غبارے خاطر – پیروڈی
قلعہ کہنہ قاسم باغ
21 نومبر 2023ء
مارا بغمزہ کشت و قضا را بہانہ ساخت
خود سوئی ماندید و حیا را بہانہ ساخت
صدیق کرم!
آپ سے مخاطبت تو ایک بہانہ ہے کہ خوئے بدرابہانہ بسیار۔ حقیقت حال یہ ہے کہ ”غبارے خاطر“ (Balloon Heart) کے عنوان سے ایک نسخۂ مکاتیب، تالیف کر رہا ہوں۔ یہ خامہ فرسائی اسی زنجیر خیال کا حلقۂ اول ہے۔ دیکھیے، ”نسخہ“ اور ”تالیف“ کی رعایت سے غالب خستہ کا کیا شعر یاد آیا ہے :
تالیف نسخہ ہائے وفا کر رہا تھا میں
مجموعۂ خیال ابھی فرد فرد تھا
صدیق مکرم!
نثر میں شعری ترکیب کے استعمال میں مہندسیٔ معکوس (Reverse Engineering) کا طریق عمل میں لاتا ہوں۔ میں نے قاعدہ یہ وضع کیا ہے کہ اول کلام منثور میں شعری ترکیب کھپاتا ہوں کہ جیسے مرزا نوشہ فکر دنیا میں سر کھپاتے تھے اور ازاں بعد کامل شعر بھی، بجائے حاشیے کے، متن ہی میں نقل کر دیتا ہوں کہ بعض قارئین کا حافظۂ شعری، طاق نسیاں میں دھرا ہوتا ہے۔ حاشیہ آرائی سے گریز کا سبب یہ بھی ہے کہ سہل طلب طبائع، مطالعۂ حواشی سے اغماض برتتی ہیں۔ دیکھیے، ”گریز“ کے لفظ نے نظیری نیشاپوری کی یاد تازہ کر دی ہے :
درس ادیب اگر بود زمزمۂ محبتی
جمعہ بمکتب آورد طفل گریز پائے را
اس غزل کا مطلع گل سرسبد ہے مگر سوائے غالب کے، کسی نے گل چینی نہیں کی۔ مرزا ہادی رسوا کی زبان میں ادائے مطلب کروں تو اذن کلام دیجیے کہ سخن سرا ہوں کہ غالب اس شعر کے ”گل چین اول“ ہیں۔ اس مقام پر اگر میں آتش کا شعر درج کروں تو تشریح کا تقاضا نہ کیجیے گا کہ استاد گرامی، تحسین فراقی نے بھی کمرۂ تدریس میں تشریح شعر سے گریز کیا تھا (میں یہاں ان کے لیے ”ادیب گریزپا“ کی ترکیب معکوس تجویز کرتا ہوں۔ ”ترکیب“ کچھ تو ”بہر مدارات“ چاہیے ) ہر چند کہ ہم جمعے کے روز بھی ان کے ”درس“ کے مشتاق رہتے تھے :
عروس دہر سے بوئے وفا نہیں آتی
بھلا میں بکر کا اس کے ازالہ کیا کرتا
صدیق مکرم!
نظیری کا مطلع بھی سماعت کیجیے کہ جس کے لیے یہ تمہید طولانی عرض کی ہے :
گر بہ سخن در آورم عشق سخن سرای را
بربر و دوش سر دھی، گریہ ہای ہای را
اور اب اسدااللہ خاں کا شعر ملاحظہ کیجیے اور واہ واہ کیجیے کہ کیسے انہوں نے تخم نیشاپور کو سرزمین دہلی میں کاشت کیا ہے :
غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
رویے زار زار کیا، کیجیے ہائے ہائے کیوں
صدیق مکرم!
وقت سحر کی حشر سامانیاں اور باد نسیم کی آوارہ خرامیاں اپنی جگہ پر تاثیر اور پرکشش ہیں مگر گراں خوابی کی اپنی سحر انگیزیاں ہیں۔ سحر خیزی، آئین جواں مرداں میں جرم ہے۔ میں نے کبھی اس جرم کا ارتکاب نہیں کیا اور نہ ہی میرے خاندان کے کسی اور جوان سے یہ تقصیر سرزد ہوئی ہے۔ دیکھیے، نظیری نے ایک بار پھر دست گیری کی ہے :
گریزد از صف ماہر کہ مرد غوغانیست
کسے کہ کشتہ نشد از قبیلۂ مانیست
صدیق مکرم!
نصف النہار کا وقت ہے۔ دن کے بارہ بجے ہیں۔ ابھی گھڑی نے ایک نہیں بجایا اور نہ ہی کوئی موش رقصاں گھڑی سے نیچے اترا ہے۔ ابھی صرف میں بیدار ہوا ہوں۔ عام طور پر گیارہ بجے جاگ جاتا ہوں مگر شب رفتہ، ایک پشۂ خوں خوار نے جگائے رکھا۔ رات بھر طالع بیدار نے سونے نہ دیا۔ ایک گھنٹہ تاخیر سے جاگنے کا سبب یہی حشرۂ ہوائی ہے۔ چشم تخیل سے نظارہ کیجیے تو اس ایک گھنٹے میں خود فراموشی کی کئی صدیاں گزر گئی ہیں لیکن چشم خواب کی نظر میں یہ ایک گھنٹہ، کسی دوشیزہ کی ایک انگڑائی سے زیادہ نہیں :
رفتم کہ خار از پا کشم، محمل نہاں شد از نظر
یک لحظہ غافل گشتم و صد سالہ راہم دورشد
گویا جو اذیت مجھے ایک پشۂ خوں خوارنے پہنچائی، ملک قمی کو وہ آزار ایک کانٹے نے دیا۔
صدیق مکرم!
لفظ ”انگڑائی“ نے سرزمین دل پر وہ منظر بنایا ہے جو آسمان پر قوس قزح دکھاتی ہے :
انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اٹھا کے ہاتھ
دیکھا جو مجھ کو چھوڑے مسکرا کے ہاتھ
دیکھیے، مجھ میں اور نظام رام پوری میں بس اتنا فرق ہے کہ میں بستر خواب پر خود انگڑائی لے رہا ہوں کہ میر تقی میر نے فرمایا تھا:
اپنا ہی ہاتھ سر پہ رہا، اپنے یاں مدام
مشفق کوئی نہیں ہے، کوئی مہرباں نہیں
جب کہ نظام رام پوری کو انگڑائی کے باب میں کوئی مہربان میسر ہے۔ وہ خمیازہ کشی کے لیے رہین منت ہیں لیکن میں خود مکتفی ہوں۔ دراز دستی کے لیے کسی کے سامنے دست طمع دراز کرنا، مجھے منظور نہیں۔
صدیق مکرم!
گاؤں سے ایک نیا خدمت گار آیا ہے۔ اس کا نام بھینسا خان ہے۔ گو اپنی فربہی کے باعث وہ اسم بامسمٰی ہے مگر میری طبع نازک کو یہ نام شرف انسانی سے فروتر معلوم ہوا۔ میں نے دوسرے ہی روز اسے ’گاما پہلوان‘ کے نام سے پکارنا شروع کر دیا۔ اطراف و جوانب میں اس نام کی ایسی شہرت ہوئی کہ لوگوں نے اس کا اصل نام فراموش کر دیا ہے۔ دیکھیے، اس زود فراموشی نے یاران دمشق کی یاد تازہ کر دی ہے :
چناں قحط سالے شد اندر دمشق
کہ یاراں فراموش کردند عشق
اب وہی گاما، میرے لیے چائے بنا کر لایا ہے۔ یورپ کے شبستانوں میں اسے مشروب بستر (Bed tea) کہتے ہیں۔ گاما جب چائے کی پیالی ہاتھ میں تھامے کشاں کشاں میرے کمرے میں داخل ہوتا ہے تو میں زبان حال سے ”الا ایہا الساقی“ کہہ کر اس کا استقبال کرتا ہوں۔ میرے لبوں پر ایک آفاقی مسکراہٹ آ جاتی ہے۔ یہ مسکراہٹ، اس تبسم سے کسی طور کم نہیں جو فرشتۂ اجل کو دیکھ کر مرد مومن کے لبوں کی رونق بن جاتا ہے :
نشان مرد مومن باتو گویم
چومرگ آید تبسم برلب اوست
یہ چائے کی پتی کینیا کے باغات سے آئی ہے اور یہ اتنی تندوتیز ہے کہ انسان تو کیا ہیرے کا جگر کاٹ سکتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ اسے معتدل بنانے کے لیے دودھ کی آمیزش کی جاتی ہے۔ یہ جس کمپنی کی ساختہ ہے، اس کا نام ”لپٹن“ ہے۔ قدیم ایران میں یہ لفظ مصدر کے طور پر استعمال ہوا کرتا تھا اور اس کا املا ”لپتن“ تھا۔ بعد ازاں انگریز سیاحوں کے لسانی تصرفات نے اسے ”لپٹن“ بنا دیا۔ یہ لفظ ہندوستان پہنچا تو اس نے مقامی مصدر کی صورت اختیار کر لی جو آج بھی ”لپٹنا“ کی شکل میں اردو زبان میں رائج ہے۔ ایک گم نام شاعر نے اس لفظ کو یوں باندھا تھا:
لپٹنا، چمٹنا، چمٹ کر لپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
صدیق مکرم!
پرانے بادہ نوشوں کا یہ طریق رہا ہے کہ وہ پہلے چائے کا پورا پیالہ نوش کرتے ہیں اور بعد میں سگریٹ کا دھواں حلق سے اتارتے ہیں۔ میرا ہمیشہ سے یہ معمول رہا ہے کہ دونوں امور بیک وقت انجام دیتا ہوں۔ میں دست راست میں رطل گراں اور دست چپ میں رطل دخاں لے کے بیٹھ جاتا ہوں۔ دیکھیے، اسد اللہ خاں کا شعر کتنا بے محل یاد آیا ہے :
مئے عشرت کی خواہش ساقیٔ گردوں سے کیا کیجیے
لیے بیٹھا ہے اک دو چار جام واژگوں وہ بھی
صدیق مکرم!
مجھے ساقیٔ ازل سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ مجھے درد تہ جام بہت ہے۔ یہ سامان عشرت کیا کم ہے کہ ایک ہاتھ میں چائے کا پیالہ اور دوسرے ہاتھ میں گولڈ لیف کا سگریٹ ہے۔ یاران زیرک کی صحبت سے زیادہ مجھے اپنی تنہائی عزیز ہے اور بادۂ کہن کی تلخ کامی سے زیادہ میرے لیے چائے کیف آور ہے، مستزاد یہ کہ مجھے تمباکوئے آتش زدہ کی نعمت بھی حاصل ہے۔ میں چائے کا ایک گھونٹ بھرتا ہوں اور متصلاً سگریٹ کا کش لگاتا ہوں۔ اس حسن ترتیب کا بدیہی نتیجہ تو یہی نکلنا چاہیے کہ دونوں ایک ساتھ تمت بالخیر ہوں لیکن عملاً ایسا ہوتا نہیں۔ کبھی چائے پہلے غریق شکم ہو جاتی ہے اور کبھی سگریٹ پہلے رزق ہوا ہو جاتا ہے۔ گویا چائے اور سگریٹ کے مابین وصل و فصل کا وہی رشتہ ہے جو شاعر اور مجنوں میں تھا:
ماؤ مجنوں ہم سبق بودیم در دیوان عشق
او بصحرا رفت و مادر کوچہ ہا رسوا شدیم
صدیق مکرم!
میری ان سطور پریشاں میں اشعار فارسی، فراوانی سے در آئے ہیں۔ آپ کو تفہیم متن میں دشواری تو ہو گی لیکن میری تجویز ہے کہ مشکل کشائی کے لیے مالک رام سے رجوع نہ کیجیے گا کہ ان کے طرز تحریر پر میری ژولیدہ بیانی اور لاطائل نویسی کا ایسا اثر ہے کہ وہ ’ترجمانیٔ اشعار‘ کرتے ہوئے طوالت معنی میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور میرے ہی اسلوب نگارش میں فریضۂ تشریح انجام دینے لگتے ہیں، جس کے نتیجے میں عالم اشعار کا مدعا عنقا ہو جاتا ہے۔ بقول آتش:
پیام بر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا
زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے
خامہ خراب
- کوڑا کرکٹ کا ورلڈ کپ - 02/12/2023
- غبارے خاطر – پیروڈی - 21/11/2023
- اونٹ، انگریز اور نور جہاں - 11/11/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).