چین پاکستان میں صنعت کی منتقلی اور بجلی کے معاملات کو کیسے دیکھ رہا ہے؟


Loading

بیجنگ میں ملاقات کے آغاز میں ابھی رسمی جملوں کا تبادلہ ہی ہوا تھا کہ میرے چینی میزبانوں نے میرے سامنے جنوری دو ہزار اکیس کے اس خط کی کاپی رکھ دی جو میں نے جیل سے پیشی پر آئے ہوئے اس وقت کے اسیر قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو چینی قونصل جنرل کی جانب سے پہنچایا تھا اور اس وقت شہباز شریف نے وہ خط کمرہ عدالت میں بھی پڑھ کر سنایا تھا کہ مجھے اسیر کیا ہوا ہے جبکہ دنیا میری کارکردگی کی معترف ہے۔ میں سوالیہ نگاہوں سے اپنے میزبانوں کو دیکھنے لگا تو ان میں سے ایک بولا کہ آپ کا اس وقت بھی اس پر ہم نے شکریہ ادا کیا تھا اور اب بھی ہماری بات سے، سوچ سے ہمارے پاکستانی بھائیوں کو آپ آگاہ کیجئے کہ چین ہمہ وقت پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوا ہے۔ چینی اس پر بہت فکر مند ہیں کہ پاکستان کی معاشی صورتحال میں بجلی کی قیمتوں نے ایسا چیلنج قائم کر دیا ہے کہ اس کے باوجود کے گزشتہ چند ماہ میں مختلف اشیا کی قیمتوں میں کمی آئی ہیں مگر بجلی کی قیمت جس برق رفتاری سے بڑھ رہی ہے وہ اس کمی کو عوام کو محسوس نہیں ہونے دے رہی ہے۔

چینی اس پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان میں بجلی کے پیداواری یونٹس کو ٹھیک لگایا گیا تھا اور اس وقت یہ خیال تھا کہ گھریلو صارفین سے ہٹ کر جب انڈسٹری کو بجلی کی ضرورت ہوگی تو اس وقت اتنی بجلی موجود ہونی چاہیے۔ مگر ہوا یہ کہ پاکستان میں وہ چینی انڈسٹری منتقل ہی نہ ہو سکی جس نے اس بجلی کو استعمال کرنا تھا اور اس منتقل نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے جو انڈسٹریل زونز قائم کیے ہیں ان میں بنیادی ضروریات جیسے بجلی، پانی، گیس وغیرہ تک موجود نہیں ہیں۔ سڑکیں تک تعمیر نہیں کی جا سکی ہیں۔ چینی اس کے مقابلے میں ویت نام کی مثال دیتے ہیں کہ اس ملک نے انڈسٹریل زونز کو معیار کے مطابق تعمیر کیا اور ہم نے وعدے کے مطابق انڈسٹری ویت نام میں منتقل کردی اگر پاکستان بھی ایسا کر لیتا یا اب کر لے تو انڈسٹری لگ جائیں گی اور بجلی کی قیمتوں کا بحران از خود ہی ماضی بن جائے گا ورنہ یہ تو ممکن نہیں ہے کہ آپ کسی سے بجلی میں سرمایہ کاری کروائے، اور آپ اس سے بجلی صرف سال کے چند ماہ خریدے اور وہ پیداواری یونٹ کے تمام اخراجات کسی کمائی کے بغیر سارے سال ادا کرتا چلا جائے، یہ کیسے ممکن ہے؟

سی پیک کے صرف دوسرے مرحلے کا ہی نہیں بلکہ ہر مرحلہ کا آغاز سے تکمیل تک چین چاہتا ہے مگر پاکستان کو مزید قرضے دینے یا سرمایہ کاری کرنے کے معاملہ میں وہ یہ دیکھ رہا ہے کہ پاکستان اس کو واپس کیسے کریں گا۔ پاکستان نے تو ابھی تک پہلے مرحلے کے پیسے واپس کرنے کی صلاحیت ہی حاصل نہیں کی ہے۔ ابھی تک ایم 8 کو مکمل نہیں کیا جا سکا ہے۔ گوادر پورٹ اور گوادر ائر پورٹ مکمل نہیں ہوا ہے۔ گوادر پورٹ اور ائر پورٹ کے مابین سڑک تک نہیں بنائی گئی ہے۔

اب تک تو گوادر سے چین تک سڑک تعمیر ہونی چاہیے تھی مگر نہیں ہو سکی۔ اب شاہراہ قراقرم تو اس سب کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتی ہے۔ اگر پاکستان گوادر بندر گاہ کو فعال کر دیتا، سڑکیں منسلک کر دیتا تو اس کو اتنا محصول چونگی حاصل ہونا تھا کہ وہ با آسانی قرضے واپس کرنے کی حالت میں آ جاتا مگر ایسا نہ ہو سکا۔ چین میں یہ تصور مضبوط ہوتا جا رہا ہے کہ پاکستان کا پلاننگ کمیشن یہ صلاحیت ہی نہیں رکھتا ہے کہ وہ اتنے بڑے منصوبے کے لئے منصوبہ بندی کر سکے۔

چین تو ابھی تک معاملات کو بہت آگے کی نظر سے دیکھ رہا ہے۔ وہاں یہ تصور ہے کہ پاکستان اپنے ہمسایہ ایران سے تجارتی تعلقات کو بہت تقویت دے اور پاک ایران ریلوے لنک قائم کیا جائے جو کہ دونوں ممالک کی سرحد کو مکمل طور پر چھوتی ہوئی گوادر تک آئے۔ چین تو اس کے لئے سرمایہ کاری تک کرنے کے لئے تیار دکھائی دیتا ہے۔ چینی شہریوں کے قتل کے واقعات پر بھی وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی انڈیا پر الزام عائد کرتے ہیں مگر وہ کوئی ثبوت چین کو نہیں دکھا پاتے ہیں کہ اس سب کا ماسٹر مائنڈ انڈیا ہے۔ محض الزام دھرنے سے تو کچھ نہیں ہوتا ہے اور یہ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہمارے شہریوں کی حفاظت کرے۔ بات درست ہے مگر اس نکتہ پر میں نے چینی دوستوں سے کہا کہ چین اور پاکستان دونوں معاشی دوستی سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور اس وقت اس کو روکنے کے لئے چینی شہریوں کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ چین کو چاہیے کہ وہ اس ضمن میں پاکستان کے اداروں کی صلاحیت میں اضافہ کرنے کی ذمہ داری کو پورا کرے۔ وہ صرف شکایات کر کے لا تعلق نہیں رہ سکتا ہے یہ تو مل کر ہی ہو گا۔

پاکستان کوئی آپریشن کرتا ہے تو اس کی ایک معاشی قیمت ہوگی جو تنہا پاکستان کو نہیں چکانی چاہیے چین اس میں حصہ دار بننا چاہیے اور عالمی سطح پر بھی اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرنا چاہیے۔ ویسے چینی اس بات کو واضح طور پر کہہ رہے ہیں کہ ہم نے کسی آپریشن کی فرمائش نہیں کی ہے یہ آپ کا فیصلہ ہے۔ چین امریکہ کے حوالے سے بھی معاملات کو اور نظر سے دیکھ رہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ پاکستان امریکہ کو سفارت کاری کے ذریعہ سے قائل کرے کہ پاکستان، چین اور امریکہ کو مشترکہ طور پر بیٹھنا چاہیے اور باہمی مشترکات کو تلاش کرتے ہوئے اختلافات کا حل تلاش کرنا چاہیے جو کہ ممکن ہے۔

جب میں نے یہ کہا کہ چین امریکہ کو ساتھ بٹھانے کے لئے امریکہ سے بات کیوں نہیں کرتا ہے تو انہوں نے کہا کہ معاملات آپ کے ملک میں گڑبڑ ہے۔ پاکستان کے امریکہ سے بھی پرانے دیرینہ تعلقات ہیں میں نے لقمہ دیا کہ امریکہ سے پاکستان کا سب سے بڑا اقتصادی تعلق بھی ہے اور پاکستان کے بہترین مفاد میں ہے کہ اس کی ان دونوں ممالک سے دوستی مزید مضبوط ہو تو چینی بھی اس سے متفق نظر آئے۔ پاکستان کی سفارتی مہارت، کمال یہ ہی ہو گا کہ پاکستان امریکہ کو بھی آن بورڈ لینے میں کامیاب ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments