بریانی، اُبلے انڈے اور تنقیدی شعور


Loading

امی یاد ہے آپ کو جب ہم مختلف تہواروں پہ ہونے والی دعوتوں میں جایا کرتے تھے۔ ہماری بیٹی چہک رہی تھی۔
ہاں بالکل۔ کیا دن تھے وہ بھی۔ خواب ہوئے اب تو۔ ہم نے اداس ہوتے ہوئے کہا۔
مزے کی بات بتاؤں؟
بتاؤ۔
کبھی کبھار ایسی دعوت بھی ہوتی تھی جہاں بہت مزیدار بریانی بنی ہوتی تھی مگر۔ ۔ ۔
مگر کیا؟

خوب لوازمات والی بریانی کے اوپر ابلے ہوئے انڈوں کی سجاوٹ۔ اف۔ بریانی بے چاری کا کنیا دان۔ بیٹی ہنستی جا رہی تھی۔

ہم بھی ہنس پڑے۔
پتہ ہے یہ کیوں ہوتا ہے؟
کیوں؟ ہم نے پوچھا۔

بنانے والی آنٹی کو مصالحے دار بریانی بنا کر بھی یقین نہیں ہوتا کہ زبردست ہے، بے اعتمادی چین نہیں لینے دیتی۔ وہ کچھ اور چاہتی ہیں، کچھ بہت اچھا کرنے کی خواہش، اور یہی خواہش بریانی پر اُبلے انڈوں کی گارنشنگ کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔

ہمم۔ تشخیص تو درست ہے تمہاری۔ وہ اصل میں خود کو روکنا نہیں آتا نا۔ کام مکمل کرنے کے بعد بریک ضرور لگانی آنی چاہیے۔

واہ۔ تشخیص کا تجزیہ تو آپ نے بھی درست کیا ہے۔ وہ ہنسی۔
ہم اس وقت میں من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو ہیں۔ ہم ہنسے۔
افوہ۔ اب اتنی گاڑھی زبان نہ بولیں۔ وہ منہ بناتے ہوئے بولی

اچھا یہ بتاؤ کہ یہ بریانی اور ابلے ہوئے انڈوں کی تشبیہ کیسے اور کیوں آئی تمہاری کھوپڑی میں؟ ہم نے پوچھا۔

وہ۔ آپ نے جو اضافہ کیا ہے نا خیر سے۔ اس سے یہ تشبیہ دینے کو جی چاہا۔ بیٹی بولی
کیسا اضافہ؟ کس میں اضافہ؟ ہمیں کچھ یاد نہیں آیا۔
وہی۔ آپ کے ناول کا اختتام۔
کیا ہوا اختتام کو؟ ہم نے بے چینی سے پوچھا۔
پچھلے ہفتے تک بریانی تھا۔ اس ہفتے ابلے ہوئے انڈے سج گئے ہیں اس پر۔ وہ کندھے اچکاتے ہوئے بولی۔
ہمیں بات پلے نہ پڑی۔

امی۔ رائٹر جب بھی کوئی چیز لکھتا ہے بے شک اسے قاری کو جھٹکا دینے میں مزا آتا ہے لیکن جھٹکا دینے کا بھی ایک اصول ہوتا ہے۔ کتنے اور کیسے؟ آپ چیزوں کو overdo نہیں کر سکتے۔ رائٹر کو سمجھنا ہوتا ہے کہ کب قلم کو روکنا ہے؟ یعنی کہاں سے اور کب بریانی کا ستیا ناس ہونا شروع ہو جائے گا؟

اوہ۔ مطلب یہ ہے کہ۔ ہم نے ہونٹ سکوڑے۔

جی۔ مطلب یہ ہے کہ پچھلا اختتام بہت امپریس کر دینے والا تھا لیکن آج جو آپ نے اس میں اضافہ کیا ہے اس نے اس کی خوبصورتی کم کر دی ہے۔ آپ کا قلم کچھ زیادہ چل گیا۔

تو کیسے پتہ چلتا ہے کہ رکنا ہے؟ ہم نے بدھو بن کر سوال کیا۔

جب بریانی کا رنگ، خوشبو، شکل اچھی لگنے لگے اور چکھنے میں ذائقہ بھی بھرپور ہو۔ بس وہ ہے رک جانے کا اشارہ۔ جب کہانی کے کرداروں کے پاس مزید کچھ اور کہنے کو نہ رہے، جب ہر چیز میں توازن نظر آنے لگے، جب بات کی بہت سی پرتیں بن جائیں اور ہر ایک کی گہرائی مختلف ہو۔ کافکیسک انداز تحریر کو بھی کچھ نہ کچھ قابل فہم تو ہونا چاہیے نا۔

جناب۔ یہ تھی گفتگو جو ہماری تحریر کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے ہماری صاحبزادیوں نے فرمائی۔ مشکل یہ ہے کہ دونوں اس راہ کے پیچ و خم سے خوب واقف ہیں کہ اوڑھنا بچھونا ہی یہی ہے ان کا۔

بڑی نیویارک ٹائمز سے وابستہ ہیں اور چھوٹی پینگوئن سے۔ سو ہم کچھ بھی لکھیں، ہماری خواہش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح پکڑ دھکڑ کر انہیں سنا دیا جائے۔ گو وہ قابو کم ہی آتی ہیں لیکن کب مہربان ہو جائیں، یہ کون جانتا ہے۔

ناول لکھا ہے ہم نے، زندگی کے آس پاس۔ اور اس کے اختتام کے بخیے کیسے ادھیڑے گئے، یہ آپ نے پڑھا۔ زخموں پہ ہلدی تیل لگا کر اور کچھ غم منا کر فارغ ہوئے تو سوچا دیکھ ہی لیا جائے، ہم نے بریانی پر ابلا ہوا انڈا کب رکھا؟ دو تین بار پڑھ کر ہمیں ان کی بات سمجھ آ گئی اور ہم نے ابلے ہوئے انڈے ڈسٹ بن میں ڈالتے ہوئے بریانی کو بریانی کے حال پر چھوڑ دیا۔

ادب میں تنقیدی شعور کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ رائٹر خالق کی کرسی پہ بیٹھ کر بہت کچھ ایسا بھی کر دیتا ہے جو تخلیق کو بھدا کر دے۔ ایسے وقت میں نقاد کچھ فاصلے پر کھڑے ہو کر کچھ مختلف لینز لگا کر اور زاویہ بدل کر اس تخلیق کو دیکھتا ہے اور فوراً جان لیتا ہے کہ کہاں سے مزید گھسائی / رگڑائی نکھار لانے کا ذریعہ بن سکتی ہے اور لذت کوشی کے راستے اُبلے انڈے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments