
تاویلات کی زبان وہی بولتے ہیں جن کے دامن میں درجنوں چھید ہوتے ہیں اور ان کو یہ فکر دامن گیر رہتی ہے کہ کہیں ان کا پرسونا ماسک ان کے مصنوعی چہرے سے کھسک نہ جائے اور خواہ مخواہ میں رسوائی گلے نہ پڑ جائے۔
اگر کبھی اس قسم کے پارساؤں یا مذہبی دکانداروں کا کمزور پہلو سامنے آ بھی جائے یا کیمرے کی آنکھ کی وجہ سے بھید کھل جائے تو یہ فوراً سے اپنی اسی برائی یا حرام زدگی کو تقدس کا پرسونا ماسک چڑھانے سے بھی باز نہیں آتے۔ ان میں اتنی سی اخلاقی جرات بھی نہیں ہوتی کہ وہ اپنے گناہ کا برملا اعتراف کر سکیں۔
ان کے بلند و بانگ قسم کے دعویٰ پارسائی اور فرشتہ بیانیاں انہیں ساری زندگی پارسائی کے مخمصے میں مبتلا کیے رکھتی ہے، اب فرشتوں والے چبوترے سے پاؤں کیسے نیچے اتاریں بھائی؟
زندگی بھر کا دعویٰ پارسائی زمین بوس ہوتا ہے جناب۔ پارسائی کا زعم سب سے خطرناک ہوتا ہے اور اس سطح کا شخص خود کو اوتار یا چنیدہ سمجھنے لگتا ہے۔
آج کل مفتی قوی کا ایک ویڈیو کلپ بہت وائرل ہے جس میں مفتی صاحب دبئی کے ایک ڈسکو کلب میں ایک دوشیزہ کے ساتھ انتہائی دلجوئی سے بوس و کنار میں مصروف ہیں۔ موصوف اکثر تنازعات کی زد میں رہتے ہیں، رنگین مزاج اور چنچل سی طبیعت کے مالک ہیں۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ مفتی صاحب روس کے ایک متنازع اور عیاش نیم روحانی کردار ”راسپوٹین“ بننے کی اکثر ریہرسل یا پریکٹس کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں، جو بڑی عیاری و چالاکی سے مختلف خواتین کے ساتھ من چاہیاں بھی کر لیتا تھا اور روحانیت کا چکر بھی کامیابی سے چلا لیا کرتا تھا۔ بالکل وہی جھلک مفتی صاحب میں بھی دکھائی دیتی ہے، اپنی شوخ و چنچل سی طبیعت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اکثر خواتین میں گھرے رہتے ہیں ممکن ہے غلطی سے یا کسی کے بہکاوے میں آ کر تقوی و پرہیزگاری کی راہوں پر چل نکلے ہوں لیکن اندر کے حقیقی فنکار کا کیا کریں؟
جو انہیں اپنی علتوں کو پورا کرنے پر اکساتا رہتا ہے اور موصوف بھی کمال کے ایکٹر ہیں جو ہر طرح کی رنگینیاں انجوائے کرنے کے بعد اپنی پرہیزگاری، صاف گوئی اور صالح قسم کی نیت اور منشا کی گواہی بھی ببانگ دہل دیتے رہتے ہیں تاکہ سند رہے اور لوگ انہیں ”واقعی“ میں غلط یا شیطان کا ساتھی نہ سمجھ لیں۔
ان کی اس قسم کی مصلحتی، مشکوک یا چالاک سی فطرت و خصلت کو ”کمپلسو لائنگ“ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ ایسا شخص جو محض اپنے من کی خوشنودی و سرور کے حصول کے لیے عادتاً جھوٹ بولتے رہنے کے مرض کا شکار ہو جاتا ہے، اس قسم کا بندہ درویشی میں عیاری کا قائل ہوتا ہے اور بڑی چالاکی سے اپنے کمزور پہلوؤں کو تقدس کا چولا پہنا کر اپنے پیروکاروں کی عقلوں پر پردہ ڈالتا رہتا ہے۔ ایسے شخص کو عوامی یا سادہ زبان میں ”میسنا یا گھنا“ بھی کہا جاتا ہے اور اس تشریح پر مفتی قوی بالکل پورے اترتے ہیں۔
کمپلسو لائنگ کی اصطلاح کو ایک جرمن فزیشن ”ڈاکٹر ڈل براک“ نے 1891 میں متعارف کروایا تھا جو مفتی قوی ایسے مذہبی فنکاروں پر بالکل درست بیٹھتی ہے۔ خیر موصوف کی اپنی زندگی ہے اور اپنے تئیں اپنے حساب سے زندگی گزارنا ان کا انفرادی حق ہے، باہمی رضامندی سے جہاں بھی اور جس کسی کے ساتھ بھی رہنا یا نجی لمحات کو انجوائے کرنا چاہیں کسی کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ اور کسی کی بھی نجی باؤنڈری میں خواہ مخواہ کی مداخلت کرنا ایک طرح سے بداخلاقی کے زمرے میں آتا ہے اور اس قسم کی مورل پولیسنگ والا رویہ مکروہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے اور ججمنٹل قسم کی نفسیات سماج میں کھوکھلی اور سطحی سی پارسائی کو فروغ دینے کا سبب بنتی ہے۔ ایسے معاشرے میں لوگ مختلف قسم کے پرسونا ماسک چڑھائے گھومتے ہیں اور افراد کی اوریجنیلٹی اپنی موت آپ مر جاتی ہے۔
ہمارا مسئلہ کسی کی ذاتیات سے ہرگز نہیں ہے ہم تو صرف مذہبی طبقے کی عیارانہ عادات و اطوار پر سوال اٹھاتے ہیں جو بڑے آرام سے اپنے سیاہ کارناموں یا کاموں کو اوتاری لباس پہنا کر سوال یا جواب دہی کی پہنچ سے دور کر دیتے ہیں۔ اب بھلا جس پر تقدس یا مذہب کی مہر لگ جائے اس کی گرہ کو کھولنے کا خطرہ کون مول لے گا؟
دبئی کے ڈسکو کلب میں مفتی صاحب دوشیزہ کے گلے اور ہونٹوں کا تسلی سے بوسہ لیتے ہیں اور اپنے اس عمل کو ایک انٹرویو میں بڑی بے شرمی سے کہہ دیتے ہیں۔
” کہ وہ بچی میری بیٹیوں کی طرح تھی اور وہ مجھ سے مدد طلب کرنے آئی تھی اور میں ایک طرح سے اس کے لیے مصلح یا اس کی مشکلات کو حل کرنے کے لیے ایک مشکل کشا کے طور پر سامنے آیا تھا“
اب ان کی کہانیوں یا دو نمبریوں کو چرب زبانی، عیاری اور مکاری کے علاوہ اور کیا نام دیا جا سکتا ہے؟
بڑی چالاکی سے موصوف نے اپنی شہوانی علت کو اوتاری صفات میں لپیٹ کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
ہماری نظر میں تو جس سچ کو مذہبی لبادہ اوڑھانے کی ضرورت پڑ جائے وہ سچ نہیں ہوتا بلکہ ایک طرح سے تاویل یا بہانہ ہوتا ہے جسے سوچ سمجھ کر گھڑا جاتا ہے تاکہ اپنے کالے کرتوتوں کو عقلی جواز مہیا کیا جا سکے۔ آخر میں مولانا سے پوچھنا تھا کہ ان کا اپنی بیٹی کے متعلق کیا خیال ہے؟
اگر کوئی اسے بیٹیوں کی طرح سمجھتے ہوئے مفتی صاحب جیسا انداز اپنانے کی کوشش کرے تو کیا مولانا برداشت فرما لیں گے؟ کیا شرعی طور پر کسی کی بیٹی کو گلے لگا کر چومنا جائز ہے؟ اس بیچ محرم و غیر محرم کے شرعی اصول و ضوابط کا کیا بنے گا؟
مولانا ہمیں آپ کی ذات یا ذاتی زندگی سے کوئی مسئلہ نہیں ہے بس آپ کی درویشی میں چھپی عیاری سے ڈر لگتا ہے صاحب۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).