یونیورسٹی اور جادوگری


وہ شعر جو ایک دل جلے شوہر نے اپنی بیگم کے حضور پیش کیا تھا، ہم وہی شعر اپنے ایک دوست کی نذر کرنا چاہتے ہیں جو ”برگر فیملی“ سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے اجداد کسی زمانے میں کلرکی کرتے تھے اور ڈبل روٹی کھاتے تھے۔ یہ برگر کھاتا ہے اور افسری کرتا ہے۔ ”موازنۂ مشرق و مغرب“ اس کا مرغوب موضوع ہے اور اس موضوع پر وہ غلط تلفظ کے ساتھ گھنٹوں اظہار خیال کر سکتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ یورپ گوشۂ بہشت ہے اور ہم جس خطے میں رہتے ہیں، وہ جہنم کا پست ترین مقام ہے۔

اس کو اپنے دیس کی ہر بات، بری بات نظر آتی ہے۔ اگر کوئی بندۂ سرکار دفتر میں دل بہلانے کو دس بارہ مکھیاں مار دے تو وہ اسے کاہل اور حیوان دشمن قرار دیتا ہے۔ اتفاق سے کسی روز خاکروب رخصت پر ہو، اور گلی میں خاک اڑتی نظر آئے یا گٹر جوش اندروں سے ابل پڑے اور نالی میں طغیانی آ جائے تو وہ پوری قوم کو دشمن ایمان قرار دے دیتا ہے۔ چھٹی کے اوقات میں سڑکوں پر دوچار گاڑیاں زیادہ ہو جائیں اور صرف ایک دو گھنٹوں کے لیے ٹریفک جام ہو جائے تو وہ ہمیں ایک غیر منظم قوم کا خطاب دے دیتا ہے۔

اگر کوئی ناتواں، حکیم سے رجوع کرے تو وہ اس کو بجائے حسن پرست سمجھنے کے ’بوالہوس‘ ہونے کی تہمت دھر دیتا ہے۔ اگر کوئی عاشق ناکام، حصول محبت کے لیے کالے علم کے ماہر سے رابطہ کرے تو وہ اس پر ضعیف العقیدہ ہونے کا الزام عائد کر دیتا ہے مگر جب یہی دوست اخبار میں یہ خبر پڑھتا ہے کہ برطانیہ کی ایک یونیورسٹی میں ایک نیا شعبہ متعارف کرایا جا رہا ہے جس میں جادوگری کی تعلیم دی جائے گی تو وہ نہ صرف خاموش رہتا ہے بلکہ اس کی آنکھوں میں ایک معنی خیز چمک بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ اور عزیز ہم وطنو، یہی وہ مقام ہے جہاں ہم اس کی نذر وہ شعر کرنا چاہتے ہیں جو ایک دل جلے شوہر نے بیگم کے حضور پیش کیا تھا:

تیرا ابا جو مرضی بکواس کرے
ہم بولیں تو نافرمانی ہوتی ہے

یار عزیز محجوب ہونے کے بجائے ’شعبۂ ساحری‘ کے قیام کے جواز اور اہمیت پر ہمیں ایک لیکچر دیتا ہے (غلط تلفظ کے ساتھ! ) اور اس لیکچر کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرق ہو یا مغرب، آج کے جدید زمانے میں بھی لوگ جادو اور عملیات میں کشش محسوس کرتے ہیں۔ اس کشش کے اثرات اور اسباب کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ اس تاثر پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے کہ مغرب، سائنس کی تجربہ گاہ ہے اور مشرق توہم کا کارخانہ ہے۔ اہل مغرب کی یہ خوبی ہے کہ وہ اپنے تضادات پر غور و فکر کرتی رہتی ہے اور اس شعبے کے قیام سے معاصر سائنسی دنیا کو ایک نیا علمی زاویہ فراہم ہو گا۔

شعبے میں جادو کی تاریخ کے علاوہ فلسفہ، آثار قدیمہ، عمرانیات، نفسیات اور مذاہب کی تعلیم دی جائے گی۔ ایکسیٹر یونیورسٹی میں یہ شعبہ پروفیسر ایملی سیلوو نے متعارف کرایا ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ کوئی جادوگرنی یا چڑیل نما خاتون ہوں گی لیکن ان کی تصویر دیکھ کر اندازہ ہوا کہ کسی زمانے میں پری پیکر رہی ہوں گی۔

اس لیکچر کے بعد ہم یہ غور کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ ہمارے ملک میں جہاں ہر ماہ کسی نئی یونیورسٹی کا افتتاح ہوتا ہے، کیوں نہ ایک ایسی یونیورسٹی قائم کی جائے جہاں کلی طور پر جادوگری کی تعلیم دی جاتی ہو۔ اس کا نام ”سامری یونیورسٹی“ رکھا جا سکتا ہے۔ ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں، ہزاروں بنگالی بابے خاموشی سے ’اذیت خلق‘ کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ آغاز میں تدریس کے لیے ان کی خدمات مستعار لی جا سکتی ہیں۔ نصاب کی تیاری میں بھی ان کی مدد لی جا سکتی ہے۔

سائنس کی طرح یہ بھی ایک نظری اور عملی شعبہ ہے۔ جادو کی نظری تعلیم کے لیے مختلف پرچے متعارف کرائے جا سکتے ہیں، مثلاً تعویذ نویسی، ستارہ بینی، دست شناسی، زائچہ نگاری وغیرہ۔ عملی مشقوں میں مؤکلوں کو حاضر کرنے یا محبوب کو قدموں میں لا کر بٹھانے کا مظاہرہ کیا جا سکتا ہے، نیز کسی دوشیزہ کا جن نکالنے کی مشق کی جا سکتی ہے۔ ان عملی مشقوں کی وجہ سے یونیورسٹی میں جوق در جوق داخلے ہوں گے اور ہر سال ہزاروں جادوگر فارغ التحصیل ہوں گے لیکن ہمیں یہ بھی اندیشہ ہے کہ اگر اس طرز کی کوئی یونی ورسٹی بنائی گئی تو اس کا نکتہ چین اول ہمارا وہی دوست ہو گا جو برگر فیملی سے تعلق رکھتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments