پڑھے اور سوچے بغیر بات نہ پھیلائیں
ہم میں سے زیادہ تر لوگ واٹس ایپ کے کسی نہ کسی گروپ کے ممبر ہیں چاہے دفتر کی طرف سے بنایا ہوا گروپ ہو، دوستوں نے بنایا ہو یا پھر فیملی کا واٹس ایپ گروپ ہو۔ اکثر ہم غیر سرکاری گروپس میں کوئی نہ کوئی تعلیم یافتہ نابلد بھی دیکھتے ہیں جو بغیر تصدیق خود تک آنے والے ہر میسیج کو دوسروں تک پہنچا دیتا ہے۔
بعض لوگوں کو کسی کے غم یا خوشی سے سروکار نہیں ہوتا ہے، واٹس ایپ گروپ میں کوئی غم کا اظہار ہو رہا ہو یا کسی کی سالگرہ کی مبارک بادیں چل رہی ہوں، جناب دماغ کا استعمال کیے بغیر اس تسلسل میں رکاوٹ ڈال کر اپنا میسیج ٹھوک دیں گے بغیر انتظار کیے کہ پہلے موقع اور ماحول تبدیل ہو جائے۔ ایسے افراد کو اخلاقی تربیت کی کمی کا مرض لاحق ہوتا ہے۔
کچھ افراد کی عادت ہوتی ہے کہ وقت کا بدترین استعمال بغیر تصدیق کیے فیس بک کی پوسٹس پر فوری یقین کر کے کرتے ہیں اور پھر اپنی کم عقلی کا اظہار سچائی جانے بغیر دوسروں کو بھیج کر کرتے ہیں۔ بہت سارے افراد ایسے ہیں جو خود کو عقل کل سمجھتے ہیں اور درحقیقت اپنی کم عقلی کی وجہ سے جہالت کو علم ثابت کرنے کے لیے انٹرنیٹ پر مرضی کی پوسٹس تلاش کرتے ہیں تاکہ دنیا کو بتا سکیں کہ نیٹ پر بھی فلاں بات لکھی ہے جس کو وہ خود صحیح کہتے تھے، گویا قرآن اور احادیث کی بجائے من پسند پوسٹ ان کا حوالہ بن جاتی ہے۔
کافی عرصہ پہلے میں نے ایک مضمون گوگل کی دنیا پر لکھا تھا جس میں انٹرنیٹ کے بے شمار فوائد کے ساتھ ساتھ کچھ نقصانات کا بھی ذکر کیا تھا جن میں سے ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ بہت سے افراد انٹرنیٹ کا استعمال کر کے خود کو سائنس دان، ڈاکٹر یا اپنی مرضی کے شعبے کا ماہر سمجھنے لگتے ہیں۔ آپ خود آزما کر دیکھیں جو بات آپ سننا چاہتے ہیں انٹرنیٹ وہی بتا دے گا، پیرا سٹامول درد اور بخار کا علاج ہے لیکن انٹرنیٹ کے مطابق موت کا سبب بھی بن سکتی ہے، یہ سچ ہی ہے کیونکہ افادیت کے ساتھ نقصانات کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔ آپ کسی دوائی کا پمفلٹ پڑھیں تو اسے استعمال کرنے سے بھی خوف کھائیں گے، جتنے فوائد ہیں اس سے زیادہ خطرات نظر آئیں گے۔ ایک مریض کا سچا واقعہ بتاتا چلوں جس نے اپنے ڈاکٹر کو انٹرنیٹ کا حوالہ دے کر کسی دوائی کے نقصان کا بتایا اور معالج نے ناراض ہوتے ہوئے کہا کہ آپ پھر انٹرنیٹ سے ہی علاج کروا لیں۔
ہم سب نے سن رکھا ہے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ ادویات میں فوائد اور نقصانات دونوں کی موجودگی ہوتی ہے، اب یہ ایک ایکسپرٹ کا کام اور فیصلہ ہوتا ہے کہ اگر نقصان پر فائدہ بھاری ہے تو اس کا استعمال کروائے، بے شک نیم حکیم یا ایک اناڑی اس کے نقصانات پر لیکچر دے دے۔
انٹرنیٹ ایک ایسی دنیا ہے جہاں سچ اور جھوٹ لکھنے پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے، ہم ہر من پسند بات تلاش کر کے خود کو عالم دین یا کسی بھی شعبے کا ماہر ثابت کرنے کی کامیاب یا ناکام کوشش کر سکتے ہیں۔
میں پہلے بھی اپنے مضامین میں ان خیالات کا اختصار کے ساتھ اظہار کرتا رہا ہوں لیکن آج دل کیا کہ کچھ تفصیل کے ساتھ لکھا جائے کیونکہ آس پاس بہت سے افراد اس عجیب و غریب بیماری میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ ہم اس معاشرے کا حصہ ہیں جہاں سیاسی لیڈر کے نام سے انکم سپورٹ پروگرام کا میسیج بھیج کر بے وقوف بنایا جاتا ہے اور ہم بن بھی جاتے ہیں کیونکہ معاشی مشکلات کے ساتھ ساتھ لالچ بھی ہمارے اندر رچی بسی ہوئی ہے۔ کوئی دھوکے باز بینک کا نمائندہ بن کر ہم سے میسیج یا کال کے ذریعے ڈیبیٹ کارڈ نمبر حتی کہ پن اور پاسورڈ تک لے لیتا ہے۔
میرے حلقہ احباب میں ایک دوست ایسے ہیں جن کے نوے فیصد میسجز صرف موبائل کی میموری بھرتے ہیں اور میں پڑھنے یا دیکھنے کی زحمت ہی نہیں کرتا ہوں اور اگر کبھی کبھار نظر پڑ جائے تو تحقیق کر کے انہیں سورہ حجرات کی آیت نمبر چھے کا حوالہ دینا پڑ جاتا ہے۔
اے ایمان والو! اگر کوئی شریر آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کر لیا کرو، کبھی کسی قوم کو نادانی سے کوئی ضرر نہ پہنچا دو، پھر اپنے کیے پر پچھتانا پڑے
ایسے لوگ چونکہ بغیر پڑھے دوسروں کو بھیجنے کے عادی ہوتے ہیں اس لئے بعض دفعہ اسی گروپ کے کسی میسیج، تصویر یا ویڈیو کو دوبارہ وہیں بھیج بیٹھتے ہیں۔
مسلکی اختلاف میں جیت کا جھنڈا گاڑنا چاہیں تو اس کا طریقہ بھی مفت میں بتا دیتا ہوں۔ ایک علامہ اقبال کی تصویر کے ساتھ کوئی من پسند شعر لکھیں اور پوسٹ کر دیں، بے شمار افراد عقل کو زحمت دیے بغیر اور سچائی جانے بغیر آپ کے ساتھ اس گناہ جاریہ میں شامل ہو جائیں گے۔
سوشل میڈیا کے عام ہونے سے پہلے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں کچھ افراد خود کو آزادی اظہار رائے کی آڑ میں بے لگام سمجھتے تھے اب یہ کام سوشل میڈیا میں بخوبی ہو رہا ہے۔ ابتداء میں مخصوص افراد کی طرف سے جھوٹی احادیث یا فرامین کے ذریعے لوگوں کی سوچ بدلنے کی کوشش کی جاتی تھی اور اب یہ ذمہ داری خاص و عام سبھی اچھی طرح نبھا رہے ہیں۔
اگر آپ بھی پڑھے اور سوچے بغیر فیس بک یا واٹس ایپ کا استعمال کرتے رہے ہیں تو مجھے امید ہے میرا یہ مضمون آپ کی زندگی میں بہتری لائے گا، کوشش شرط ہے۔
- مرفی کا قانون اور کڈلن کا حل - 04/01/2025
- دانی ماں کہاں گئیں؟ - 15/07/2024
- جذبہ انسانیت پر کچھ باتیں - 31/05/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).