کیسی کھنک رہی ہیں خزاں کی یہ بارشیں
رم جھم کے ساتھ کرگا ہے پتوں کا شور بھی
یہ شعر میرے دوسرے شعری مجموعہ ”گہری شام کی بیلیں“ میں شامل اس غزل کا حصہ ہے جو برسوں پہلے جرمنی کے شہر کولون میں کہی تھی۔ مجھے یاد ہے ایسی ہی ایک پت جھڑ کی شام تھی جب میں، امجد اور طاہرہ اپنے دفتری احباب کے ساتھ کہیں عشائیے پر جا رہے تھے۔ منزل مقصود کے قریب پہنچے تو ہلکی ہلکی بارش نے آ لیا اور بوندوں کی جل ترنگ میں درختوں کے زرد، سرخ اور نارنجی پتوں کے بھیگے راستے پر گرنے کی صدا کی شمولیت نے عجب موسیقیت پیدا کردی تھی۔ ہم اس وقت ایک مسحورکن قدرتی سمفنی کو عبور کر رہے تھے۔ یا شاید غزل کے کھنکتے زینوں پر قدم قدم چل رہے تھے۔
تخلیقی لمحہ گزرنے میں کون سی دیر لگتی ہے۔ آیا اور گزر گیا۔ اب ہمیں گزرے کارواں کے غبار میں تلاش کے عمل کا آغاز کرنا ہوتا ہے۔ کس کی تلاش؟ اپنی یا کسی اور کی؟ یہ بھی کبھی معلوم ہوجاتا ہے اور کبھی نہیں۔
موڈ بھی تو موسموں ہی طرح بدلتا رہتا ہے۔ ایک موسم انجام کو پہنچتا ہے اور دوسرا آغاز ہوجاتا ہے۔ یہ تبدیلی غیر محسوس سے انداز میں ہوتی ہے۔ موسم چپکے چپکے چلتے ہیں۔ آہستہ آہستہ اپنے رنگ جماتے ہیں۔ اب دیکھئے نا، سرکاری اعلان کے مطابق کینیڈا میں موسم خزاں ستمبر کے اواخر میں آغاز ہوا تھا مگر کیا کریں کہ قدرت یا فطرت ان سرکاری فیصلوں کی پابند نہیں۔ سو موسم اپنی سی موج میں بدلتے بدلتے ہی بدلا ہے اور بہت دنوں بعد کہیں جا کر پٹ جھڑ کی اصل صورت نکلی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے درختوں کے سبز پتے بھورے، سرخ اور زرد رنگوں میں ڈھلنے لگے۔ بارش کی بوچھار کے بعد کھلنے والی دودھیا دھوپ رنگوں کی اس آتش کو کچھ اور بھی بھڑکائے دے رہی ہے۔
:ڈاکٹر خالد سہیل صاحب کے الفاظ میں کہوں تو
خزاں کا حسن بہاروں سے بڑھ کے نکھرا ہے۔
یورپ ہو یا کینیڈا شمالی امریکا خزاں یہاں اداسی کا نہیں بلکہ ایک امنگ کا اور ترنگ کا موسم لگتا ہے۔ موسمی میلوں کا موسم، فن کاروں کو تخلیق کاری پر ابھارتا، کینوس پر عکس اتارنے کی دعوت دیتا اور خیال کو لفظوں میں ڈھالنے پر اصرار کرتا موسم۔ میں برس ہا برس سے دیکھ رہا ہوں پٹ جھڑ کے اگلے پڑاؤ میں تند و تیز ہوائیں آغاز ہوتی ہیں۔ برف باری سے پہلے وفادار پتے بجھتے بجھتے بھی درخت سے ملنے والی اپنی تمام توانائیاں واپس درخت کو سونپ دیتے ہیں کہ وہ انہیں زمیں کی تہہ میں پھیلی اپنی گہری جڑوں میں محفوظ کر لے۔
آنے والے موسموں میں پھر سے کھلنے کے لیے۔ نئے پھولوں اور نئے پھلوں کے امکان کے لیے۔ پرندے قافلہ در قافلہ جنوبی خطے کا عزم کرتے ہیں۔ چہکار معدوم ہو جاتی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وادی کا رنگا رنگ مکالمہ خود کلامی میں بدل جاتا ہے۔ ہواؤں کے تیز تھپیڑے سہ کر تھکے ماندے درخت سو جاتے ہیں برف کی سفید شال اوڑھ کر۔ ہاں، زرد رو چاند گاہے گاہے بھٹکتا رہتا ہے ادھر ادھر کسی چشم گم کردہ خواب کی طرح۔ اجنبی اجنبی دھوپ کی پتیوں میں بھی برفیلا انجماد سرایت کر جاتا ہے۔
لیکن جناب یہ انسان بھی بہت ڈھیٹ مخلوق ہے۔ ٹک کر بیٹھنا تو گویا اس نے سیکھا ہی نہیں۔ مد مقابل کو دعوت مبارزت دینا اس کی فطرت ثانیہ ہے۔ سو، موسم کی شدت کو بھی للکارتا رہتا ہے۔ تنگ نائے حالات میں بھی وسعت امکاں کی منزل کھوج لیتا ہے۔ نیند کے صحرا کو خواب کا نخلستان دے دیتا ہے۔ جی کی خاموش اداسی کو شاعری سے اظہار عطا کر دیتا ہے، برف سے ڈھکے میدان اور چٹان کو تفریح گاہ بنا دیتا ہے۔ آئس سکیٹنگ اور اسکئینگ سے موسم کے اعلان انجماد کو چیلنج کرتا ہے۔
پھر اسی دل چسپ اور با ہمت کشا کش کے دوران ایک روز پرندوں کی چہکتی ڈاریں جنوبی سفر سے لوٹنے لگتی ہیں اور آمد بہار کے سر فضا میں بکھرنے لگتے ہیں۔ برف کی سفید چادر الٹ کر دھیرے دھیرے پیڑ بیدار ہو نے لگتے ہیں، جڑوں میں پس انداز کی ہوئی اپنی توانائی کو رفتہ رفتہ بروئے کارلانے لگتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے بھوری بھوری بے جان سی ٹہنیاں نمو کے سر سبزپیغام سے آشنا ہونے لگتی ہیں۔ گہری گھنی وادی میں سورج کی تاب ناک کرن کنج خواب میں دبکے تنہا پنچھی کو صبح بخیر کہتی ہے تو وہ بھی میری طرح سراپا حیرت بن کر پوچھتا ہے :
”کیا ہوا؟
کیا بہار آ گئی؟
کھل اٹھا زخم خواب ہنر۔
پھر دہکنے لگی ہے نظر۔
یاد روشن ہوئی۔
اب کے کچھ اس طرح یاد روشن ہوئی۔
گھر کے تاریک کونے چمکنے لگے۔
میرے البم میں ٹھہرے ہوئے موسموں کو خبر ہو گئی۔
تیری مہکی ہوئی سرخ تصویر پر۔
پھول کس نے سجایا۔
بجھے خواب سے پھوٹتی۔
مرمریں کارنس سے اترتی ہوئی بیل۔
روشن انگیٹھی سے ہوتی ہوئی۔
کیوں بھلا میز تک آ گئی ہے۔
گلابی کہانی میں رکھا ہوا خواب کس نے چرایا؟
مرے حرف کے آئنے کو خزاں رنگ کس نے بنایا؟
نظر میں مہکتے ہوئے۔
میرے البم میں ٹھہرے ہوئے موسموں کو خبر ہو گئی۔
سبز شاخوں میں دبکا ہوا وقت خاموش ہے۔
اک پرندہ مگر پوچھتا ہے ابھی۔
کیا ہوا؟
کیا بہار آ گئی؟
کھل اٹھا زخم خواب ہنر۔
پھر دہکنے لگی ہے نظر۔
کیا بہار آ گئی؟ ”۔
(حامد یزدانی)
موسم بدلتے جاتے ہیں، کیلنڈر کے اوراق کی طرح پلٹتے جاتے ہیں۔ زندگی کے روپ بھی اسی طرح تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
ایک لمحہ خوشی، دوسرے لمحے غم۔ ایک پل اداسی اور دوسرے ہی ثانیے مسکان۔ کبھی جیت کی سرخوشی کبھی مات کا دکھ۔ کبھی حاصل کی طمانیت اور کبھی لا حاصلی کا رنج۔ بس یہی ہے زندگی اور یہی اس کے رنگ۔
سفر جاری رہتا ہے۔ ہر پڑاؤ منزل لگتی ہے اور ہر منزل ایک نئے سفر کے آغاز کا اعلان۔ زندگی ہے یا کوئی ہمہ رنگ طیف کہ میری نگاہ رنگوں کے ایک طوفان سے نبرد آزما رہتی ہے۔
ابھی تیز ہوائیں چل رہی تھیں۔ ابھی دھیمی دھیمی دھوپ نکل آئی ہے۔ ابھی درخت جھوم رہے تھے ہواؤں میں اور اب چپ چاپ کھڑے ہیں۔ لیجیے اب بوندوں کی جل ترنگ شروع ہو گئی ہے۔ اور میرے کانوں میں پھر سے یہ شعر گونجنے لگا ہے :
کیسی کھنک رہی ہیں خزاں کی یہ بارشیں
رم جھم کے ساتھ کرتا ہے پتوں کا شور بھی
۔ ۔
- کیسی کھنک رہی ہیں خزاں کی یہ بارشیں - 21/11/2023
- ڈھلتی عمر کی اداسی - 15/11/2023
- لاہور کا سقراط : ایک کتاب، ایک سفر - 06/11/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).