شکست تخت پہلوی (6) ۔ جاوید شاہ


ہر صبح شاہ اپنے چار سالہ بیٹے رضا کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے اپنی رہائش گاہ اختصاصی محل سے دفتر جاتے۔ وہاں سے شہزادے کی گورننس آ کر انہیں کنڈر گارڈن لے جاتی۔ لیکن 10 اپریل 1965 کی صبح ننھا شہزادہ ذرا جلدی چلا گیا کیونکہ آج ایک نیا بچہ کلاس میں آ رہا تھا جسے خوش آمدید کہنا تھا۔ معمول سے ہٹ کر اس دن شاہ بھی پیدل چلنے کے بجائے کار میں دفتر گئے اور اس فیصلے نے ان کی جان بچا لی۔ جیسے ہی وہ کار سے اتر کر محل میں واقع اپنے دفتر کی طرف بڑھے۔ ان کے اپنے ایک جوان سپاہی نے ان پر ایک چھوٹی مشین گن ایم تھری سے فائرنگ شروع کر دی۔ فائرنگ کی آواز سن کر دو سنتری اپنی جگہ چھوڑ کر بھاگے آئے اور جوابی فائر کیے۔ شاہ خیریت سے اپنے دفتر میں پہنچ گئے۔ شاہ کی سیکیورٹی کے سربراہ کرنل کیومرث جہانین بانی کو واکی ٹاکی پر حملے کی اطلاع ملی۔ وہ بھاگتے ہوئے آئے ”جیسے ہی حملہ آور نے فائرنگ کی، میرے ایجنٹوں نے بھی اس کو نشانہ بنایا لیکن ہلاک نہیں کیا۔ ان کے پاس صرف ریوالور تھے“۔ فائرنگ کے بعد ایک سناٹا چھا گیا۔ شاہ دروازہ کھول کر باہر آئے زمین پر خون میں لت پت تین افراد تھے۔ ان میں سے ایک حملہ آور اور دو گارڈ تھے۔ ایک گارڈ نے دلیرانہ طور پر اپنے زخموں کی پرواہ کیے بغیر حملہ آور کو نشانہ بنا لیا تھا۔

ادھر محل میں شاہ بانو فرح صبح کی ایک میٹنگ میں جانے سے پہلے اپنا میک اپ کر رہی تھیں کہ فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف ان کی ساس تاج الملوک تھیں۔

”اوہ میرے خدا فرح عزیزم“ ان کی سسکیاں سنائی دے رہی تھیں۔ ”تمہیں پتہ ہے کیا ہوا ہے؟“
”نہیں“ فرح نے گھبرا کر جواب دیا۔
”کسی نے شاہ پر گولی چلا دی۔“

فرح نے اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے کہا ”میرا دل بند ہونے لگا۔ منہ سے الفاظ نہیں نکل رہے تھے۔“۔ پھر ان کی ساس نے تسلی دی ”شاہ ٹھیک ہیں۔ انہیں کچھ نہیں ہوا پریشان مت ہو۔“

”خدارا شکر۔ خدارا شکر۔“ فرح بار بار یہی دہراتی رہیں۔ وہ یہ بھی سوچ رہی تھیں کہ شہزادہ رضا نے آج اپنی اور اپنے بابا کی زندگی بچا لی۔ وہ دوڑتی ہوئی شاہ کے دفتر پہنچیں جہاں خون پھیلا ہوا تھا۔ شاہ اپنی کرسی پر بیٹھے ٹھنڈے مزاج سے کام کر رہے تھے۔ شاہ نے ایک بار کسی کو بتایا تھا.

”چار بار میری زندگی کو خطرہ پیش آیا اور مجھے کچھ بھی نہ ہوا۔ مجھے اعتراف ہے کہ مجھے ایک الوہی احساس ہوتا ہے کہ میرے یہاں رہنے کا کوئی اعلیٰ مقصد ہے“ لیکن ان کے باڈی گارڈ اس پر تکیہ کر کے نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ انہیں شاہ کی حفاظت کا کام سونپا گیا تھا۔ ہر بار قسمت سے امید نہیں لگائی جا سکتی۔ کرنل جہانیان بانی نے ان کی سیکیورٹی بڑھا دی گئی۔ نئے قوانین بنا دیے گئے۔ اب آرمی کے سپاہی محل میں داخل نہیں ہو سکتے تھے۔ کرنل کے قائم کردہ محافظین اب پستول کے بجائے آٹومیٹک اسلحے سے لیس رہنے لگے۔ سکیورٹی کی باقاعدہ ٹریننگ کے لیے انہیں امریکہ بھیجا گیا۔ شاہ ملکہ اور ان کے بچوں کو پہلے سے زیادہ حفاظت میں رکھا جانے لگا۔

ایک نیا خونی دور شروع ہوا سن 1965 میں شاہ نے اسداللہ علم کی جگہ حسن علی منصور کو ملک کا وزیراعظم مقرر کیا۔ جو جوان تھے اور لبرل سوچ رکھتے تھے لیکن انہیں ایک نوعمر شخص محمد بخاری نے حملہ کر کے ہلاک کر دیا۔ قاتل کے پاس سے قرآن اور آیت اللہ خمینی کی تصویر نکلی۔ پولیس کی تفتیش کے مطابق بخاری کو وزیراعظم کو قتل کرنے کے لیے اسلامی تشدد پسند گروہ کی جانب سے بھیجا گیا تھا۔ خمینی کی ایران میں غیر موجودگی میں فدائین اسلام یہ پروکسی چلا رہے تھے۔ یہ قتل خمینی کی جلا وطنی کی خجالت کے جواب میں تھا۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ وزیراعظم منصور، شاہ کو اس بات پر راضی کر رہے تھے کہ خمینی کو ملک واپس آنے کی اجازت دے دیں اور بات چیت سے اختلافات دور کیے جایں۔ خمینی کو یہ خیراتی بخشش قبول نہیں تھی۔

شاہ پر قاتلانہ حملے کے کچھ دن بعد فرح نروس بریک ڈاؤن کا شکار ہو گیں۔ ایک رات انہیں کمرے سے باہر کچھ آوازیں سنائی دیں۔ باہر ایک نوجوان کا سایا نظر آیا جسے محافظوں نے دیوار کے ساتھ کھڑا کیا ہوا تھا۔ انہیں یقین تھا کہ وہ شاہ کے قتل کے ارادے سے آیا تھا۔ شاہ آئے اور اسے نیچے اپنے دفتر میں لے گئے جہاں گھنٹہ بھر اس سے بات چیت کی اور معاف کر کے جانے دیا۔ وہ کون تھا اور وہاں کیوں تھا یہ معمہ ہی رہا۔

queen Farah donating blood

فرح نے دو بچوں کی پیدائش کے بعد خود کو مصروف رکھنا شروع کر دیا۔ ”شادی سب کی زندگی میں تبدیلیاں لاتی ہے۔ میری زندگی میں بھی آئیں۔ پہلے سال تو میں مطمئن رہی لیکن میرے پاس کرنے کو کچھ نہیں تھا۔ میں وقت گزارنے کے لیے گاڑی چلاتی شیمران کی گلیوں میں گھومتی“۔ خود کو مصروف کرنے کے لیے فرح محل کے تہہ خانوں میں جا کر پرانی چیزوں کا جائزہ لیتیں۔ پھر فرح نے رفاہی کاموں میں بھی حصہ لینا شروع کیا۔ یتیموں اور لاوارث بچوں کی زندگیاں بہتر بنانے کے اداروں سے مل کر انہیں تعلیم، ہنر اور کام کے مواقع فراہم کرنے پر کام کیا۔ سماعت سے محروم اور جذام میں مبتلا افراد کی بحالی اور علاج کی سہولتیں مہیا کیں۔ بیرونی ملکوں سے ڈاکٹر بلائے اور مخیر افراد کی مدد سے ان علاج اور آپریشن ہوئے۔ مسلم معاشروں میں کسی کو خون دینے پر بھی اعتراضات اٹھائے جاتے تھے۔ فرح خود ایک اسپتال گئیں اور خون کا عطیہ دیا۔ ان کی خون کا عطیہ دیتے ہوئے ایک تصویر بھی شائع ہوئی۔ شاہ خود بھی رفاہی کام کرنا چاہتے تھے۔ لیکن سکیورٹی کے مسائل کی وجہ سے ان کی حرکات محدود ہوتیں۔ فرح ان کی نسبت زیادہ آسانی سے گھوم پھر سکتی تھیں۔ ”شاہ ہمیشہ مجھ سے پوچھتے کہ میرا دن کیسا گزرا اور میں نے آج کیا کام انجام دیے۔ ایران کی ترقی ان کی زندگی تھی۔ وہ بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔ رات گئے سونے سے پہلے وہ ایران ہی کی باتیں کرتے۔“

ایک امریکی اکتوبر 1967 میں ایران گیا اس سے پہلے بھی وہ جنگ عظیم دوم میں ایران جا چکا تھا۔ اس کا اب کہنا تھا ”تہران میں جہاں پہلے ایک یا دو منزلہ عمارتیں تھیں اور سڑکوں پر گھوڑا اور گدھا گاڑیاں چلتی تھیں اور گٹر ابل رہے ہوتے تھے، وہاں اب صاف ستھرے راستے تھے۔ شہر ماڈرن بن گیا تھا۔ اونچی عمارتیں تھیں۔ نئی کاریں تھیں۔ دکانوں پر گھریلو استعمال کی مشینوں کی بھرمار تھی۔ پھلوں کی بہتات تھی۔ جا بجا کباب کے ریستوراں تھے۔ انار کا تازہ جوس دستیاب تھا۔“ غیر ملکی مہمان یہ سب دیکھ کر شاہ کی کوششوں کو داد دیتے۔ تیل کی برآمد نے ملک کی معیشت کو مستحکم بنا دیا تھا۔

شاہ کا ماننا تھا کہ ایک دہائی تک اگر ترقی کی رفتار اسی طرح رہی تو نتائج ملنے لگیں گے۔ ایرانیوں کی اکثریت اور چند غیر ملکی مبصرین بھی یہ بات مانتے تھے۔ ایران کو ایک مستحکم پارلیمانی جمہوریت بننے میں کچھ وقت لگے گا۔ شاہ خود بھی یہ بات جانتے تھے کہ موجودہ صورت حال زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتی۔

1967 کے موسم خزاں میں شاہ نے ایرانی بادشاہت کی دو ہزار پچیسویں سالہ جشن اور تاج پوشی منانے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ اب ایران ایک نئی راہ پر گامزن ہے۔ اور اندرونی شورشوں، قاتلانہ حملوں، بغاوتوں اور انقلابوں کا وقت تمام ہوا۔ ”پہلے میں سوچتا تھا کہ جشن منانا ضروری نہیں لیکن اب مجھے ایران کی ترقی پر فخر ہے“۔ اس وقت شاہ کی عمر وہی تھی جو ان کی والد کی 1926 میں اپنی تاج پوشی کے وقت تھی۔ شاہ اس وقت سات سال کے تھے۔ اور اب شاہ کے ولی عہد شہزادہ رضا بھی سات سال کے تھے۔ شاہ کا خاندان ان کے لیے باعث مسرت تھا۔

ولی عہد رضا کے پیدائش کے بعد جلد ہی مارچ 1963 میں شہزادی فرح ناز دنیا میں آئیں۔ باپ اور بیٹی میں قریبی تعلق پیدا ہو گیا۔ ایک شام شاہ اپنے وزیروں کے ساتھ سعد آباد محل میں میٹنگ کر رہے تھے کی اچانک فرح ناز جن کی عمر ساڑھے تین سال تھی دروازہ کھول کر اندر آ گیں اور کہا ”بابا اب آپ کے آنے کا وقت ہو گیا“ شاہ نے نظرانداز کیا لیکن شہزادی اپنی آیا کی گرفت سے نکلا کر باپ کے لباس کو کھینچنے لگی۔ ”بابا آ جاؤ“۔ شاہ مسکرائے اور بیٹی کو لے کر کمرے سے باہر چلے گئے۔ اور سرگوشیوں میں اسے سمجھانے کی کوشش کی۔ شاہ وہ غلطیاں نہیں دہرانا چاہتے تھے جو ان کی بچپن میں ان کے ساتھ ہوئیں۔

جشن تاج پوشی کی تیاریاں سال بھر سے ہو رہی تھیں۔ ایران وہ کچھ دکھانا چاہتا تھا جو پہلے بہت کم کسی نے دیکھا تھا۔ نیو یارک ٹائمز نے رپورٹ کیا ”سات پرجوش دن اور سات روشن راتیں اس شخص کی شان میں جو اس ترقی کا ذمہ دار ہے“ سال کے شروع میں نجومیوں اور پشین گوئیاں کرنے والوں نے عوام کو کہا کہ شادی شدہ جوڑے امید سے ہو جائیں اور تاج پوشی کے وقت ان کی اولاد ہو تو یہ ایک خوش بختی ہو گی۔ ایران کو امید تھی کہ اس سال آبادی میں اضافہ ہو گا۔ عام دیہاتی لوگ شاہ کی سلامتی کی دعائیں کر رہے تھے ان کا کہنا تھا کہ شاہ نے ان کی زندگی بدل دی۔ ان کے پاس پانی کا کنواں ہے۔ ریڈیو ہے اور فریج بھی ہے۔ اسی سال کئی نئے اسکول اور اسپتال کھولے گئے۔ ان کے علاوہ کئی اور ترقیاتی منصوبوں کی بنیاد رکھی گئی۔ ملکہ نے شیراز میں ایک آرٹ سینٹر کھولا جہاں سالانہ آرٹ فیسٹیول منعقد ہوتے اور وہ جلد ہی سیاحوں کا مرکز نگاہ بن گیا۔

اپنی بیوی کی صلاحیتوں اور عوام میں پذیرائی دیکھتے ہوئے شاہ کو یقین ہو گیا کہ اب ایران اس تاریک دور سے نکال آیا اور کبھی وہاں واپس نہیں جائے گا۔ ستمبر 1967 میں شاہ نے اعلان کیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ اسمبلی آئین میں اس کی گنجائش نکالے کہ فرح کو حکمران نامزد کیا جائے۔ اگر وہ دنیا میں نہ رہے اور ان کا بیٹا کم سن ہو تو فرح ملک کی عنان سنبھالیں۔ اندرون ملک اور بیرون ملک میں اسے ایک ترقی پسند اقدام کہا گیا اور اسلامی دینا میں عورتوں کے حقوق کی آواز سمجھا گیا۔ لیکن رجعت پسندوں کو یہ بات پسند نہیں آئی۔ انہوں نے اس کی مخالفت کی کہ ایک جوان عورت کو جو لبرل بھی ہے اسے ملک کی باگ ڈور سونپی جائے۔ کابینہ میں اردشیر زاہدی نے کھل کر اس کی مخالفت کی زاہدی جو ایک وقت فرح کو ایران کے لیے مناسب اور بہترین ملکہ سمجھتے تھے اب انہیں فرح کے اثر و رسوخ سے اپنا مستقبل خطرے میں نظر آ رہا تھا۔ زاہدی نے کابینہ کی میٹنگ میں اس بل کو اڑا کے رکھ دیا۔ ”میں نے شاہ سے کہہ دیا کہ یہ ایک احمقانہ بات ہے۔ دوسرے وزیروں نے اس پر دستخط کر دیے لیکن میرے دستخط کے بغیر یہ کبھی بھی قانون نہیں بن سکتا تھا۔ کسی کو بھی یہ بات پسند نہیں آئی“۔ اسمبلی نے پھر بھی یہ بل پاس کر دیا اور شاہی وراثت کا نیا قانون بن گیا لیکن کچھ سخت شرائط کے ساتھ۔

26 اکتوبر 1967 میں تاج پوشی کے جشن کا آغاز ہوا۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ گلستان محل کے گرد جمع ہو گئے۔ سینکڑوں مہمان مرد سوٹ اور سیاہ ٹائی میں اور خواتین اپنے دیدہ زیب گاون اور جواہرات میں ملبوس تھیں۔ یہ تخت طاوس اور تخت نادری کا جشن تھا۔ پہلوی جوڑے کے عقب میں سینئیر رینک کے جنرل تھے۔ شمشیر اور پرچم اٹھائے سپاہی ان کے پیچھے۔ تاج پوشی کی رسم تہران کے امام جمعہ سید حسن امامی کی دعا سے ہوئی۔ شاہ کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ اس کے بعد شاہ کو قرآن پیش کیا گیا جسے شاہ نے بوسہ دیا۔ ایک سپاہی نے شاہ کو نیلے رنگ کا ’لبادہ‘ اوڑھایا اور تاج پیش کیا۔ شاہ اور ملکہ سکون سے بیٹھے رہے لیکن کم سن ولی عہد کرسی پر پہلو بدلتے رہے۔ چند خفیہ پنکھے نصب تھے اس کے باوجود شاہ کو تیز روشنیوں کی وجہ سے پسینہ آ رہا تھا۔ شاہ کی پہلی بیوی سے 27 سالہ بیٹی شاہناز پوری تقریب میں جذبات سے مغلوب ہو کر روتی رہی۔ شاہ نے تاج پہنا بالکل نیپولین اور جوزفین کے انداز میں۔

شاہ نے اپنی بیوی کے لیے نیا لقب بھی منتخب کر لیا تھا ’شاہ بانو‘۔ تاکہ وہ دوسری ملکاؤں سے منفرد رہیں۔ پہلوی تاج شاہ کے والد کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ یہ ایک ٹوکری کی شکل کا تھا۔ اس میں تین ہزار ہیرے اور موتی تھے۔ شاہ نے تاج سر پر سجایا تو“ جاوید شاہ ”کی صدائیں گونج اٹھیں۔ اس کے ساتھ ہی 101 توپوں کی سلامی بھی جو شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سنی جا سکتی تھیں۔ اب ملکہ کی باری تھی تاج پہننے کی۔ وہ مسند کے پاس آئیں۔ ایک مددگار نے انہیں کاندھوں پر ایک 26 فٹ لمبا لبادہ اوڑھایا جو سبز رنگ کا تھا جس کے کناروں پر ’مینک‘ تھا اور اس پر زمرد، ہیرے اور موتی ٹنگے ہوئے تھے۔ ملکہ کے شاہ کے سامنے جھکنے سے پہلے ایک تکیہ رکھا گیا۔ شاہ نے انہیں تاج پہنایا جو ہیرے، یاقوت، اور زمرد سے مزین تھا۔ فرح ایرانی تاریخ میں پہلی ملکہ بنیں جنہوں نے تاج پہنا۔ وہ اپنے آنسو پی رہی تھیں اور اس سے پہلے وہ کبھی اتنی شاندار نہیں لگیں۔ اس دن ملکہ اور ولی عہد مرکز نگاہ بنے رہے۔

آدھے گھنٹے کی تقریب کے دوران شہزادی فرح ناز اپنی طاوس رنگ کرسی پر بیٹھی ہمک رہی تھی۔ شاہ البتہ اپنے وزنی تاج اور بھاری لبادے اور یونیفارم سے تھک رہے تھے۔ دوپہر میں تین گھنٹے کی ملٹری پریڈ ہوئی۔ اور شام کو تمام مہمانوں کے لیے ایک شاندار دعوت کا انتظام تھا۔ رات گئے رودکی ہال میں اوپیرا تھا۔ اور آدھی رات کو آتش بازی کا خوبصورت نظارہ۔ شاہ کے شدید مخالف بھی اس کی تعریف کی تعریف کرنے پر مجبور ہو گئے۔

بیرون ملکوں سے آنے والے مہمان تاج پوشی کی تقریبات سے بہت متاثر ہو کر تہران سے روانہ ہوئے۔ (جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments