مائیکسٹ ادیب


اب یہ جو بک بک آپ پڑھنے والے ہیں، آپ اس پر حسب منشا زیر، زبر پیش لگا لیں۔ تو آپ کو آگے پڑھنے میں آسانی ہو سکتی ہے۔ یوں تو ادیبوں کی بے شمار قسمیں ہیں، لیکن ٹیکنالوجی کی افتاد کے بعد ادیب کی ایک اور قسم متعارف ہوئی ہے اور وہ ہے ”مائیکسٹ ادیب“ ۔ یہ آپ کو ہفتے میں چار مرتبہ اسٹیج کے اوپر ڈائس پر مائک کے سامنے منہ کھولے کھڑے نظر آئیں گے، یہ شاعر، ادیب اور دانشور کہلائے جاتے ہیں۔ یہ اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ انہیں کتابوں اور لوگوں سے ملنے کی فرصت نہیں ملتی۔ لیکن یہ کتابیں بہت ”پڑتے“ ہیں۔ اس لیے ہر خطے، عہد اور زبان کی کتب اور مصنفین کے نام انہیں از بر ہوتے ہیں۔ ادب کی خدمت کے لیے بک جانے کو معیوب نہیں سمجھتے اور بک ہوتے رہتے ہیں۔ بک جا نے کا مطلب وہ نہیں جو آپ صحافیوں سے منسوب سمجھتے ہیں۔

بازار وفا میں مول تول کیا ہو۔

مصروفیت کا یہ عالم کہ کسی ادبی تقریب کے دعوتی کارڈ پر موضوع دیکھنا بھول جاتے ہیں، مائک پر آ کر ڈھٹائی سے اعتراف کرتے ہیں کہ فلاں، فلاں جگہ بک ہونے کی وجہ سے موضوع کی تیاری نہیں کر سکے۔ پھر یہ تقریب کے شرکاء میں اپنے جاننے والوں کے بار بار نام لے کر ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

اگر یہ خود کرسی صدارت پر براجمان نہ ہوں تو اسٹیج پر بیٹھے (اپنے مائیکسٹ بھائی) صدر، مہمان خصوصی اور صاحب تقریب کی شان میں قصیدے پڑھتے ہیں۔ جگت بازی کرتے ہیں، اور ”پڑی“ ہوئی کتابوں کے نام لیتے ہیں۔ سوائے باعث تقریب یعنی تقریب کے موضوع پر گفتگو کرنے کے سیاست، مذہب، فلسفہ، ادب ہر موضوع پر بات کرتے ہیں، ۔ جب کوئی منچلا یاد دلاتا ہے تب ان کے اندر انور مقصود کا نا قا بل اشاعت ایڈیشن جنم لیتا ہے، بار بار تالیاں پیٹی جاتی ہیں۔ تالیاں بجیں تو سمجھو شو ہٹ ہے۔ اب منتظمین اور دیگر تخلیق کار جو خیر سے امید سے ہیں، کسی بھی وقت کتاب منظر عام پر آ سکتی ہے وہ بھی موصوف کو اپنی ہونے والی گود بھرائی ستھرے الفاظ میں رونمائی کی تقریب میں پیشگی ”بک“ کرلیتے ہیں۔

لوگ انہیں دانشور سمجھیں اس کے لیے یہ سامعین کی نشستوں پر بیٹھنا پسند نہیں کرتے۔ اگر کوئی ان کا نام بنا کارڈ میں دیے انہیں مدعو کرے تو لگی لپٹی بغیر صاف کہہ دیتے ہیں کہ دنیا کے اسٹیج پر وہ سامع کا کردار نبھانے نہیں بل کہ مقرر کی حیثیت سے ٹپکے ہیں۔ لیکن اسٹیج پر بیٹھ کر اپنے جاننے والوں کو ہاتھ جوڑ کر یا سینے پر ہاتھ رکھ کر فقیر منش ہونے کا یقین دلاتے رہتے ہیں۔

ان ”مشہور“ ادیبوں کو اپنی مقبولیت پر اعتماد کا یہ عالم ہو تا ہے کہ اگر خود کی کتاب کی رونمائی کی تقریب منعقد کی جا رہی ہو تو فیس بک اور واٹس ایپ گروپ میں دعوت نامہ پبلک کر کے مطمئن رہتے ہیں کہ پبلک اس تقریب کے بہانے ان سے ملنے دنیا بھر کے طول و ارض سے دوڑی چلی آئے گی۔ پھر تقریب کے آغاز و اختتام تک اگلی نشستوں پر بیٹھے ان کے قریبی رشتے دار صرف اسٹیج پر کیمرہ فوکس کیے رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments