”چُپ رہا نہیں جاتا“ کے چُپ چاپ مصنف کی گُل افشانی پرایک نظر


اگر آپ میری طرح طنزو مزاح نگار محمد عثمان جامعی سے بخوبی واقف ہیں تو اُس کی کسی بھی کتاب پر تبصرہ کرنے کے لیے پوری کتاب پڑھنی ضروری نہیں۔ یہ فتویٰ خاکسار نے بہت سوچ سمجھ کر صادر فرمایا ہے، مگر براہِ کرم آپ اسے اپنے حق سند سمجھتے ہوئے، ”مُفتہ“ مت طلب کیجئے گا، کیونکہ ہر ”مُفتہ“ پا نے والا، باقاعدہ مُفتی نہیں ہوتا۔

عثمان کی طنزیہ نگارشات میں شعوری محنت کار فرما ہے جو اَپنے قارئین کو بخوبی مرعوب کرنے کا باعث بن چکی ہے، مگر اس کا مزاح کسی دل کش پھولوں سے سجے، خود رَو پودے کی طرح فطری اور بہتے پانی کی طرح رَواں ہے۔ اچھی بلکہ قابلِ ذکر و لائقِ تقلید بات یہ ہے کہ وہ شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتا؛ یہ نکتہ بہت سے مشاہیر بھی نہیں جانتے ( اور جاننا بھی نہیں چاہتے ) ۔ عثمان جامعی کے نثری فن پاروں میں ”بڑی سرکار“ کا ذکر بلکہ اُس کی شان میں گستاخی اتنے تواتر سے ہوتی ہے کہ مجھے کئی بار شک ہوتا ہے کہ کہیں یہ خود بھی اُسی کا آدمی تو نہیں۔ کیونکہ وکٹ کی دونوں جانب ایک ہی پارٹی کھیل رہی ہے اور اُس کے خلاف لکھنے والے بھی درحقیقت اُسی کے اپنے ہوتے ہیں ؛ مگر خیر۔ پانچوں انگلیاں برابر ہوتی ہیں نہ چھوٹے سے فلیٹ میں رہنے والا ہر بیباک شخص، قائد، لیڈر، رہنما یا پِیر بنایا جاسکتا ہے۔ اس لیے مطمئن رہیں، عثمان واقعی عوام کا ”غیر منتخب“ نمایندہ ہے (منتخب تو ”وہ“ کرتے ہیں نا) ۔ عثمان کے یہاں ’عالیہ‘ اور ’عظمیٰ‘ کی شان میں قصیدہ خوانی بھی بکثرت ملتی ہے، حالانکہ ان دونوں سے اُس کا دور دور کا واسطہ نہیں!

کوچہ صحافت کی ”لیفٹینی“ سے لے کر ”کپتانی“ تک اور پھر ادبی دنیا میں چھوٹے موٹے ”جرنیل“ بننے تک، عثمان جامعی کا سفر بہ سرعت تمام طے ہوا ہے۔ کاش میں اس کی طرح اتنے سنگِ میل بلکہ سنگ ہائے میل اتنی جلدی جلدی عبور کر لیتا۔ حالانکہ میں اس سے مدتوں پہلے کا ”راہ نورد“ ہوں۔ اسی لیے کہتے ہیں، ”یہ رتبہ بلند ملا، جس کومل گیا“ ۔

جہاں تک طنز و مزاح یک جا کر کے کچھ کہنے کی بات ہے تو ”چُپ رہا نہیں جاتا“ کے مصنف کے ایسے نثر پارے اُس کے ’لفظ تراش‘ بلکہ افسانہ طراز ہونے کی گواہی دیتے ہیں :

”اس لیے جب بھی کوئی کہتا ہے ’سال ِ نو مبارک‘ ، ہم سوچنے لگتے ہیں کہ پورے نو ( 9 ) عدد سالوں کا ہونا کس بہنوئی کے لیے قابل ِ مبارک باد ہو سکتا ہے؟ اگر اَپنی شادی کے وقت سالے غیر شادی شدہ ہیں تو بندہ پوری نو باراتیں، ولیمے، مہندیاں بھُگتنے اور دعوتیں کرنے کے لیے کمر کسے ر ہے، یعنی حالت یہ ہو جائے کہ

اِک اور ’سالے‘ کا سامنا تھا مُنیر مجھ کو
میں ایک ’سالے‘ کے پار اُترا تو میں نے دیکھا

اور بہنوئی اپنی حالت پر ترس کھا کر کہتا رہے :
اتنے ’سالوں‘ میں بٹ گیا ہوں میں
میرے حصے میں کچھ بچا ہی نہیں

یہ تو صرف سالے ہوئے، سالیوں کا شمار الگ ہے۔ بہرحال بڑے عرصے کے بعد ، ہم پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ ’سالِ نو‘ کا سالے سے کوئی تعلق نہیں ”۔ کہیے کیسا لگا ’چیختی چنگھاڑتی خوشی‘ کا یہ اقتباس؟

طنز اکیلا ہوتو عموماً اس کا گہرا اور مؤثَر ہونا مشکوک ہوتا ہے۔ مصلحت کا تقاضا ہے کہ ایسی صورت میں اپنے ہدف کا نام ظاہر نہ کیا جائے، مگر جب قلم عثمان جامعی جیسے ’شمشیرِ برہنہ بکف‘ نثر نگار کے ہاتھوں میں ہوتو مصلحت گئی بھاڑ میں :

”اسی طرح گھی کے نرخ بھی اس لیے بڑھانے پڑے کہ مُلک میں گھی کی کمی ہو گئی ہے، چونکہ تحریک ِ انصاف کی انتخابات میں کامیابی کا گھی، ٹیڑھی انگلی سے نکالا گیا تھا اور پھر اُنگلی بھی امپائر کی تھی۔ امپائر سیدھی انگلی دِکھانے کا عادی ہے، اُسے انگلی ٹیڑھی کرنے کی عادت نہیں، سو ٹیڑھی انگلی سے نکالتے ہوئے بہت سا گھی ضائع ہو گیا، پھر جب نئی حکومت آئی تو مُلک بھر میں گھر گھر، گھی کے چراغ جلائے گئے، اُن دنوں ’کہیں دِیپ جلے، کہیں دل‘ کا منظر تھا۔ اور اِس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ اس چراغاں میں ٹَنوں کے حساب سے گھی کام آ گیا۔ حکومت کے معاشی اقدامات کے باعث، عوام کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں ہے۔ انگلیاں پڑنے کی وجہ سے ناپاک ہو جانے والا گھی کسی کام کا نہیں، سو گھی کی قلّت ہو گئی“ ۔ ( ’بجٹ، عوام دوست۔ مگر نادان دوست‘ )

لفظوں سے کھیلنا اور بات سے بات نکالنا اچھے مزاح نگار اور مزاح گو کا بنیادی وصف ہوا کرتا ہے۔ عثمان میں یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیں :

”یعنی جب بھی صارفین ’کے ای‘ کی کارستانیوں کا شکوہ کریں تو ’کے ای‘ کہتے ہی جواب ملتا ہے ’کیہ اے۔ چُپ کر، مٹّی پا!‘ بھئی حکمراں اور نیپرا کے حکام بھی کیا کریں کہ جب بھی کے الیکٹرک کو کچھ کہنا چاہیں، وہ پلٹ کر بڑی اَدا سے کہتی ہے ’بجلی بھری ہے میرے انگ انگ میں، جو مجھے (مجھ کو ) چھوئے گا، وہ جل جائے گا‘ ۔ یہ سُنتے ہی۔ سے لپٹ جاتے ہیں، وہ بجلی کے ڈر سے اور ایک دوسرے سے لپٹ کر شاکی عوام سے کہہ دیتے ہیں، خود ہی نمٹ لو، مارے (ہمارے ) بس کا نہیں (نہیں ) ہے“ ۔ ( ’کے الیکٹرک: سرکا رکے ہر کار میں خودکار شریکِ کار‘ )

محوّلہ بالا تحریر میں ایک جگہ انھوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ ”لیکن ایک اور خدشہ اِس معاملے میں، کے الیکٹرک کی انتظامیہ کو زیادہ پریشانی میں مبتلا رکھتا ہے، وہ یہ کہ بجلی بی بی، راستہ بھٹک کر ’غلط ہاتھوں‘ میں پہنچ گئیں تو پانی کے ٹینکروں کی طرح، کراچی میں بجلی کا کاروبار بھی کسی ’سرکاری ادارے‘ کی نجی تجارت نہ بن جائے“ ۔ یہاں رُک کر ایک بات اپنے دوست کی معلومات کے لیے کہنا چاہتا ہوں کہ کے الیکٹرک کا فتنہ پرور اور فتنہ ساز ادارہ، درحقیقت ’ادارے‘ کی براہ ِ راست نگرانی میں چل رہا ہے اور اِس بابت کوئی بھی کھُل کر کوئی احتجاج تک نہیں کر سکتا، چہ جائیکہ کوئی قانونی اقدام۔ لمبی چوڑی تفصیل سے قطع نظر، اگر یہاں نجی معلومات کا خلاصہ بھی پیش کروں تو ممکن ہے کہ راقم بھی کہیں ’فراموش شدگان‘ کی فہرست میں شامل ہو جائے۔

عثمان جامعی کی اس کتاب میں پچھلی نثری کتب میں رہ جانے والی کوئی بھی کسر باقی نہیں چھوڑی گئی۔ ایک مضمون ہے ”اگر اُس دور میں ٹی وی چینل ہوتے۔“ اس نگارش میں تقسیم ِہند سے قبل کی صورت حال کے، اس مفروضے کی روشنی میں بخیے اُدھیڑے گئے ہیں کہ اگر اُس دور میں ٹیلیوژن چینلز ہوتے تو کیا کیا ہو سکتا تھا۔ اب ذرا یہ اقتباس دیکھیے اور پہچان پر ناز ہو تو پہچان جائیں کہ کس ’علامہ‘ نُما ڈاکٹر صاحب کا ذکر ہے :

” بابا قیامت والے! کیا آپ پاکستان بنتا دیکھ رہے ہیں؟

کیسا پاکستان۔ یعنی کیسے بنے گا پاکستان۔ یعنی سمجھ میں نہیں آ رہا۔ یعنی میری سمجھ میں نہیں آ رہا۔ یعنی عجیب بات ہے۔ سب کچھ دھبڑ دھوس (دھونس) ہونے والا ہے، قیامت آنے والی ہے۔ اس سے پہلے ملِکہ برطانیہ کی فوج اقتدار سنبھال لے گی، یعنی پاکستان کیسے بنے گا؟“

”چُپ رہا نہیں جاتا“ کے چُپ چاپ مصنف کی گُل افشانی کی کیا کیا مثالیں پیش کروں۔ ایک نمونہ یہ بھی ہے :

”جب آم کی طلب بڑھے گی تو لازمی طور پر اُس کی قیمت میں بھی اضافہ ہو گا، مگر آم مہنگے ہونے میں حکومت کا کوئی قصور نہیں ہو گا، کیونکہ ’انصاف‘ کی بات ہے کہ مہنگائی پچھلی حکومت کے کرتوتوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ نئے پاکستان کی نئی معاشیات کا سبق بھی یہی ہے، تو بات یہ ہوئی کہ آم میٹھے موجودہ حکومت کی وجہ سے ہوں گے اور مہنگے، پچھلی حکومت کی وجہ سے“ ۔ ( ’اب کی آم زیادہ میٹھے ہوں گے‘ )

ایک اور نمونہ نقل کرنا بھی ناگزیر ہے :

”دَراَصل ہمیں بھی میرزا غالبؔ کی طرح آم بہت پسند ہیں، انھیں تو خیر ’جام‘ سے بھی بڑی رغبت تھی، لیکن جیب کی تنگی اور قانون کی تنگ نظری نے ہمیں اِس جانب راغب نہیں ہونے دیا۔ یوں ہمیں اپنے آپ ہی سے یہ سبق ملا کہ تقویٰ اور تنخواہ میں کتنا گہرا تعلق ہے۔ ساغرؔ صدیقی نے شاید یہی کہا تھا ناں، آؤ اِک سجدہ کریں عالمِ مجبوری میں +لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔ کو خُدا یاد نہیں تو ہم نے بھی عالمِ مجبوری کو کِردار کے باعث معذوری کا نام دے کر غالبؔ کی مے نوشی کی بجائے اُن کی ’مینگو چُوسی‘ کے شوق ہی پر اِکتفا کیا“ ۔

”چُپ رہا نہیں جاتا“ 585 صفحات کی کتاب ہے جسے محض چکھ کر بھی مفصل مضمون لکھنا محال ہے، بہرحال خاکسار نے اپنی سی سعی کی ہے۔ مجھے تو دوستی کی بِناء پر مفت میں کتاب مل گئی ہے، مگر ہر کوئی اِس منفرد ادیب، صحافی و شاعر کا دوست نہیں ہو سکتا، اس لیے ناقدین و قارئین کرام کو چاہیے کہ کتاب خرید کر پڑھیں اور دیکھیں کہ بظاہر کم گو مصنف نے کیا کیا کہہ دیا، لکھ دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments