احسن الذکر کا بدلہ


Loading

قدرت اللہ شہاب صاحب اپنی شہرہ آفاق کتاب ’شہاب نامہ‘ میں ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہ علامہ صاحب کے ملازم علی بخش کے ساتھ گاڑی میں جھنگ جا رہے تھے۔ علی بخش کی زمین کا کچھ مسئلہ تھا۔ شہاب صاحب لکھتے ہیں کہ:

” غالباً اس کے دل میں سب سے بڑا وہم یہی ہو گا کہ اب میں بھی بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح علامہ اقبال کی باتیں پوچھ پوچھ کر اس کا سر کھاؤں گا۔ لیکن میں نے بھی عزم کر رکھا ہے کہ میں خود علی بخش سے حضرت علامہ کے بارے میں کوئی سوال نہیں کروں گا۔ اگر واقعی وہ علی بخش کی زندگی کا ایک جزو ہیں، تو یہ جوہر خودبخود عشق اور مشک کی طرح ظاہر ہو کے رہے گا۔ توقع پوری ہوئی اور تھوڑی سی پریشان کن خاموشی کے بعد علی بخش مجھے یوں گھورنے لگتا ہے کہ یہ عجیب شخص ہے جو ڈاکٹر صاحب کی کوئی بات نہیں کرتا۔ آخر اس سے رہا نہ گیا اور ایک سنیما کے سامنے بھیڑ بھاڑ دیکھ کر وہ بڑبڑانے لگا۔“ مسجدوں کے سامنے تو کبھی ایسا رش نظر نہیں آتا۔ ڈاکٹر صاحب بھی یہی کہا کرتے تھے۔ ”

اس سفر میں علی بخش اپنے محور کے گرد خوب گھومتا رہا اور سارے سفر میں اقبالیات کی عرفانیات بتانے میں گزرا۔ میاں محمد بخش صاحب کا کیا خوب شعر ہے کہ:

جو کسے دا عاشق ہووے گل اوسے دی کردا
سو سو مکر بہانے کر کے اوہدے مرنے مردا
(جو کوئی جس عاشق ہوتا ہے، اسی کی بات کرتا ہے۔ سو سو بہانوں سے وہ اسی پہ فدا ہوتا ہے۔ )

رب العالمین کی کل مخلوقات اسی کا ذکر کرتی ہے۔ جیسے علی بخش کا مرکز اقبال کی ذات تھی اور انہی کی باتیں (ذکر) تھیں، اسی طرح حضرت انسان جسے تمام مخلوقات میں سے اشرف المخلوقات بنایا گیا، وہ اپنے مرکز و محور سے دور کیسے جا سکتا ہے۔ یہ (ذکر سے دوری) حضرت انسان کی شان عبدیت کے خلاف ہے۔ اس کی عبادت اور ذکر (گو کہ ذکر بھی عبادت ہی ہے ) اگر کسی طمع اور لالچ کے بغیر ہو تو مقام عبدیت میں مراحل جلد اور آسانی سے طے ہو جاتے ہیں۔

اور یہ بات تو یاد رکھنی از حد ضروری ہے کہ وہ ایسا سمیع و بصیر ہے کہ جو دل میں پیدا ہونے والا وہ وسوسہ تک بھی جانتا ہے جو ابھی بیان ہی نہیں ہوا۔ اور وہ ایسا بے نیاز محبوب ہے کہ حضرت انسان کی طرف سے حب میں رخنہ آنے سے، یکسوئی ٹوٹ جانے سے، مادیت کا مطمع نظر بن جانے سے محب کا مرتبہ چھن جاتا ہے۔ میاں محمد بخش صاحب کا کیا ہی برمحل شعر ہے کہ:

پڑھنے دا نہ مان کریں توں، تے نہ آکھیں میں پڑھیا
اوہ جبار قہار سداوے، متاں روڑھ چھڈی ددھ کڑھیا

(اپنے پڑھنے (عبادت) پہ تم فخر نہ کرنا، اور نہ ہی کہنا کہ میں پڑھتا (عبادت کرتا) ہوں۔ وہ جبار اور قہار ہے، کیا معلوم وہ کڑھا ہوا دودھ (تمہاری نیکیاں ) گرا (ضائع کر) دے۔ )

ہمارے ہاں کیسے قیمتی اور خوبصورت پتھر پائے جاتے ہیں، کئی ایک کو خاص طور پہ زیورات کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ چند پتھروں کا ذکر اللہ کریم نے قرآن مجید میں بھی فرمایا ہے۔ کسی نے بابا یحییٰ خان صاحب سے پوچھا کہ کیا پتھر انسان کو راس آتے ہیں؟ انہوں نے بھی یہی فرمایا کہ ”انسان تو اشرف المخلوقات ہے، پتھر کی کیا اوقات کہ وہ انسان کو راس آ جائے۔ ہاں پتھر بھی اپنے خالق و مالک کا ذکر کرتے ہیں، انسان لیکن بھول جاتا ہے، ذکر بھی بھول جاتا ہے۔ کوشش کریں کہ انسان پتھر کو راس آ جائے“ ۔ انسان تو نسیان کا مارا ہے، جلدی بھول جاتا ہے، چاہے وہ کسی کا احسان ہو یا مان، کسی کا تعاون ہو یا معاون، کسی کی مدد ہو یا سند، کسی کا احساس ہو یا باس، کسی کی عبادت ہو یا ریاضت، کسی کا حوالہ ہو یا سنبھالا۔

مروجہ اصول ہے کہ آنے بہانے ذکر اسی کا ہو گا جس سے محبت ہو گی، مودت ہو گی، انس ہو گا، عشق ہو گا۔ اور ایسی محبت جس کا تقاضا ہمہ وقت ذکر کا ہو وہ صرف اسی وحدہ لاشریک ذات کو سزاوار ہے، اسی ایک کو جچتی ہے، اسی رب ذوالجلال کو زیب دیتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی مجاز سے جڑا ہوا کوئی بھی تعلق، عقیدت اور محبت نہ تو اس معیار کو پہنچ سکتی ہے اور نہ ہی اس کمال کو پا سکتی ہے۔

جب انسان کی محبت الہیہ اپنی معراج کو پا لیتی ہے تو وہ مالک کل اپنے اسی حق کو انسان کے لئے انعام و رضا میں بدل دیتا ہے۔ یہ صلہ، انعام اور بدلہ ہے اس محبت کا جو وہ اپنی ذکر کرنے والی مخلوق سے کرتا ہے۔ اس محبت اور اس محبت کے نتیجے میں کیے جانے والے ذکر کے طفیل وہ بے نیاز کر دیتا ہے دنیا سے، دنیا داروں کی محبت سے، دنیا کی فانی عزت و شہرت سے اور دنیا کی ختم ہو جانے والی دولت و راحت سے اور اس کے بدلے میں بخش دیتا ہے اخروی کامیابی، حتمی عزت و شہرت، پائیدار محبت اور ہمیشہ کی یقینی راحت۔

توصیف رحمت
Latest posts by توصیف رحمت (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments