گوریلا جنگ


مختصر تعارف
ڈاکٹر خالد سہیل
گوریلا جنگیں دنیا کے مختلف حصوں میں صدیوں سے لڑی جا رہی ہیں۔

ان جنگوں کا طریقہ کار اور نفسیات روایتی جنگوں سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ روایتی جنگ میں دو ممالک کی فوجیں وردی پہنے ایک دوسرے سے میدان جنگ میں بر سر پیکار ہوتی ہیں لیکن گوریلا جنگ میں انقلابی فوجیوں کا ایک چھوٹا سا دستہ استعماری فوج کی بھاری نفری پر شب خون مارتا ہے۔ گوریلا فوجیوں کا مقصد جنگ جیتنا نہیں ہوتا بلکہ استعماری فوج اور حکومت کو حیراں اور پریشاں کر کے ہراساں کرنا ہوتا ہے تا کہ وہ تھک ہار کر خود ہی واپس چلے جائیں۔

گوریلا فوجی چاہتے ہیں کہ دشمن کا اس قدر جانی اور مالی، سیاسی اور فوجی نقصان ہو کہ وہ خود ہی جنگ سے دست بردار ہو جائیں اور گوریلا فوجی آزادی حاصل کر لیں۔ یہ آزادی بیرونی طاقتوں سے بھی ہو سکتی ہے اور مقامی آمرانہ حکومتوں سے بھی۔ گوریلا فوجی جابرانہ، ظالمانہ اور غیر منصفانہ حکومتوں کو ہٹا کر عادلانہ اور منصفانہ نظام قائم کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔

گوریلا کی اصطلاح انگریزی زبان میں 1809 میں متعارف ہوئی تھی
یہ اصطلاح بنیادی طور پر ہسپانوی زبان کی اصطلاح تھی
گویرا کا مطلب جنگ
گوریلا کا مطلب چھوٹی جنگ
گوریلیرو کا مطلب گوریلا فوجی تھا

یہ اصطلاحیں اس دور میں مقبول عام ہوئیں جب نپولین بوناپارٹ نے 1808 میں سپین پر حملہ کیا اور ہسپانوی گوریلا فوجیوں نے 1814 میں نپولین کو شکست فاش دی۔ وہ جنگ ہسپانوی قوم کے لیے آزادی کی جنگ تھی۔ اس کامیابی کے بعد گوریلا جنگ ساری دنیا میں مقبول ہو گئی اور پچھلی دو صدیوں میں بہت سی مظلوم و مقہور و مجبور قوموں نے اس طرز کی جنگ کو اپنی آزادی کے لیے استعمال کیا اور کامیاب ہوئے۔

سپین کی انیسویں صدی کی گوریلا جنگ سے پہلے اٹھارہویں صدی میں برطانوی حکومت کے خلاف امریکہ میں گوریلا جنگ لڑی گئی۔ اس جنگ کا سہرا فرانسس میریون
FRANCIS MARION

اور اس کے ساتھیوں کے سر جاتا ہے۔ فرانسس میریون 1732 سے 1795 تک زندہ رہے۔ برطانوی فوجی ان سے اتنے نالاں رہتے تھے کہ انہوں نے فرانسس میریون کو
THE SWAMP FOX

کا نام دے رکھا تھا کیونکہ ان کی نگاہ میں فرانسس ایک لومڑ کی طرح چالاک تھے جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ رات کی تاریکی میں حملہ کرتے اور دن کی روشنی میں غائب ہو جاتے۔ فرانسس میریون اور ان کے ساتھی رات کے وقت برطانوی فوج کے گھوڑے اور کھانے کا سامان بھی چرا کر لے جاتے۔ برطانوی فوجی اتنے حیران پریشان اور ہراساں ہوتے کہ فرانسس میریون کے بارے میں کہتے

HE FIGHTS NEITHER LIKE A GENTLEMAN NOR LIKE A CHRISTIAN

برطانوی حکومت اور فوج نے انہیں قتل کرنے کی بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوئے۔ فرانسس میریون برطانوی فوج سے کہیں زیادہ ہوشیار اور زیرک تھے۔ فرانسس میریون امریکیوں کے ہیرو گئے اور اس ہیرو کی یاد میں امریکیوں نے 2006 میں ایک دلفریب مجسمہ بنا کر ملک کے دارالحکومت واشنگٹن میں ایستادہ کیا اور اس مجسمے پر کندہ کیا

FRANCIS MARION…
WHO LIVED WITHOUT FEAR AND DIED WITHOUT REPROACH

جب ہم گوریلا جنگ کی تاریخ کا مطالعہ اور تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ گوریلا جنگ کا تصور سب سے پہلے چینی دانشور سن زو نے 500 قبل مسیح میں اپنی کتاب
THE ART OF WAR
میں پیش کیا تھا اور پہلی گوریلا جنگ 217 قبل مسیح میں روم کے QUINTAS FABIUS
نے کارتھیج کے جرنیل ہنی بال کی فوج کے خلاف لڑی تھی۔ اسی لیے انہیں
FATHER OF GUERRILLA WARFARE
کا خطاب دیا جاتا ہے۔ گوریلا جنگ کو سیاسی اساس مارکس اور لینن کے نظریات نے فراہم کی اور ان نظریاتی بنیادوں پر بیسویں صدی میں بہت سی گوریلا فوجیوں نے بلند و بالا عمارتیں تعمیر کیں اور کامیاب انقلاب برپا کیے۔

ولادمیر لینن اور گوریلا جنگ

ولادمیر لینن نے 1906 میں گوریلا جنگ کے بارے میں ایک تفصیلی مقالہ لکھا اور گوریلا جنگ کی اہمیت، افادیت اور نفسیات پر روشنی ڈالی۔ اس مقالے میں انہوں نے فرمایا کہ جب کسی قوم میں سیاسی شعور بیدار ہو جائے اور وہ اپنی اجتماعی زندگی میں سماجی، معاشی اور سیاسی تبدیلیاں لانی شروع کر دیں تو وہ استعماریت کے خلاف جنگ کے لیے تیار ہو جاتے ہیں اور اپنے دشمن کو زیر کرنے کے کئی طریقے اپناتے ہیں۔ ان طریقوں میں سے ایک طریقہ گوریلا جنگ کا بھی ہے۔

جب لوگ ہم سے گوریلا جنگ کا جواز پوچھتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ ماکسزم کا فلسفہ غریبوں کسانوں اور مزدوروں کے انقلاب میں ہر قسم کی جنگ کو ناگزیر سمجھتا ہے۔ ماکسزم کے فلسفے پر عمل کرنے والے انقلابی تاریخ کا معروضی تجزیہ کرتے ہیں اور بدلتے ہوئے سماجی و سیاسی حالات کے ساتھ اپنے جنگ کے طریقے بھی بدلتے رہتے ہیں۔

جہاں تک روس کے سیاسی حالات کو تعلق ہے روس میں مزدوروں نے 1896 6 سے 1900 تک اور 1901 اور 1902 میں طالب عملوں کے ساتھ مل کر اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے پر امن ہڑتالیں کیں۔ لیکن جب ان کی پرامن ہڑتالوں کو اصحاب بست و کشاد نے طاقت سے روکنے کی کوشش کی تو پھر مزدوروں اور طالب عملوں نے 1906 میں مل کر مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ 1906 تک پہنچتے پہنچتے روس میں مسلح جدوجہد انقلاب لانے کے لیے ناگزیر ہو چکی تھی۔
ہماری نگاہ میں مسلح جدوجہد کے دو راستے ہیں
پہلے راستے پر چلنے والے انقلابی ظالم و جابر حاکموں اور جرنیلوں کو قتل کرتے ہیں

دوسرے راستے پر چلنے والے انقلابی حکومت فوج اور پولیس کے وسائل اور سرمایہ داروں کی دولت پر قبضہ کرتے ہیں لیکن وہ وسائل اور دولت کسی فرد کی جیب یا بینک میں جانے کی بجائے انقلابی پارٹی کی تحویل میں دیے جاتے ہیں تا کہ وہ وسائل انقلاب کی تحریک کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوں۔

روس میں غربت بھوک اور بے روزگاری اس حد تک شدید ہو چکی تھی کہ ان سے نجات کا واحد طریقہ مسلح جدوجہد تھا۔

انقلابی اس فرق کو جانتے ہیں کہ انقلاب کی جارحیت مجرمانہ نہیں سیاسی ہے۔
IT IS POLITICAL VIOLENCE NOT CRIMINAL VIOLENCE
اس جارحیت کا مقصد بینک لوٹنا نہیں بلکہ انقلاب کی راہ ہموار کرنا ہے۔

جو لوگ جارحیت کی نفسیات اور فرق کو نہیں سمجھتے اور انقلابیوں کی مدد کرنے کی بجائے حکومت فوج اور پولیس کی مدد کرتے ہیں وہ انقلاب کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ ہم ایسے لوگوں کو انقلاب دشمن سمجھتے ہیں۔

ہم اس جنگ کو گوریلا جنگ کہتے ہیں جو مزدوروں کسانوں اور غریبوں کی زندگیاں بدلنے کے لیے انقلاب کی راہ ہموار کرتی ہے اور عوام کو بہتر زندگی کے خواب دکھاتی ہے۔ گوریلا جنگ اسی وقت کامیاب ہوتی ہے جب اسے عوام کی حمایت حاصل ہو۔ گوریلا فوجی اور ان کے رہنما جتنے منظم ہوں گے وہ جنگ اتنی ہی کامیاب ہوگی اور انقلابیوں کا حوصلہ اور اعتماد اور بہتر مستقبل کی امید بڑھائے گی۔ گوریلا جنگ سماجی شعور کو ایک قدم آگے بڑھاتی ہے اور انقلاب کی راہ ہموار کرتی ہے۔ وہ انقلابی جدوجہد کا ناگزیر حصہ ہے۔

گوریلا جنگ کے ادوار

ایک کامیاب گوریلا جنگ چار ادوار سے گزرتی ہے

پہلے دور میں گوریلا رہنما اس جنگ کی تفاصیل طے کرتے ہیں اور اپنے فوجیوں کی تربیت کرتے ہیں۔ گوریلا فوجی روایتی فوجیوں سے اس مختلف ہوتے ہیں۔ روایتی فوجیوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ حکومت کے معاملات سے دور رہیں جبکہ گوریلا فوجیوں کی تربیت میں فوجی ٹریننگ کے ساتھ ساتھ نظریاتی ٹریننگ بھی شامل ہوتی ہے۔ ایک گوریلا فوجی بھی ہوتا ہے اور سیاسی کارکن بھی۔

دوسرے دور میں گوریلا فوجی اور رہنما عوام کو جنگ کے لیے تیار کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ گوریلا جنگ عوام کے تعاون کے بغیر کامیاب نہیں ہوگی۔

تیسرے دور میں گوریلا فوجی حکومت فوج اور پولیس کے اصحاب بست و کشاد پر حملہ کرتے ہیں۔ وہ رات کی تاریکی میں حملے کرتے ہیں اور شب خون مارنے کے بعد پراسرار طریقے سے غائب ہو جاتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ گوریلا جنگ ایک طویل جنگ ہوتی جو کئی ہفتوں اور مہینوں سے بڑھ کر کئی سالوں اور دہائیوں تک پھیل سکتی ہے۔ اس جنگ کے لیے میراتھون رنر کے صبر اور استقامت کی ضرورت ہوتی ہے۔

چوتھے دور میں گوریلا فوجی فتح کا جشن مناتے ہیں اور یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ فوجی انقلاب کے بعد کیسے سیاسی، معاشی اور سماجی انقلاب کی راہ ہموار کریں۔

تاریخ گواہ ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ بیسویں صدی میں چین میں ماؤ زے تنگ، ویت نام میں ہوچی منہ، کیوبا میں کاسٹرو اور چے گوارا اور جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا نے کامیاب گوریلا جنگیں لڑیں۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 736 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments