حالت حصار: مغربی ذہنیت کا ایک تجزیہ


آج پھر اس کیفیت کو بیان کرنا ہے جو وقفے وقفے سے احساسات کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے کہ دیکھنے اور سننے کو بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں ہے۔ پہلے دن گنتے تھے، پھر ہفتے ہوئے اور اب مہینوں پر بات آ پہنچی ہے۔ لیکن آج بات صرف غزۂ تک نہیں رکھنی کہ اس نے اور بہت سے دکھوں کو جگا دیا ہے۔ آج جب غزہ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے تو مجھے فلسطینی شاعر محمود درویش کی ایک نظم ”کیا تم بھی ہماری طرح انسان ہو“ یاد آ رہی ہے جو اس نے اس اسرائیلی فوجی کو مخاطب کرتے ہوئے لکھی جو فلسطینی گھر کا دروازہ توڑنے کے قریب ہے۔ مجھے یقین ہے کہ غزۂ کے محصور گھروں میں موجود اس دستک کے انتظار میں اسے ضرور زیرلب پڑھ رہے ہوں گے :

اوہ تم کہ دہلیز پر کھڑے ہو
اندر آ جاؤ کہ تمھیں عربی کافی پیش کریں
(شاید تمھیں احساس ہو جائے کہ تم بھی ہماری طرح انسان ہو)
اوہ تم کہ جو دہلیز پر کھڑے ہو
ہماری صبح سے دور دفع ہو جاؤ
تاکہ ہمیں یقین آ جائے کہ
ہم بھی تمھاری طرح انسان ہیں

لیکن یہ تو اچھے زمانوں میں لکھی گئی کیونکہ اب جب اسرائیلی فوجی غزۂ میں پہنچیں چکے ہیں تو اب کافی کا وقت نہیں کیونکہ نا صرف کافی اور پانی ختم ہو چکا بلکہ اب تو اسرائیلی فوجیوں کو بتا دیا گیا ہے کہ فلسطینی تو انسان ہیں ہی نہیں بلکہ ان کو ازبر کرایا گیا ہے کہ وہ تو جانور ہیں اور قابض فوجیوں کے لیے ان کے پاس ایک ہی علاج ہے کہ ان کا خاتمہ کر دیا جائے۔

نسل کشی اور انتقام کے جنون نے جنگی طریقہ کار کے سلسلے میں بین الاقوامی ضابطوں کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ شہری ہلاکتوں اور سیس فائر کے مطالبات کو حقارت سے ٹھکرایا دیا گیا ہے۔ یونیسیف کے ترجمان کے مطابق، ”غزۂ ہزاروں بچوں کا قبرستان بن چکا ہے۔ اور بچ جانے والوں کے لیے جہنم“ ۔

امریکی اور یورپین حکام ”انسانی وقفوں“ کی بات کرتے ہیں جو کہ غزۂ کی مکینوں کے لیے بے معنی ہے۔ منافقت کی انتہاء تو یہ ہے کہ ایک سانس میں بمباری میں ”انسانی وقفوں“ بات کرنے والے تو ساتھ ہی ساتھ اربوں ڈالر کے جدید ترین اسلحے کی اسرائیلی فوج کو سپلائی کی یقین دھانی بھی کرا رہے ہوتے ہیں۔ اگر حساب لگایا جائے تو اب تک غزہ پر گرائے جانے والے بارود کی طاقت دوسری جنگ عظیم میں امریکہ کی طرف سے ہیروشیما اور ناگا ساکی پر گرائے جانے والے ایٹم بموں کی مجموعی طاقت سے بڑھ چکی ہے۔

اقوام متحدہ کے زیر اہتمام سیز فائر اور سیاسی بات چیت کی کوشش، امریکہ اور اس کے حواریوں بشمول ناٹو کی پالیسی کے خلاف ہے اور یہ صرف فلسطین کے لیے ہی نہیں ہے۔ یہ وہی پالیسی ہے جو امریکہ اور اس کے ناٹو کے حواری یوکرائن کے سلسلے میں اپنائے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں 105 بلین ڈالر کا اضافی دفاعی بجٹ امریکی ایوان نمائندگان سے منظور حاصل کر رہا ہے جس میں جہاں 61.4 بلین ڈالر یوکرائن کی جنگی بھٹی کے ایندھن کے لیے ہیں وہیں فلسطینیوں کی نسل کشی میں مصروف اسرائیلی فوج کی امداد کے لیے 14.1 بلین ڈالر مختص کیے گئے۔

