غیر عدالتی تجاوزات


حال ہی میں سپریم کورٹ اف پاکستان کے فیصلے کے مطابق تحریک انصاف سے اس کا انتخابی نشان بلا واپس لے لیا گیا ہے چنانچہ تحریک انصاف عملی طور پر بطور سیاسی جماعت ان انتخابات میں حصہ لینے کے قابل نہیں رہی لہذا بطور پارٹی اس کا انتخابی وجود تقریباً ختم ہو گیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس کے اور بھی کئی نتائج آئے ہیں جیسے تحریک انصاف مخصوص نشستوں پر کسی کو نامزد نہیں کر سکتی اور اس کے ساتھ ہی تحریک انصاف نے اقلیتی نشستوں کا حق بھی کھو دیا ہے۔ یہ بہرحال ایک بہت بڑا انتخابی معاملہ ہے جس کا بغیر کوئی سیاسی رائے قائم کیے قانونی اور عدالتی تجزیہ کرنا ضروری ہے۔

ماضی قریب میں یہ بات شروع ہوتی ہے جب 2002 میں جنرل مشرف حکومت میں تھے تو چونکہ آئین معطل تھا اس لیے انہوں نے لیگل فریم ورک آرڈر 2002 متعارف کروایا جس کے تحت آئین میں آرٹیکل 17 کی شق نمبر 4 شامل کی گئی جس کے مطابق تمام سیاسی جماعتیں اپنے انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کی پابند تھیں۔ اس لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت انٹرا پارٹی انتخابات کو ایک آئینی ضرورت بنا دیا گیا لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ 2010 میں اٹھارہویں ترمیم میں اس آرٹیکل کو حذف کر دیا گیا چنانچہ اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ انٹرا پارٹی انتخابات آئین کی منشا نہیں تھی چنانچہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد یہ آئینی ضرورت نہیں رہی۔

اس کے بعد 2017 میں الیکشنز ایکٹ متعارف کروایا گیا اور اس الیکشنز ایکٹ کی شق 208 انٹرا پارٹی انتخابات کے متعلق ہے جس کی ذیلی دفعہ 1 پارٹی میں قیادت اور عہدے داروں کے لیے انٹرا پارٹی انتخابات لازمی قرار دیتا ہے جب کہ 2023 میں کی گئی ترمیم کے مطابق ذیلی دفعہ 5 انٹرا پارٹی الیکشن کے حوالے سے بیان کرتی ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت انٹرا پارٹی الیکشن کروانے میں ناکام رہتی ہے تو الیکشن کمیشن اسے ایک نوٹس جاری کرے گا اور نوٹس کی عدم تعمیل کی صورت میں بطور سزا اسے ایک لاکھ سے دو لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کی اگلی شق 209 میں لکھا ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت، انٹرا پارٹی انتخابات کی تکمیل کے سات دنوں کے اندر پارٹی سربراہ کے ذریعے مجاز عہدیدار کا دستخط شدہ ایک سرٹیفکیٹ کمیشن کو جمع کرائے گی کہ انتخابات سیاسی جماعت کے آئین کے مطابق ہوئے ہیں۔

اس سے اگلے باب میں شق 215 جو کہ انتخابی نشان کے حوالے سے ہے کی ذیلی دفعہ 4 کے مطابق جہاں کوئی سیاسی جماعت سیکشن 209 کی تعمیل کرنے [سرٹیفکیٹ کمیشن کو جمع کرانے] میں ناکام رہتی ہے، تو کمیشن ایسی سیاسی جماعت کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرے گا کہ اسے انتخابی نشان کے لیے کیوں نا نا اہل قرار دیا جائے۔ ذیلی دفعہ 5 میں یہ لکھا گیا ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت جسے ذیلی دفعہ ( 4 ) کے تحت شوکاز نوٹس جاری کیا گیا ہے، سیکشن 209 کی شق [سرٹیفکیٹ کمیشن کو جمع کرانے ] کی تعمیل کرنے میں ناکام رہتی ہے، تو کمیشن سماعت کا موقع فراہم کرنے کے بعد ، اسے نا اہل قرار دے سکتا ہے اور کمیشن آئندہ انتخابات میں ایسی سیاسی جماعت کو انتخابی نشان الاٹ نہیں کرے گا۔

اس میں ایک بڑی اہم بات جس پہ عدالت نے بھی روشنی نہیں ڈالی وہ یہ ہے کہ اگر سیکشن 215 ذیلی دفعہ 5 کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو یہ معلوم پڑے گا کہ اس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت سیکشن 209 [سرٹیفکیٹ کمیشن کو جمع کرانے ] کی پابندی نہیں کرتی تو الیکشن کمیشن اسے نوٹس دے گا جس کے بعد اس کا انتخابی نشان سلب کر لیا جائے گا۔ سیکشن 209 انٹرا پارٹی الیکشن کے سرٹیفیکیٹ جمع کروانے کے متعلق ہے چنانچہ اگر کوئی پارٹی یہ سرٹیفیکیٹ جمع نہیں کرواتی تو پھر الیکشن کمیشن اسے یہ نوٹس دے کر انتخابی نشان سے محروم کر سکتا ہے لیکن موجودہ کیس میں اہم بات یہ ہے کہ تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی الیکشنز کا سرٹیفیکیٹ جمع کروایا جس کے بعد الیکشن کمیشن نے یہ کہا کہ یہ انٹرا پارٹی الیکشن درست طریقے سے نہیں ہوئے۔

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس انٹرا پارٹی الیکشن کی درستی کی جانچ کا اختیار کس قانون کے تحت آیا کہ الیکشن کمیشن انتخابات ہونے کے بعد ان کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ بھی کرے کیونکہ الیکشنز ایکٹ یا متعلقہ رولز نے الیکشن کمیشن کو کوئی ایسا اختیار نہیں دیا۔ حیرت انگیز اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس پہ سپریم کورٹ نے بالکل روشنی نہیں ڈالی۔ اسی طرح سے اس سوال کا جواب بھی نہیں ملتا کہ ایسی چیزیں جن میں آئین یا متعلقہ ایکٹ خاموش ہو تو کیا اس میں عدالتیں اپنی مرضی سے اس کی تشریح کرنا شروع کر سکتی ہیں؟

جیسے اگر آئین کے آرٹیکل 62 کا جائزہ لیا جائے جس میں پارلیمنٹ کی رکنیت کی بنیادی اہلیتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن اس میں نا اہلی کی مدت بیان نہیں کی گئی کیونکہ اس میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا گیا کہ نا اہلی کتنی مدت کے لیے ہو گی۔ کیا وہ صرف اسی الیکشن کے لیے نااہل ہو گا جیسے افتخار چیمہ کیس میں ہوا یا وہ پانچ سال کے لیے نا اہل ہو گا جیسے طلال ہاشمی کیس میں ہوا یا 10 سال کے لیے نااہل ہو گا جیسے نیب کیسز میں ہوا یا پوری زندگی کے لیے نا اہل ہو جائے گا جیسے پانامہ کیس میں ہوا؟

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مقننہ نے جان بوجھ کے اس کو مبہم رہنے دیا یا اس کی وضاحت نہیں کی تو کیا عدالتوں کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ وہ مقننہ کی منشا کی من مانی تشریح کرنا شروع کر دیں؟ کوئی ایسی چیز جس پر مقننہ نے ارادتاً خاموشی اختیار کی ہو یا اسے مبہم رکھا ہو عدالت اس پہ کیسے بات کرنا شروع کر سکتی ہے؟

یہاں دو اہم پہلو سامنے آتے ہیں ؛ ایک یہ کہ اگر مقننہ کسی قانون میں خلاء یا ابہام چھوڑتی ہے تو کیا عدلیہ کو مقننہ کا متبادل بن جانا چاہیے؟ کیونکہ عدالتی تشریح قانونی تنازعات کو حل کرنے تک محدود ہے، اور قانون سازی، اہم پالیسی فیصلوں یا قانون سازی کے خلا کو مقننہ کے ذریعے ہی دور کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اگر ایسا ہو گا تو ایسے حالات میں ایک ہی عدالت کے فیصلوں میں مطابقت ختم ہو جائے گی جس سے انصاف کی سالمیت ختم ہو جائے گی۔ ایسے فیصلے غلط اور متعصب ہوں گے۔ عدالتی نظام کی خرابی بے نقاب ہو جائے گی اور ایسے فیصلے من مانیوں سے بھرے ہوں گے۔ ایسی صورت حال میں عدالتیں ماورائے انصاف اہداف کی تکمیل کے لیے انصاف کی نت نئی تعریف کر کے استوار نظائر کو متزلزل کر دیں گی۔

دوسرا پہلو یہ ہے کہ عملی ضروریات کے تحت عدلیہ کو مبہم قوانین کی محدود تشریح کرنا پڑ سکتی ہے تو اس صورت میں عدلیہ کے تشریح کرنے کی اختیارات کی حد کیا ہو گی؟ کیا عدلیہ عدالتی تشریح کے نام پر اختیارات کی علیحدگی کے تصور کو پھلانگ سکتی ہے؟ عدلیہ کی تشریح کن خطوط پر ہو گی اور اس کے لیے راہنما اصول کیا ہوں گے؟ قانونی تشریح کے لیے مقننہ کی منشاء کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اگر مقننہ کسی خاص مسئلے پر خاموش ہے، تو عدالتیں اس قانون کے پیچھے سیاسی مقصد یا پالیسی کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہیں اور اسی مقصد کے مطابق اس کی تشریح کرتی ہیں۔ عدالتیں اپنے کردار سے تجاوز کرنے اور قانون سازی کے ارادے کا احترام کرنے کے بارے میں بہت محتاط ہونی چاہئیں۔

اب اگر ان دونوں پہلووں کو مدنظر رکھتے ہوئے حالیہ عدالتی فیصلے کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ الیکشنز ایکٹ اور متعلقہ رولز میں انٹرا پارٹی الیکشن کے انعقاد کا سرٹیفیکیٹ جمع کروانے کے علاوہ انتخابی نشان حاصل کرنے کی کوئی بنیادی شرط نہیں ہے۔ متعلقہ قوانین میں الیکشن کمیشن کو کوئی ایسا اختیار نہیں دیا گیا کہ وہ انٹرا پارٹی الیکشنز کی شفافیت اور ان کی حقیقی وقوع پذیری کا جائزہ لے سکے۔ حتی کی متعلقہ قوانین میں جعلی انٹرا پارٹی الیکشن سرٹیفیکیٹ جمع کروانے کی سزا تک کا ذکر نہیں کیا گیا۔ تو پھر الیکشن کمیشن کس قانونی اختیار کے تحت انٹرا پارٹی الیکشنز کالعدم قرار دے سکتا ہے؟

اگر سپریم کورٹ نے اس قانونی ابہام کی تشریح کی ہے تو وہ کس طرح مقننہ کی منشاء سے لاتعلق رہ سکتی ہے؟ قانونی تشریح کا یہ کائناتی اصول ہے کہ کسی بھی قانون کا سب سے پہلے آئینی استحقاق دیکھا جائے گا کہ آئین کی اس مخصوص قانون کے حوالے سے منشاء کیا ہے اور اس کے بعد متعلقہ قانون کے متن کا جائزہ لیا جائے گا۔ آئین کے آرٹیکل 17 سے انٹرا پارٹی انتخابات کا اخراج اور متعلقہ ایکٹ میں اس حوالے سے اختیارات کا حیرت انگیز طور پر محدود ہونا واضح کرتا ہے کہ مقننہ کی منشاء کیا ہے۔ 4 جنوری کو معزز چیف جسٹس نے فرمایا کہ بنچ کے ججوں کی اجتماعی دانش اراکین پارلیمنٹ سے زیادہ نہیں ہو سکتی تو پھر قانونی ابہامات کو دور کرنے کے لیے متعلقہ اور مناسب فورم پارلیمنٹ کی بجائے غیر نمائندہ عدلیہ کیسے ہو سکتی ہے؟

مستزاد اس پہ کہ انٹرا پارٹی انتخابات کے حوالے سے عدلیہ کے اپنے فیصلے بھی غیر مسلسل ہیں۔ جیسے کہ راولپنڈی بار ایسوسی ایشن کیس (PLD 2015 SC 401 ) میں سپریم کورٹ کے 8 ججوں نے کہا کہ جمہوری سیٹ اپ کے لیے انٹرا پارٹی انتخابات کا انعقاد لازمی نہیں ہے۔ اسی طرح 1989 میں بینظیر بھٹو کیس میں سپریم کورٹ کے 11 ججز نے انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرانے پر پارٹی کی ڈی۔ رجسٹریشن کو غیر آئینی قرار دیا۔ لیکن نامعلوم کیسے چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے انٹرا پارٹی الیکشن کے انعقاد پر سوال اٹھاتے ہوئے ایک سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کر دیا۔ نجانے کیسے ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments