صلیبیں اپنی اپنی، قسط نمبر 3: انکل اور آنٹی
پھر اُس نے اپنے شاگردوں کی طرف نظر کر کے کہا، ”مبارک ہو تم جو غریب ہو کیوں کہ خدا کی بادشاہی تمہاری ہی ہے۔ مبارک ہو تم جو اب بھوکے ہو، کیوں کہ آسودہ ہو گے۔ مبارک ہو تم جو اب روتے ہو، کیوں کہ ہنسو گے۔“ لُوقا 6 : 20۔ 21
مجھے دانی ایل نے صرف اتنا بتایا تھا کہ روزانہ شام کو ایک گھنٹہ ہوم ورک کرنے میں بہت سے بچوں کی مدد کرنی ہے کیوں کہ وہ ماں باپ کے قابو میں نہیں آتے۔ میں نے پوچھا کہ کتنے بچے ہیں، کون کون سی کلاسوں میں ہیں اور کتنے پیسے ملنے کی توقع ہے تو اس نے کہا کہ میں بچے وہیں جاکر گن لوں اور اپنی فیس بھی ان ہی سے طے کرلوں۔
”یار، کچھ تو تفصیل بتا۔ آخر کیسی فیملی ہے، والد کیا کام کرتے ہیں؟“ میں نے پوچھا۔
”ان کا نام شاہد ہے،“ دانی ایل نے جواب دیا، ”وہ انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ سے ریٹائر ہوئے ہیں۔“
” تب تو وارے نیارے ہوں گے۔“
”نہیں یار بہت ایمان دار آدمی ہیں، اس لیے غریب ہیں۔“
دانی ایل نے مجھے سڑک اور گلی کا پتہ بتا دیا۔ گھر کی نشانی یہ تھی کہ دروازے پر سبز پینٹ تھا۔ میں نے دانی ایل سے وعدہ کر لیا کہ میں اگلے دن یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد شاہد صاحب کے گھر جاؤں گا۔ جب میں اس سے ہاتھ ملا کر وہاں سے چلا تو اس نے مجھے آواز دی اور میں رک کر پیچھے مڑا۔
”دیکھ یار، ان کی بھتیجی پر غلط نظر ڈالنے کی ہمت نہ کرنا۔ اس پر میری نظر ہے،“ اس نے گھونسا دکھاتے ہوئے کہا۔
”یار تو فکر کیوں کرتا ہے۔ مجھ پر بھروسا نہیں ہے؟“ میں نے پوچھا۔
”تجھ پر تو بھروسا ہے مگر شیطان پر بھروسا نہیں ہے۔“
”تو شیطان کی فکر مت کر، میں اسے بھی سنبھال لوں گا،“ میں نے مسکرا کر اس کی طرف ہاتھ بڑھادیا، ”اچھا یہ بتا کہ لڑکی کیسی ہے؟“
”دیکھ تیری نیت ابھی سے خراب ہونے لگی نا؟“ اس نے روہانسا ہو کر کہا۔
”یار میں تو صرف پوچھ رہا ہوں، تو خواہ مخواہ گرم ہو رہا ہے۔“
”وہ پنجاب یونیورسٹی میں پڑھتی ہے، ہر سال چھٹیوں میں آتی ہے۔ اب آنے والی ہوگی۔“
”نام کیا ہے؟“ میں نے مسکرا کر بھنویں اچکائیں۔
”مریم۔“
”ابے چھوڑ یار۔ سارا مزا کرکرا کر دیا،“ میں نے ایک قہقہہ لگایا، ”جس لڑکی کا نام مریم ہو اس پر کوئی غلط نگاہ کیسے ڈال سکتا ہے۔ وہ تو جب بھی میرے سامنے آئے گی مجھے بی بی مریم یاد آ جائیں گی،“ میں نے ہاتھ کے اشارے سے دانی ایل کو خدا حافظ کہا اور چل دیا۔
***
اگلے روز مجھے یونیورسٹی سے واپس آتے آتے شام ہو گئی۔ میں بس سے اتر کر سیدھا دانی ایل کے بتائے ہوئے پتے پر چل دیا۔ سڑک، اور گلی تو آسانی سے مل گئی مگر اس گھر کی تلاش میں کچھ وقت لگا جس کے دروازے پر سبز پینٹ تھا۔ آخر کار وہ گھر بھی نظر آ گیا۔ دروازہ کھلا ہوا تھا اور اس کے پیچھے سندھی رلّی کا ایک پردہ پڑا تھا۔ کواڑ کے اوپر ایک زنگ آلود زنجیر لٹک رہی تھی۔ میں نے آگے بڑھ کر زنجیر بجائی اور ایک طرف ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔
اگلے لمحے شاہد صاحب خود نکل کر آئے اور بڑے لہک کر ہاتھ آگے بڑھا دیا۔
”میرا نام پرویز ہے،“ میں نے ہاتھ ملاتے ہوئے اپنا تعارف کرایا۔
”آئیے آئیے سر، ہم آپ ہی کا انتظار کر رہے تھے۔“
”شاہد صاحب؟“ میں نے پوچھا۔
”جی۔“
”مجھے دانی ایل بشیر نے آپ کا پتہ دیا تھا۔“
”آئیے، تشریف لائیے،“ انہوں نے پردہ ایک جانب ہٹاتے ہوئے کہا۔
میں ان کے پیچھے پیچھے گھر میں داخل ہو گیا۔ شام کا وقت ہو چلا تھا اور دھوپ ڈھل گئی تھی۔ صحن میں چار پانچ کرسیاں بچھی ہوئی تھیں۔ اینٹوں کا فرش کچھ گیلا گیلا سا لگ رہا تھا اور اس میں سے سوندھی سوندھی خوشبو اٹھ رہی تھی۔ شاید کچھ دیر پہلے گرمی کی شدت کو کم کرنے کے لیے فرش پر چھڑکاؤ کیا گیا تھا۔ شاہد صاحب نے ایک کرسی کی طرف اشارہ کیا اور میں بیٹھ گیا۔ گھر کی حالت خاصی ناگفتہ بہ تھی۔ دیواروں کا پلاسٹر جگہ جگہ سے ادھڑ گیا تھا۔ اور دروازوں کے کواڑوں میں بھی کہیں کہیں دیمک کے آثار تھے۔ شاہد صاحب غالباً ساٹھ برس سے اوپر تو رہے ہوں گے۔ بال مکمل طور پر تو سفید نہیں ہوئے تھے مگر جڑوں اور قلموں میں سفیدی آ گئی تھی۔
”آپ کو گھر تلاش کرنے میں دقّت تو نہیں ہوئی؟“ انہوں نے پوچھا۔
”نہیں انکل، بڑا آسان پتہ تھا،“ میں نے جواب دیا۔
اتنے میں ان کی بیوی کمرے سے نکل کر آئیں۔ میں اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ انہوں نے کرسی کی طرف اشارہ کر کے کہا، ”ارے بیٹھیے سر۔“ جب وہ میرے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئیں تو میں بھی بیٹھ گیا۔ انہوں نے سفید ساڑھی پہن رکھی تھی جس پر جگہ جگہ سلوٹیں پڑی ہوئی تھیں۔ جسم کافی فربہ تھا اور چہرے پر جھریاں تھیں۔ وہ شاہد صاحب کے مقابلے میں زیادہ بوڑھی لگتی تھیں۔ ان کے سر کے بال کھلے ہوئے تھے اور زیادہ تر سفید تھے۔ میری نظر برآمدے کی پچھلی دیوار پر پڑی جس پر ایک چھوٹی سی صلیب لٹک رہی تھی اور اس پر حضرت عیسیٰ کی شبیہ تھی۔
”سر، ہمارے نو بچے ہیں مگر آپ کو صرف پانچ کو پڑھانا ہے،“ شاہد صاحب نے کہا۔
ایک ننگ دھڑنگ، چھوٹی سی بچی، ڈائپر پہنے ہوئے، دودھ کی خالی بوتل کا نپل دانتوں میں دبائے پورے صحن میں بھاگی پھر رہی تھی اور جھوم جھوم کر بوتل کو ہاتھی کی سونڈ کی طرح گھما رہی تھی۔
”اس بچی کو تو نہیں پڑھانا؟“ میں نے مسکرا کر پوچھا۔
”نہیں،“ انہوں نے ہنس کر کہا، ”اس سے بڑی دو اور ہیں وہ بھی ابھی چھوٹی ہیں۔ میری ایک بھتیجی بھی ہے جس کی والدہ کا انتقال ہو گیا تھا اور اسے ہم نے ہی پالا تھا۔ وہ پنجاب یونیورسٹی میں پڑھتی ہے۔ بس آپ باقی بچوں کی روزانہ ایک گھنٹہ ہوم ورک کرنے میں مدد کر دیا کریں۔“
انہوں نے سب بچوں کو باری باری بلا کر تعارف کرایا۔ ایک بچے کا نام بالا تھا، دوسرا جمّی تھا۔ لڑکیوں میں پنکی اور جینی تھیں۔ سب سے بڑا لڑکا خاموشی سے کھڑا ہوا اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔ میری توجہ خاص طور پر اس کی طرف تھی۔ دیکھنے میں کافی برد بار اور باوقار تھا، آنکھوں میں ذہانت کی چمک تھی اور تیرہ چودہ سال کی عمر میں بھی اس کے چہرے پر بڑی سنجیدگی تھی۔
”اور آپ کیا نام ہے؟“ میں نے اس سے پوچھا۔
”میرا نام وکٹر ہے،“ اس نے جواب دیا۔
”اور آپ کو معلوم ہے کہ وکٹر کا کیا مطلب ہوتا ہے؟“
”وکٹر کے معنی ہیں فاتح۔“
”اور فاتح کس کو کہتے ہیں؟“
”جو گر کر فوراً اٹھ کھڑا ہو۔“
مجھے جھٹکا سا لگا کیوں کہ مجھے اتنے فلسفیانہ جواب کی توقع نہیں تھی۔ میں نے باری باری شاہد صاحب اور ان کی بیوی کی طرف دیکھا جو بڑے فخریہ انداز میں بیٹے کو دیکھ رہے تھے۔
”سر آپ کی فیس کیا ہوگی؟“ شاہد صاحب نے پوچھا۔
”روزانہ ایک گھنٹہ پڑھانے کے میں سو روپے مہینہ لیتا ہوں،“ میں نے جواب دیا۔
”سو روپے مہینہ تو ہمارے لیے بہت مشکل ہوجائیں گے۔ اگر آپ کچھ کم کر دیں تو بڑی مہربانی ہوگی۔“
”دیکھیں، پانچ بچوں کو بیک وقت توجہ دینا آسان نہیں ہے۔“
”آپ نے صحیح فرمایا لیکن ہمارے لیے سو روپے نکالنا بڑا مشکل ہو گا کیوں کہ ہم اتنے امیر نہیں ہیں۔“
”سر، اگر آپ پچھتر روپے پر راضی ہوجائیں تو عنایت ہوگی کیوں کہ ہم پچھتر روپے تو ادا کر سکیں گے،“ شاہد صاحب کی بیوی نے کہا۔
”ٹھیک ہے آنٹی مگر ایک شرط ہے،“ میں نے جواب دیا۔
”وہ کیا؟“ شاہد صاحب بولے۔
سب بچے جا چکے تھے مگر وکٹر میرے سامنے ہی کھڑا ہوا تھا۔ میں نے اسے اپنے پاس بلایا اور اس کی پیٹھ تھپتھپا کر شاہد صاحب سے کہا، ”فیس تو میں سو روپے ہی لوں گا۔ آپ پچھتر روپے دے دیا کریں اور باقی پچیس روپے آپ پر قرض ہوں گے۔ آپ ان کا حساب رکھیں۔ اگر وکٹر کسی دن بڑا آدمی بن جائے تو سمجھیے گا کہ آپ نے میرا قرض ادا کر دیا۔“
شاہد صاحب نے اٹھ کر مجھ سے ہاتھ ملایا اور بولے کہ انہیں سودا منظور ہے۔ اس دن سے وہ اور ان کی بیوی میرے لیے انکل اور آنٹی ہو گئے اور میں اس گھر میں ہر چھوٹے بڑے کے لیے ”سر“ ہو گیا۔
- صلیبیں اپنی اپنی، قسط نمبر 36 : بوئنگ707 - 17/03/2025
- صلیبیں اپنی اپنی، قسط نمبر 35 : فرار - 03/03/2025
- صلیبیں اپنی اپنی، قسط نمبر 34 : احساسِ محرومی - 17/02/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).