نیکی کا معیار اور گدی نشینی کا کاروبار
آج کسی کام کے لیے چھت پہ گیا تو ایک مسجد سے خطبے کی آواز آ رہی تھی، مولانا صاحب ایک حدیث کے اوپر بیان فرما رہے تھے کہ: ”جو اس دنیا میں جس سے محبت رکھے گا آخرت میں اس کا حساب کتاب اسی کے ساتھ ہو گا۔“
اس حدیث کی تشریح اور اس کا اطلاق مولانا صاحب نے اپنی فکر و عقیدت کے مطابق گولڑہ شریف کے گدی نشینوں پہ ان الفاظ میں کیا کہ: ”جو یہاں بابو جی (گولڑہ شریف کے سابقہ گدی نشین) سے محبت کرتا ہے اسے آخرت میں بھی انھی کے ساتھ اٹھایا جائے گا“ ۔
یہ حدیث بلاشبہ نیک اعمال کرنے والوں اور صالحین سے محبت کے حوالے سے ہے لیکن کیا نیک اور صالح فقط گدی نشین ہیں؟
وہ شخص جو انسانیت کی خدمت کر رہا ہے، کوئی فلاحی تنظیم، کوئی بلڈ بینک یا ایمبولینس سروس چلا رہا ہے، ایسے علاقے جہاں تعلیم کی سہولت نہیں وہاں سکول کھول رہا ہے، قحط زدہ علاقوں میں پینے کا صاف پانی پہنچا رہا ہے، بھوکے کو کھانا کھلا رہا ہے، کیا وہ نیک نہیں؟
وہ لیگل ایڈوائزر یا وکیل جو مظلوموں کو مفت انصاف دلانے کے لیے کوشاں ہے وہ کس کھاتے میں ہے؟
مولانا صاحب کی مثال اپنی جگہ درست ہے لیکن مجھے محض اتنا سا اعتراض ہے کہ اس کا براہِ راست فائدہ آج کے اس گدی نشینوں کو ہو رہا ہے جو گدی نشینی اور مذہب کی آڑ میں ایک استحصالی قوت بن چکا ہے، جو اپنے سادہ لوح مرید کو ایک ووٹ سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتا، جس کو کسی سادہ لوح مرید کے ووٹ اور انھی جیسے کسی مولانا صاحب کی تقریر نے تقویت پہنچا پہنچا کہ اسد شاہ (سندھ کا ایک ظالم گدی نشین جس نے اپنی معصوم سی نوکرانی کو درندگی کا نشانہ بنایا) بنا دیا۔
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ گدی نشینی آج باقاعدہ ایک کاروبار کی شکل اختیار کر چکی ہے، یہ پیر خانے گدی نشینی کے ذریعے سے معاشی استحصال اور ذاتی دولت میں اضافہ کر رہے ہیں، اس کے لیے آپ فقط گدی نشین اور اس کے مرید کے معیارِ زندگی کا موازنہ کر لیں آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ یہ کتنا بڑا کاروبار ہے، گدی نشین کے پاس کتنی اور کون سی گاڑیاں ہیں اور مرید کا ذریعہ آمد و رفت کیا ہے، مرید کا لباس کیسا ہے اور گدی نشین صاحب کون سا لباس زیبِ تن کیے ہوئے ہیں؟ مرید کے گھر کیا کیا سہولیات زندگی ہیں اور ہدی نشین صاحب کے گھر کیا کیا؟
ایک زمانہ تھا جب خانقاہ مزاحمت، حریت اور محبت کا مرکز سمجھی جاتی تھی آج سوائے چند کے باقی خانقاہیں اور پیر خانے فقط عرس، لنگر، قوالی اور چندہ باکس تک محدود ہو گئے ہیں، حالانکہ انگریز سامراج کے خلاف جد جہد میں خانقاہوں کی ایک تاریخ ہے، لیکن آج وہاں نہ تو ظلم و نا انصافی سے لڑنے کا کوئی پیغام ملتا ہے، نہ ہی حقیقی اسلام کی تبلیغ اور محبت، شاید اسی چیز کو محسوس کرتے ہوئے علامہ اقبال بھی گویا ہوئے کہ:
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے نم ناک
نہ زندگی نہ محبت نہ معرفت نہ نگاہ
ان چیزوں سے ہٹ کر اگر برِصغیر میں گدی نشینی کے سیاسی کردار اور اثر و رسوخ کے بارے بات کی جائے تو اس کی ایک طویل تاریخ ہے، جو بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق مغلوں کے دور سے شروع ہوتی ہے، مغلوں نے ملتان میں گورنر کے لیے ہمیشہ یہاں کے گدی نشین خاندان (قریشی خاندان) پہ اعتماد کیا اور انھیں جاگیریں عطا کیں، یہ سلسلہ انگریز دور میں بھی جاری رہا اور انھوں نے سیاسی مقاصد کے لیے کئی گدی نشینوں کو مغلوں سے بھی بڑھ کے نوازا۔
انتخابی سیاست کی بات کی جائے تو اے آئی ٹالبوٹ اپنے تحقیقی مقالہ ”دی 1946 پنجاب الیکشن“ میں لکھتے ہیں کہ پیروں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا کیونکہ دیہات میں ان کے متعدد پیروکاروں پر یہ بے پناہ روحانی اور دنیاوی غلبہ رکھتے تھے، لیگ نے اپنی سب سے بڑی انتخابی کامیابی ملتان، جھنگ، جہلم اور کرنال جیسے اضلاع میں حاصل کی، جہاں اسے سرکردہ پیروں اور سجادہ نشینوں کی حمایت حاصل تھی۔
انتخابات جیتنے کی لیے یہ طرز عمل فقط آل انڈیا مسلم لیگ کا نہیں رہا بلکہ اس سے پہلے 1937 کے انتخابات میں ”یونینسٹ پارٹی“ جیسی سیکولر کہلائے جانے والی جماعت نے بھی انتخابات میں زیادہ سے زیادہ نشستیں جیتنے کے لیے چودہ سرکردہ سجادہ نشینوں سے رابطہ کیا، اُن میں سے چند قابلِ ذکر سجادہ نشین اور درگاہیں یہ تھیں : درگاہ پاکپتن کے سجادہ نشین، پیر تونسہ شریف، پیر سیال، پیر گولڑہ، پیر فضل شاہ، پیر مکھڈ، پیر سلطان باہو، پیر مُرید حسین قریشی اور پیر جماعت علی شاہ وغیرہ۔ ان سجادہ نشینوں کی حمایت کا نتیجہ یہ نکلا کہ دیہی مسلم کی 75 نشستوں میں سے 73 نشستیں یونینسٹ پارٹی نے جیت لیں۔
اس سلسلے میں ایک حیران کن بات یہ ہے کہ یہ سلسلہ محض ووٹ تک محدود نہیں رہا بلکہ 1946 کے انتخابات سے پہلے آل انڈیا مسلم لیگ نے مذہبی ووٹ بینک رکھنے والے افراد کی ایک فہرست تیار کی، جسے ”مشائخ کمیٹی“ کا نام دیا گیا اور ان سے آل انڈیا مسلم لیگ کو ووٹ دینے کے حق میں فتاویٰ دلوائے گئے۔
یہ سلسلہ آج بھی بڑے زور و شور سے جاری ہے، آج ہماری مرکزی و صوبائی اسمبلیوں میں کئی گدی نشین و مذہبی ووٹ بینک رکھنے والے افراد موجود ہیں، جن میں ملتان سے تعلق رکھنے والے سید یوسف رضا گیلانی ان کے تین بیٹے، پی ٹی آئی کے سر کردہ لیڈر شاہ محمود قریشی صاحب اور کے بیٹے، فیصل صالح حیات اور تونسہ شریف سے تعلق رکھنے والے ”خواجہ“ حضرات وغیرہ۔
اس ساری مغز ماری کا مقصد صرف آپ کو یہ پیغام دینا ہے کہ ووٹ خالصتاً ایک عقلی چیز ہے، جس کے لیے کارکردگی، قانون سازی، حلقہ کی عوام کی خدمت، صوبے و مرکز سے اپنے حلقے کا حق دلانا، تعلیم صحت، پانی بجلی وغیرہ کی سہولیات وہ معیار ہیں جن کی بنیاد پہ ووٹ دیا جائے نہ کہ عقیدت و جذبات سے لبریز ہو کر۔
دوم یہ کہ ہمیں اب نیکی کے معیار بدلنے ہوں گے، لازمی نہیں کہ ایک مذہبی بندہ ہی نیک اور اچھے اعمال والا ہو ایک داڑھی منڈا، غیر مذہبی شخص بھی نیک اور صالح ہو سکتا ہے، بلکہ معیار تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پہلے ہی طے کر دیا ہے :
لوگوں میں اچھا وہ ہے جو لوگوں کو فائدہ پہنچانے والا ہو۔ ”(المکتبة الشاملة 44154 )
یاد رہے اس حدیث میں ”خیر الناس“ کے الفاظ ہیں ”خیر المسلمین“ کے نہیں۔
- ماہ رنگ کی خاموشی اور ڈوبنے والے کا مذہب - 29/08/2024
- اقبال کا خط اور دوسری طرف کا آرگومنٹ - 22/08/2024
- دھرو راٹھی اور پاکستان بھارت معاشرے کا موازنہ - 21/08/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).