آپ کو شاید یاد ہو کہ تقریباً بیس ماہ پہلے شروع ہونے والی یوکرائن جنگ کے شروع کے دنوں میں بیلا روس اور ترکی کی جانب سے قیام امن کے لیے ہونے والی کوششوں کو ناٹو کے ذریعے ناکام بنا دیا گیا اور اس جنگ میں اب تک شہری ہلاکتوں کی تعداد دس ہزار کے لگ بھگ پہنچ چکی ہے جبکہ غزۂ میں اس سے زیادہ شہری صرف پانچ ہفتوں میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

یہ بھی کوئی اتفاق نہیں ہے کہ صرف ان ہی تین ممالک یعنی امریکہ، اسرائیل اور یوکرائن نے اس سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کیوبا پر ساٹھ سال سے لگی امریکی پابندیوں کے خلاف پیش کی جانے والی قرار داد کی مخالفت کی۔ امریکہ نے یہ پابندیاں درحقیقت 1960 سے نافذ کر رکھی ہیں کیونکہ اس نے 1959 میں کیوبا میں آنے والے عوامی انقلاب کو اس جزیرے اور دنیا میں اپنے مفادات کے لیے خطرہ سمجھا۔ امریکہ کو خطرہ تھا کہ اگر کیوبا میں انسانی حقوق کے لیے آنے والی تبدیلی روکی نہ گئی تو یہ دوسری قوموں کے لیے مثال بن سکتی ہے۔

اگرچہ ان پابندیوں نے کیوبا کی معیشت اور انسانی ترقی کے لیے اس کی کوششوں کو ارب ہا ڈالر کا نقصان پہنچایا لیکن 2020 کی ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق کرونا وبا کی شدید مشکلات کے باوجود کیوبا نے اپنی جی ڈی پی کا 11.5 فیصد تعلیم پر خرچ کیا جبکہ امریکہ میں یہ شرح 5.4 فیصد تھی۔ کیوبا میں سکول کی تعلیم مفت ہی نہیں بلکہ بچوں کو کھانا اور یونیفارم بھی دیا جاتا ہے۔ صحت بارے اعداد و شمار بھی کیوبن حکومت کی اپنے لوگوں کے لیے ترجیحات کی عکاسی کرتی ہیں۔

یہ باتیں یہاں کرنے کی ضرورت اس لیے ہے کہ ہم اس ذہنیت کو آشکار کرنا چاہتے ہیں جس کا شکار آج فلسطینی عوام ہیں لیکن وہ اس میں اکیلے نہیں ہیں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ کرونا وبا کے انتہائی مشکل حالات میں بھی امریکی حکومت نے کیوبا کے لیے وینٹی لیٹرز (ventilators) اور میڈیکل اوکسیجن کی دوسرے لاطینی امریکی ممالک سے درآمد پر پابندی عائد کی تھی۔ اس کے جواب میں کیوبن ماہرین نے نہ صرف اپنا وینٹی لیٹر خود بنا لیا بلکہ کرونا ویکسین بھی بنا ڈالی۔

اپنے قارئین کی یاد دھانی کے لیے کیوبا کی ان خدمات کا ذکر نہ کرنا نا انصافی ہی ہو گا جو انہوں نے 2005 میں آنے والے زلزلے میں پاکستانی عوام کی۔ دو ہزار سے زائد میڈیکل ڈاکٹرز نے چھ ماہ سے زیادہ عرصے تک تیس سے زائد فیلڈ ہسپتال قائم کر کے دس لاکھ سے زائد مریضوں کا علاج کیا۔ اس دوران تمام عملہ ان کیمپوں میں عام لوگوں کے ساتھ رہا۔

 یہ جنگ جو افغانستان سے شروع ہوئی اور مختلف ملکوں میں تباہی مچاتی ہوئی افغانستان ہی میں اس طرح ختم ہوئی کہ امریکہ نے افغانستان کے اربوں ڈالر پر محیط زرمبادلہ کو ضبط کر لیا۔ جانے سے ایک رات پہلے قندھار کے میں قائم اسلحے کے ڈپو کے دروازے کھول دیے گئے اور اب وہ اسلحہ وطن عزیز میں ایک بار پھر تحریک طالبان پاکستان اور دوسرے گروہوں کے ہاتھوں دہشت گردہ میں استعمال ہو رہا ہے۔

آج غزۂ میں لگاتار بمباری کو براہ راست ٹیلی وژن پر دکھایا جا رہا ہے جس میں گری ہوئی عمارتوں میں بچوں کے معصوم چہروں کی تصاویر دیکھ کر ساری انسانیت کہہ اٹھی ہے کہ بس کافی ہو گیا۔ کیا یہ ”کافی“ کا لفظ اس درد اور اذیت کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے جس میں سے فلسطینی عوام گزر رہے ہیں؟

کیا جمہوریت اور استعماری جنگیں ایک ساتھ چل سکتی ہیں۔ جمہوریت تو ایک خوبصورت رویے کی عکاسی کرتا ہے جبکہ یہ جنگیں تو فاشزم کا پرتو ہیں چاہے ان پر جتنی بھی ملمع کاری کر لی جائے۔ واشنگٹن اور لندن میں جمہوریت کے علمبردار اسرائیل کی جنگی وحشت کے لیے تازہ ترین اسلحے کی سپلائی جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ فلسطینی آنسو اور خون کبھی خشک نہ ہو سکیں۔ برطانیہ میں دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں میں اس خون ریزی کے خلاف آواز اٹھانے والوں پر دروازے بند کیے جا رہے ہیں اور یہاں تک کہ لیبر پارٹی کے لیڈر نے تو غزۂ میں پانی اور خوراک کی بندش جائز قرار دی۔

استعماریت کے یہ حربے اب روز روشن کی طرح عیاں ہیں، اب لفاظی اور بیانات کے ہیر پھیر کی ضرورت بھی نہیں رہی لیکن صرف ان کے لیے جو دیکھنا اور سننا چاہتے ہیں۔ یہ امریکہ کی سربراہی میں ریاستوں کا ایک گینگ بن چکا ہے جس کا بیان کردہ مقصد ”مکمل اجارہ داری“ ہے اور اس وحشت کی کوئی حد نہیں۔ جنگوں کا یہ سایہ اب ہٹتا نظر نہیں آتا کیونکہ استعماریت نے اس کو نارمل بنا کر ایک منفعت بخش صنعت میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کے لیے ان ”جمہوریتوں“ میں نئے نئے قوانین متعارف کروائے جا رہے ہیں۔

مین سٹریم میڈیا کو لگام ڈالی جا چکی ہے اور اب باری ہے سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کی۔ لیکن مجھے ایک اور کہانی یاد آ رہی ہے۔ یہ زمانہ قبل مسیح کے کردار سپارٹکس (Spartacus) کی ہے جو کہ ایک غلام تھا لیکن آزادی کی تڑپ میں رومن سلطنت سے بغاوت کر دی۔ جب وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ رومن فوجیوں کے گھیرے میں آ جاتا ہے تو اعلان کیا جاتا ہے کہ اگر سپارٹکس کی نشاندہی کر دی جائے تو سب کی جان بچ جائے گی۔ اس کے جواب میں اس کے سینکڑوں ساتھی اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور ہر شخص یہ نعرہ لگاتا ہے ”میں سپارٹکس ہوں“ ۔ ایسی بہت سی مثالیں ہمیں اپنی تاریخ میں بھی مل جائیں گی۔

آج فلسطینی عوام سپارٹکس بن چکے ہیں۔ یورپ اور امریکہ کی گلیوں اور چوراہوں پر فلسطینی جھنڈوں کو لیے نکلنے والے عوام سپارٹکس بن چکے ہیں۔ میں اور آپ سب سپارٹکس بن سکتے ہیں اگر ہم چاہیں تو ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments