موت سے پہلے مرنے والا آدمی


صوفیا کے ہاں ایک قول بہت معروف ہے۔ ”موتوا، قبل ان تموتوا“ ۔ اس کا لفظی مطلب تو یہ ہے کہ موت سے پہلے ہی مر جاؤ۔ اہل تصوف کے ہاں اس کی گونا گوں تفاسیر کی جاتی ہیں، لیکن یقین کیجیے، میں نے ایسا آدمی دیکھ رکھا ہے جو اس قول کی چلتی پھرتی مثال تھا، اور اس کے بظاہر برعکس ایک اور مقولے کا بھی۔ ایک روز کسی، متشکک جاننے والے نے اس سے پوچھا، ”آپ کا حیات بعد از موت کے بارے میں کیا خیال ہے؟“ ۔ اس نے بڑی رسان سے جواب دیا، ”اس کا تو پتا نہیں، مگر میں حیات قبل از موت پر پورا ایمان رکھتا ہوں“ ۔ یہ یار عزیز، ڈاکٹر محب اللہ غلزئی کا ذکر ہے۔

لیکن پہلے ذرا ”موت سے پہلے مرنے“ کے اجمال کی ذرا سی تفصیل عرض کردی جائے۔ سن اٹھاسی کا ذکر ہے کہ ایک قوم پرست ترقی پسند طلبا تنظیم کا صوبائی کنونشن کراچی میں منعقد ہو رہا تھا۔ بلوچستان سے آنے والے وفد میں محب بھی شامل تھا جو تب بولان میڈیکل کالج میں پڑھتا تھا۔ ایک روز وہ تیورا کر گرا اور اس کے اپنے کم، اور ہمراہیوں اور میزبانوں کے زیادہ، ہاتھ پیر پھول گئے۔ محب کو سانس لینے میں شدید دشواری ہو رہی تھی اور ہاتھ پیر نیلے پڑ رہے تھے۔

اتفاق سے اس روز پھر کراچی کے ضرب المثل لسانی فسادات اچانک پھوٹ پڑے اور افراتفری پھیل گئی۔ دوستوں میں کچھ ڈاکٹر بھی شامل تھے جنہوں نے فیصلہ کیا کہ اسے انتہائی نگہداشت کی ضرورت ہے۔ ”وینٹی لیٹر“ نام کی مصنوعی تنفس کی مشین جو خصوصاً کرونا کی وبا کے بعد سے بہت عام ہو گئی ہے، اس زمانے میں ایک نایاب چیز ہوا کرتی تھی اور خال خال اور صرف بڑے اسپتالوں میں ہوتی تھی۔

ساتھیوں نے نجانے کیسے جتنوں سے قریبی ایدھی مرکز سے ایک بڑی ایمبولنس کا بندوبست کیا اور محب کو اس میں لٹا کر برستی گولیوں، ٹریفک کے ازدحام اور روز حشر کا منظر پیش کرتی مخلوق خدا کے درمیان راستہ بناتے ایک اسپتال کی سمت چلے۔ خوش قسمتی سے ایمبولینس میں وہ زمانہ قدیم کی دھونکنی کی شکل کی، ہاتھ سے چلنے والی مشین موجود تھی جس سے اضطراری حالات میں سانس بحال کرنے کا کام لیا جاتا ہے۔ بڑی مشقت سے اس سے محب کو سانس دلاتے ڈیڑھ گھنٹے میں اسپتال پہنچے تو پتا چلا کہ وینٹی لیٹر دستیاب نہیں۔ انہوں نے یہ جان کر کہ مریض اپنا پیٹی بھائی ہے، ادھر ادھر فون گھمایا تو پتا چلا کہ ایک بڑے سرکاری اسپتال میں ایک وینٹی لیٹر کچھ دیر قبل فارغ ہوا ہے۔ وہاں پہنچتے پہنچتے دو عدد دھونکنیاں پھٹ چکی تھیں لیکن خیر گزری کہ مکمل دم نکلنے سے پہلے پہلے محب کو وینٹی لیٹر تک پہنچا دیا گیا۔ اڑتالیس گھنٹے گزرنے پر ڈاکٹروں نے آزمائشی طور پر مصنوعی تنفس کا آلہ ہٹا لیا تو معجزانہ طور پر محب سانس لینے لگا۔

اس کے بعد ، گزشتہ چار دہائیوں میں تقریباً ہر ہفتے اس سے فون پر بات ہوتی تو وہ اپنا ضرب المثل بلند بانگ قہقہہ لگا کر کہتا، یار، بونس کا ایک ہفتہ اور جی لیا، ورنہ مر تو میں اسی دن گیا تھا۔ لیکن وہ اس حال تک کیونکر پہنچا؟ اس کے لیے مزید پیچھے جانا ہو گا۔

محب کو خون کا ایک لاعلاج عارضہ پیدائشی لاحق تھا جس میں خون کے سرخ ذرات پورا بننے سے پہلے ہی درانتی کی شکل اختیار کر کے ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں۔ اسے طبی اصطلاح میں ”سکل سیل انیمیا“ کہتے ہیں۔ اس پر تحقیقات بتاتی ہیں کہ اس مرض کا سب سے اہم سبب نسل در نسل قریبی رشتے داروں، مثلاً چچا، ماموں، خالہ، پھوپھی کی اولادوں سے شادی ہے۔ محب یا اس کے اہل خانہ کو تو پتا ہی نہ تھا کہ اس کا مسئلہ کیا ہے، اور لورالائی جیسے کور دہ میں تشخیص کا کوئی نظام آج تک نہیں ہے۔ بس یہ پتا تھا کہ سانس پھول جاتی ہے، چکر آتے ہیں اور زخم جلد نہیں بھرتے۔ اسے جن بھوت کے سائے، نظر بد وغیرہ پر محمول کر کے تعویذ گنڈے، جھاڑ پھونک، دیسی ٹوٹکوں سے ٹھیک کرنے کی کوشش کی گئی مگر نتیجہ، ظاہر ہے کہ صفر۔ درست تشخیص تب کہیں جا کر ہو سکی جب وہ خود میڈیکل کالج پہنچ گیا۔

یہ جانتے ہوئے کہ مرض لاعلاج ہے اور اس کی زندگی کا ہر پل موت کے دہانے میں گزر رہا ہے، محب کی خوش باشی اور چونچالی میں ذرہ بھر فرق نہیں آیا۔ مطالعے، مشاہدے اور قومی، جمہوری اور انسانی حقوق کی جدوجہد کو شعار بنایا۔ سیاسی محور دنیا اور علاقے کی حالت میں بڑی بڑی تبدیلیوں کے باوجود نہ بدلا۔ سفید ذرات کا خون میں ارتکاز ایک حد سے بڑھنا سرطان کی ایک قسم ہے۔ سو وہ بھی اسے لاحق ہوا، کیمو تھراپی، ریڈیو تھراپی کے جان کاہ مرحلوں سے مگر وہ قہقہے لگاتا گزر گیا۔ یہ سب علاج درد سر کے واسطے صندل لگانے جیسے ہیں کہ ان کے ضمنی اثرات بھی جان لیوا ہوتے ہیں۔ سو ہمارے دوست کے کولہے، گھٹنوں اور کندھوں کے جوڑ گھستے چلے گئے اور وہ جراحت کے ذریعے، بقول اس کے اپنے، ”سٹپنیاں“ لگواتا رہا، لیکن بذلہ سنجی، ذوق ادب اور نظریاتی سمت کو متزلزل نہ ہونے دیا۔ سوشل میڈیا، ذاتی گپ شپ، فون اور واٹس ایپ، ہر جگہ اس کا برمحل شعر پڑھنا، کتابوں کے حوالے دینا اور فقرے بازی جاری رہی۔

وہ ”من نہ نکردم شما حذر بکنید“ کے مصداق ”کزن میرج“ کے خلاف مہم چلاتا رہا اور اس ضمن میں برادری اور مذہب کے ٹھیکیداروں کے تیر و نشتر سہتا رہا۔ اس کی زندگی کا دار و مدار تقریباً ہر ماہ انتقال خون پر تھا اور اس کے تسلسل کے ناگزیر ضمنی اثر کے طور پر اس کا جگر سکڑ رہا تھا۔ پھیپھڑوں میں پانی پڑ جاتا تھا۔ قہقہہ تو اب بھی ویسا ہی جاندار تھا مگر اس میں عزرائیل کے پروں کی سرسراہٹ ہلکی ہلکی جھلکنے لگی تھی۔

یہ خادم دس ایک روز قبل کمبوڈیا میں ایک دیہی علاقے کی طرف جا رہا تھا کہ محب کے گرائیں اور ہمارے دوست عزیزم سلیمان کاکڑ کا پیغام فون پر موصول ہوا کہ محب نہیں رہا۔ گوش تصور پر اس کا روایتی بلند بانگ قہقہہ گونجا کہ ”قاضی صاحب، بونس ختم ہو گیا“ ۔ ختم شد۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments