پاک ایران تنازع


ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر

مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کے اس شعر کا پاکستانی قوم نے پہرہ دیا ہے یعنی دنیا بھر میں جب بھی جہاں بھی مسلمانوں پر ظلم ہوا پاکستان بطور ریاست ہمراہ عوامی حمایت نتائج کی پرواہ کیے بغیر ساتھ کھڑا ہوا فلسطین اور کشمیر اس کی واضح مثالیں ہیں۔ مطالعہ پاکستان میں بچوں کو بتا دیا جاتا ہے کہ پاکستان کی سرحد ایران اور افغانستان کی جانب سے برادر اسلامی ملکوں سے جڑی ہے ایک جانب آزمایا ہوا دوست ”چین“ ہے اور ایک جانب بھارت جو روایتی حریف ہے تاہم معاملہ عملی طور پر اتنا سادہ نہیں رہا۔

افغانستان اور ایران نے شاید یہ شعر اتنی سنجیدگی سے نہیں پڑھا انہوں نے برادر اسلامی ملک پاکستان کو ایسا چھوٹا بھائی سمجھ لیا جس کو بلاوجہ تھپڑ مارا جا سکتا ہو اور اس کے وسائل پر بھی اپنا حق سمجھا جائے۔ پہلے افغان مہاجرین کی انصار کی طرح میزبانی کرنے کے باوجود افغانستان کی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں اور دشمن ملک کی ایجنسیوں کی آماجگاہ بنی رہی اور اب ایران کی جانب سے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی نے علاقائی امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ایران کی جانب سے پاکستان میں صوبہ بلوچستان کے سرحدی علاقے میں بغیر کسی اطلاع، بغیر کسی وارننگ اور بغیر کسی وجہ میزائل حملہ کیا گیا جس میں معصوم شہری نشانہ بنے۔

پاکستانی دفتر خارجہ نے ایران کے میزائل حملے کو ملکی خودمختاری اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے ایران سے احتجاج کیا تاہم برادر ملک کی جانب سے اظہار ندامت سمیت کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا گیا جو صورتحال کو سنبھال پاتا۔ ایران کی جانب سے حیران کن طور پر حملے کا دفاع کیا گیا اور یہ تاثر دیا گیا کہ یہ آپریشن مبینہ طور پر ایران میں دہشت گردی کرنے والوں کے خلاف کیا گیا ہے۔ جس کی پاکستان نے تردید کی ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ نے ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم کے 54 ویں سالانہ اجلاس کے موقع پر ایرانی جارحیت سے چند گھنٹے پہلے پاکستان کے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ سے معمول کے مطابق ملاقات کی جس میں ایسا کوئی تاثر نہیں دیا گیا جس سے معلوم ہو کہ ایران کا ارادہ کیا ہے جبکہ دونوں ملکوں کے مابین سیکیورٹی کے حوالے سے تعاون کی پالیسی پر عمل بھی جاری ہے۔

ردعمل کے طور پر پاکستان نے فوری طور پر ایران سے اپنا سفیر واپس بلا لیا، جبکہ حملے کے وقت تہران میں موجود پاکستان کے لئے ایرانی سفیر کو واپس پاکستان نہ آنے کا پیغام دے دیا گیا۔

اطمینان بخش ردعمل نہ ملنے کے بعد پاکستان نے ایران میں موجود بلوچ علیحدگی پسند دہشت گرد تنظیموں کی پناہ گاہوں پر حملہ کیا جس میں متعدد دہشت گرد ہلاک ہوئے تاہم بہترین پیشہ ورانہ فوجی حکمت عملی کے باعث سول آبادی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ واضح رہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی کرنے والے عناصر کی ایران کے سرحدی علاقے میں موجودگی کے حوالے سے کئی بار پاکستان، ایران کو آن ریکارڈ مطلع کر چکا ہے۔

پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے بریفنگ میں واضح کیا کہ پاکستان کی کارروائی ایران کے خلاف نہیں بلکہ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف تھی، پاکستان اسلامی جمہوریہ ایران کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا مکمل احترام کرتا ہے۔ ایران کے صوبہ سیستان میں مربوط اور خاص ہدف پر مبنی فوجی کارروائی کا واحد مقصد پاکستان کی اپنی سلامتی اور قومی مفاد کا تحفظ ہے جو کہ سب سے مقدم ہے۔

ترجمان نے کہا کہ ”مرگ بر سرمچار“ ایک انٹیلی جنس پر مبنی آپریشن تھا جس میں متعدد دہشت گرد مارے گئے۔ ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان نے مسلسل اپنے سنگین خدشات کا اظہار کیا ہے اور ایران کے اندر خود کو سرمچار کہنے والے پاکستانی نژاد دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں اور ٹھکانوں کے بارے میں ٹھوس شواہد کے ساتھ متعدد ڈوزیئر شیئر کیے ہیں۔ تاہم تحفظات پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے، یہ نام نہاد سرمچار بے گناہ پاکستانیوں کا خون بہاتے رہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان نے ایران میں امن و امان کے قیام کے لئے ہمیشہ ایران کا ساتھ دیا، پاکستان کی جانب سے اخلاقی اور سیکیورٹی تعاون کے نتیجے میں ہی ایران ماضی میں کئی اہم ترین دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچا سکا ہے۔

ایسے دوستانہ اور پر اعتماد تعلقات کے ہوتے ہوئے ایران کی جانب سے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔

پاکستان اور ایرانی عوام کے درمیان محبت اور بھائی چارے کا دیرینہ رشتہ ہے اور دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان صورتحال کو مزید بگاڑنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا، امید ہے کہ دوسرا فریق بھی اس بات کا ادراک کرے گا۔

اس کا ادراک اس لئے ضروری ہے کہ خراب صورتحال کا فائدہ صرف دشمنوں کو ہو گا

اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ چین نے دونوں ملکوں کو بات چیت سے مسئلہ حل کرنے کا مشورہ دیا اور ثالثی کی پیشکش کی، امریکہ نے ایرانی جارحیت کی مذمت کی، روس، ترکی اور کئی ملکوں نے کشیدگی روکنے کی بات کی لیکن بھارتی میڈیا میں شادیانے بجائے گئے اور ایرانی جارحیت کا دفاع کیا گیا۔

پاکستان ہمسایہ ممالک کی خودمختاری کا احترام کرتا ہے اور اسی روئیے کی توقع بھی کرتا ہے۔ لیکن باہمی احترام دو طرفہ جذبہ ہے اگر کوئی ملک پاکستانی سرحد کی خلاف ورزی کرے تو اس کو مناسب جواب دینا قومی وقار کا تقاضا ہے پھر چاہے بھارتی جارحیت ہو یا کوئی اور ہمسایہ ملک۔

پاکستان کی جانب سے دندان شکن جواب پورے خطے کے لئے پیغام ہے کہ پاکستان کو کمزور سمجھنے کی غلطی ہر گز نہ کی جائے قومی وقار اور سالمیت کے لئے پاکستانی افواج اور قوم ہمیشہ شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments