نواز شریف کی راہ کے کانٹے اور عمران خان


پی ٹی آئی نے اپنی جماعت میں انتخاب تو اس خوبی سے کرایا ہے کہ دنیا اش اش کر اٹھی ہے۔ آئندہ چند روز اس واقعے کا تذکرہ رہے گا۔ کوئی بھولے گا تو اکبر ایس بابر اسے یاد دلا دیں گے۔ مزید کوئی کسر اگر رہ گئی تو اکبر صاحب اسے الیکشن کمیشن یا کسی دوسری عدالت میں چیلنج کر کے پوری کر دیں گے۔ اب یہاں دو سوال ہیں۔ ایک یہ کہ پی ٹی آئی کو مرنے کا شوق کیوں ہے اور وہ جان بوجھ کر ایسے کارنامے کیوں کرتی ہے جو اس کی راہ میں مزید کانٹے بکھیر دیتے ہیں۔ ایک سوال تو یہی ہے۔ دوسرے سوال کا تعلق بھی کانٹوں سے ہے۔ ان کانٹوں کا ذکر نواز شریف کے تعلق سے ہو رہا ہے اور ہر کس و ناکس کہہ رہا ہے کہ نواز شریف کی راہ کے کانٹے چنے جا رہے ہیں۔ ان فرزانوں میں جن میں بڑے بڑے دانش ور اور دانش مند بھی شامل ہیں، یہی کلمہ پڑھ رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی نواز شریف کی راہ کے کانٹے چنے جا رہے ہیں یا واقعہ کچھ اور ہے؟ ہمارا خیال ہے کہ وقت کا سب سے اہم سوال یہی ہے کیوں کہ عمران خان کی جماعت کے انتخاب کا معاملہ آج نہیں تو کل کوئی مختلف حقیقت سامنے آ کر اس کی اہمیت اتنی ہی کر دے گی جتنی ہونی چاہیے۔ اس کے مقابلے میں نواز شریف کے بارے میں گل افشانی کا سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔

عمران خان کا معاملہ کیا ہے۔ انھیں جہاں تک دو تہائی اکثریت کے ساتھ تاریخی مینڈیٹ دلانے کے دعوے داروں کا معاملہ ہے، سیاست کی دنیا میں ایسے خواب دیکھنے والوں کی کمی کبھی نہیں رہی۔ سیاست کی کارگاہ کے لیے میدان سیاست کی ترکیب استعمال کی جاتی ہے لیکن یہ مخلوق کسی ایسی خواب گاہ میں پائی جاتی ہے جو درجن انڈے خرید کر تصوراتی محل تعمیر کرتی ہے اور اسی کیفیت میں کسی پر خفا ہو کر انڈوں کی ٹوکری کو لات رسید کر کے رہی سہی پونجی بھی تباہ کر دیتی ہے جیسے خان صاحب نے پہلے قومی اسمبلی سے اپنے اراکین کو نکال کر، اس کے بعد پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کو توڑ کر رہی اور سہی کسر نو مئی کو انڈوں کی ٹوکری کو لات مار کر پوری کر دی تھی۔ اب وہ آخری لات مارنے کی تیاری اس عزم کے ساتھ کر رہے ہیں کہ الیکشن کا بائیکاٹ کر کے ٹنٹا ہی ختم کر دیا جائے۔ وہ انتخاب کا بائیکاٹ کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ اس کی دو وجوہات ہیں۔ اور یہ کہ انھیں اب پاں تلے سے سرکتی زمین دکھائی دینے لگی ہے۔ ان کے پاں تلے سے زمین کیسے سرک رہی ہے، اس کی حقیقت قبلہ نصرت جاوید صاحب نے بڑی خوبی سے بیان کر دی ہے۔ سیاست دوراں کی جو نزاکتیں وہ بیان کرتے ہیں، میرے خیال میں ایسی قدرت ہمارے صحافیوں اور کالم نگاروں میں کم کسی کو حاصل ہے۔ کوئی شخص اگر سیاست میں دل چسپی رکھتا ہے اور انھیں نہیں پڑھتا، میرے خیال میں اسے کسی اور راستے پر چلنا چاہیے۔ سیاست اس کے لیے مفید نہیں۔

عمران خان کی طرف سے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کی دوسری وجہ نفسیاتی ہے۔ اول وہ اپنے سوا کسی دوسرے کے ہاتھ میں اختیار پسند نہیں کرتے اور دوم وہ سیاست کرکٹ کی طرح بھی نہیں اس دانش مند لڑاکا عورت کی طرح کرتے ہیں جس کی چالیں خود اس کے اپنے اوپر پلٹ جاتی ہیں۔ ان کاپارٹی الیکشن اور اپنے جانشینوں کے انتخاب کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہے۔

اب آتے ہیں اصل معاملے کی طرف۔ پاکستان مسلم لیگ نون کے قائد میاں محمد نواز شریف صاحب کے خلاف دو مقدمات اپنے انجام کو پہنچے اور باقی ماندہ ایک مقدمے کے بارے بھی توقع یہی ہے کہ اسی انجام سے دوچار ہو گا۔ یہ توقع کچھ ایسی غلط بھی نہیں لیکن کیا یہ پروپیگنڈا درست ہے کہ ان کی راہ کے کانٹے چنے جا رہے ہیں؟

حقیقت یہ ہے کہ نواز شریف ایک فرد ہیں یا یہ کہہ لیجیے کہ وہ ایک سیاسی مکتب فکر کے قائد ہیں۔ کسی زندہ و جاوید قوم کے لیے کسی فرد کا آنا اور کسی وجہ سے چلے جانا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ مسئلہ تب پیدا ہوتا جب آپ کسی فرد یا سیاسی گروہ کو نشانہ بنا کر قوم کا مستقبل تاریک کر دیں۔

باجوہ صاحب ہوں، قلم و قرطاس کے ذریعے قوم کی راہ نمائی کرنے والے دانش ور ہوں یا اسکرین پر طلاقت لسانی کے ذریعے اسے راہ دکھانے والے، ان میں سے ہر ایک نے کچھ وقت گزر جانے کے بعد نہ صرف یہ کہ اس حقیقت کو تسلیم کیا بلکہ اپنے اپنے انداز میں تنقید بھی کی کہ نواز شریف کو سیاست بدر کرنے کے لیے انصاف کے ایوانوں کا جو حشر کیا گیا، وہ درست نہیں تھا۔ پاکستان کی جمہوری تاریخ میں ان کی گواہی کا اپنا مقام ہو گا جسے تسلیم کیا جائے گا لیکن اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی کیا جائے گا کہ وہ کانٹے جو قوم کی راہ میں بچھائے گئے تھے، انھیں نواز شریف کی راہ کے کانٹے قرار دے کر حالیہ واقعات کو انھوں نے وہی غلطی کیسے قرار دے لیا جو غلطی نواز شریف کو ہٹانے اور عمران خان کو لانے کے لیے کی گئی تھی؟

کانٹوں والے معاملے کی حقیقت سمجھنے کے لیے ایک حقیقت خاص طور پر جاننے کی ضرورت ہے۔ ہمارے یہاں کہا جاتا ہے کہ قانون کی ناک حسب ضرورت موڑنے کے لیے جسٹس منیر جیسے شخص کے ہاتھوں نظریہ ¿ ضرورت ایجاد کیا گیا لیکن نواز شریف سے ’نجات‘ کے لیے ثاقب نثار صاحب نے بات نظریہ ضرورت سے بھی کہیں آگے پہنچا دی تھی۔ اس مقصد کے لیے ججوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا گیا، اس کی گواہی جج ارشد ملک اور اسلام ہائی کورٹ کے پیونی جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی دے چکے ہیں۔ ان کے انکشافات ریکارڈ پر ہیں کہ حسب خواہش فیصلے لینے کے لیے ان پر کیسا کیسا دبا ڈالا گیا۔ یہ کہانی تو ہوئی دبا ؤکی لیکن نواز شریف کے خلاف مقدموں کی حقیقت کیا تھی، وہ بھی کوئی راز نہیں رہا۔ پاناما کے نام پر چلائے گئے مقدمے کی حقیقت تو اسی وقت کھل گئی تھی جب انھیں اقامہ کے بہانے نا اہل کیا گیا اور اس فیصلے کے لیے بھی کوئی نیک نام قانونی نظیر استعمال کرنے کے بہ جائے بلیک لا ڈکشنری کھوج نکالی گئی۔ یہ ہتھ کنڈے بھی اپنی جگہ ایک تاریخ ہیں جن کی ’بلندی‘ تک دنیا کی کوئی دوسری عدالت شاید نہ پہنچ سکے لیکن اس سے بھی بڑی حقیقت وہ ہے جو العزیزیہ ریفرنس کے فیصلے میں سامنے آئی۔ اس موقع پر نیب نے اقرار کیا کہ اس کے پاس نواز شریف کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھا۔ یہ ریفرنس عدالت عظمی کے دبا ؤپر بنائے گئے تھے۔

جیسے عرض کیا گیا کہ نواز شریف اگر فرد واحد ہوتا تو وہ میدان میں رہتا یا نکال دیا جاتا، اس سے کوئی فرق نہ پڑتا لیکن اس دیس نکالے نے صرف نواز شریف یا ان کے خاندان یا ان کی جماعت کو صدمے سے دوچار نہیں کیا بلکہ ملک کی معیشت، سیاست، سماج حتی کہ خارجہ تعلقات تک کو تباہ کر دیا۔ ایک ایسی تبدیلی جو ملک کو اتنے گمبھیر قسم کے مسائل سے دوچار کر دے، اس کے کانٹے کسی فرد واحد یا ایک طبقے کے خلاف نہیں ہوتے بلکہ پوری قوم کے خلاف ہوتے ہیں۔ تو واقعہ یہ ہے کہ کانٹے بچھانے والوں کی سمجھ میں جب یہ آیا کہ جو کچھ انھوں نے کیا ہے، اس سے تو پورا ملک اور قوم ہی ڈوب چلی ہے لہٰذا اس غلطی کو سدھارنے کی کوشش کی گئی۔ اب اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ غلطی سدھارنے کی سرگرمی دراصل نواز شریف کی خدمت ہے تو براہ کرم وہ اپنی غلطی کو درست کر لے۔ تاریخ بتائے گی کہ لمحہ موجود یعنی نومبر دسمبر 2023 میں پاکستان کے سیاسی اور عدالتی منظر نامے پر جو کچھ ہوا، وہ نواز شریف پر احسان نہیں تھا بلکہ اس زیادتی کا ازالہ تھا جو اس قوم کے ساتھ کی گئی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments