وانا وزیرستان؛ مجرمانہ خاموشی کب تک؟
وزیرستان کے باسی دہشتگردی، طالبانائزیشن اور وار۔ ان۔ ٹیرر کی وجہ سے نکل مکانی، دو نسلوں قربانیوں کے بکرے بننا، نفسیاتی بیماریاں میں مبتلا اور گھر و بازار کی لوٹ و مسماری سہنے کے باوجود زمینی حقائق بتا رہے ہیں کہ ماضی پھر سے خود کو دوہرانے والا ہے۔ روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر جبکہ آبادی میں بے انتہا اضافہ ہو رہا ہے۔ بے روزگار نوجوان نشہ آور مواد کے عادی بنتے جا رہے ہیں کچھ روزگار کے لیے خلیجی ممالک کی طرف رخ کرتے ہیں۔ ماضی میں نان اسٹیٹ ایکٹرز بے روزگاری اور غربت کا نتیجہ تھے جن کے زیادتیاں اب تک لوگوں کے اذہان میں ہیں۔ حکومت وقت و انتظامیہ کی عدم دلچسپی جبکہ بدستور اگر آبادی اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو عنقریب ایک بار پھر وزیرستان کے دیوار کے ساتھ لگنے کا اندیشہ موجود ہے۔
وزیرستان جیسی پدر سری معاشرے میں خواتین اب تک بہت زیادتیاں برداشت کرچکی ہیں۔ مرد کے خواہشات کے ہاتھوں مجبور خواتین کی کوکھ سے جنم لینے والی آبادی کے اثرات الٹا خواتین کے لیے وبال جان بن جاتے ہیں۔ مرد سے سوائے چند اعضائی تفریق کے گوشت ہڈیوں سے بنی خواتین سے مرد خواہشات، احساسات اور جذبات نکال کے انہیں من پسند پروگرامز پر مبنی آرگینک روبوٹوں میں تبدیل کرتے ہیں۔ مرد کی انا اور خواہشات کے تلے جتی جاگتی، ہنستی مسکراتی خواتین روندی جاتی ہیں۔
خواتین کے ساتھ تفریق و زیادتی کی ابتدا والدین کے گھر میں والد کی طرف سے شروع ہوتی ہے۔ بچی کی پیدائش کو باعث شرم و مصیبت سمجھا جاتا ہے۔ مرد بے اولادی کی ذمہ داری بیوی پر ڈال کے جبکہ زیادہ زن اولاد کی وجہ سے مرد دوسری تیسری شادی سے گریز نہیں کرتے اور پہلے سے موجود بیویاں شوہر کی زندگی میں بیوہ بن کے ان کی حیثیت نوکر جیسی ہوتی ہیں۔ مرد کے زیادتیوں کا شکار یہی خواتین ایک خاتون کی روپ میں ماں، بہن، بیٹی، بیوی،
دایہ، معالجہ، درزن، دھوبن، گوالن، خادمہ، صفائی کرنے والی، دودھ دوہنے والی، گوبر سے کیک بنانے والی، باورچی، چوکیدارنی کے ساتھ شوہر کو مجازی خدا با امر مجبوری سمجھ کے ان کے احکامات پوری کرتی ہے۔
جنسی علوم سے ناواقف مرد کو پتہ نہیں ہوتا کہ بیوی کے جنسی خواہشات و ضروریات مرد جیسے ہی ہوتے ہیں۔ خواتین کو جنسی ضروریات پورا کرنے کے لئے پندرہ منٹ جبکہ مرد کے لئے پانچ منٹ۔ اسی طرح آرگزم اور کون سا پوزیشن بہتر نتائج دے رہا ہے اور اس سے دونوں مطمئن ہے یا نہیں۔ پارٹنرز کے درمیان انڈرسٹینڈنگ اور رضامندی کتنا ضروری ہے؟ سے بے پرواہ مرد اپنے خواہشات کی متلاشی آدھے راستے کا ساتھی بن جانے سے خواتین بے چینی اور اضطرابیت میں مبتلاء ہوتی ہے۔ بالفاظ دیگر وزیرستانی مرد تمام کے تمام ریپسٹ کے تعریف پر پورے اترتے ہیں کیونکہ مدمقابل پارٹنر مجبوراً خاموشی سے سب کچھ برداشت کرتا رہتا ہے۔
ساس کی بے تکی بکواس اور طعنوں کے سامنے گونگی بہری خاتون اپنے اندر تربیت گاہ ہوتی ہے۔ اس کے اندر مستقبل کی نسل کی اکائیاں پروان چڑھتی ہیں۔ غذائی قلت میں مبتلا یہی خواتین مردوں کے احکامات کی بجاآوری میں اتنی مصروف ہوتی ہیں کہ خود کی سمجھ آنے سے پہلے ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کے ان کے ٹانگیں قبروں میں لٹکی رہتی ہیں۔ نتیجہ میں ایک اپاہج زدہ اور لولی لنگڑی نسل قوم کے مستقبل کا ضامن بن جاتا ہے۔
حکومت وقت و انتظامیہ کو ہنگامی بنیاد پر وزیرستان میں آبادی کنٹرول کے مراکز کھولنے چاہیے۔ وزیرستانیوں کو بنیادی سائنسی ٹیکنیکس و آلات سے روشناس کرانا ہو گا جیسے کونڈم، انٹرا یوٹیرائن آلات، میل ویزوکٹومی، فیمل ٹیوبل لائگیشن، فیمیل برتھ گولیاں اور ماہواری کے کل 28 دنوں میں درمیان کے دس سے لے کے سولہویں دن تک میاں بیوی خود پر کنٹرول کر کے جنسی ضروریات سے اجتناب کریں۔ کم عمری شادی پر پابندی کے علاوہ خواتین کو ان کا جائز مقام دے، انہیں انسان سمجھنے کی تعلیم دے۔ انہیں زندگی گزارنے کی اپنی چوائس دیں
- وانا وزیرستان: زراعت اور کسان کمیونٹی کو درپیش مسائل - 02/06/2024
- وانا وزیرستان؛ مجرمانہ خاموشی کب تک؟ - 25/05/2024
- وانا وزیرستان: کچھ نہیں بدلا - 26/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).