مکہ مدینہ جانے والوں سے فرمائشیں اور بات کچھ زیارات کی


Loading

پاکستان میں مقیم ان لوگوں کے نام جو بظاہر بڑی چھوٹی اور معصوم سی فرمائش سعودیہ جانے یا وہاں رہنے والوں سے کرتے ہیں، مگر پھر ان بے چاروں پر کیا گزرتی ہے۔ کوئی نہیں بتاتا!

یہ تحریر سن 1998 سے 2002 کے تجربات کا نتیجہ ہے اور کتاب کیف الحال سے ماخوذ ہے۔ بائیس سال بعد سعودیہ میں بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہے اور ضیوف الرحمن یعنی رحمان کے مہمانوں کے لئے بے انتہا سہولیات اور آسانیاں موجود ہیں۔ مگر ہم برصغیر کے لوگ، ہماری کیا بات ہے! ہماری متعدد عقیدتیں اور حرکتیں (سعودیوں کے لئے بدعتیں) اب تک تبدیل نہیں ہوئی ہیں، بلکہ شاید وقت کے ساتھ ساتھ ان میں مزید جدیدیت آ چکی ہوگی۔ ہم سعودیہ پہنچ کر جن جگہوں کو عقیدت سے مقامات مقدسہ کہتے نہیں تھکتے۔ مقامی انہیں محض گھومنے پھرنے کی جگہ گردانتے ہیں۔ ہم بھی غلط نہیں کہ ہمیں انفرادی طور پر ہر اس جگہ پر اپنے نبی ﷺ کی خوش بو آتی ہے۔ مگر مقامی لوگوں کا حال وہی گھر کی مرغی دال برابر ہے۔ کیوں کہ جب وہ ہماری انفرادی عقیدتوں کو اجتماعیہ ہوتے دیکھتے ہیں، تو اسے بدعت گردانتے ہوئے، ”ہذا شرک ہذا حرام“ ، پکار اٹھتے ہیں۔ جب کہ ہم پاکستانیوں میں، لاکھوں ایسے جذباتی بھی موجود ہیں، جو امام کعبہ اور تمام سعودیوں کو کافر مانتے ہیں اور مجال ہے جو حج و عمرہ کے دوران کعبۃ اللہ یا مسجد نبوی ﷺ میں ایک فرض نماز بھی ادا کرتے نظر آئیں۔ ان کی تمام جماعتیں اپنے مذہبی گروپ لیڈر کی اقتدا میں ہوٹلوں میں ہی ہو رہی ہوتی ہیں۔ ہم پاکستانیوں اور سعودیوں کے اسلام میں ایک بہت بڑا فرق اور بھی ہے۔ اتنا بڑا کہ فی الوقت یہاں لکھتے ہوئے بھی ہزار بار سوچنا پڑ رہا ہے!

اگر آپ ابھی تک بیت اللہ کی زیارت نہیں کرسکے تو اپنے رسک پر پڑھیں۔ کیوں کہ بقول انور مقصود ممکن ہے اس سعادت کے حاصل کرتے وقت یہی کچھ دیکھ کر وقت قبولیت آپ دعا کی بجائے ہنسنے لگیں۔

حکومت پاکستان کی طرف سے سعودی عرب پہنچے تو نوکری دفاع المدنی (شہری دفاع) کے محکمہ میں ملی اور عہدہ کمپیوٹر ایڈوائزر تھا۔ دفاع المدنی کا ایک کام حج میں سہولیات فراہم کرنا بھی ہوتا ہے۔ پاکستان کی 1122 جیسے کام ہوں، فائر بریگیڈ یا کسی بھی طرح مشکل میں لوگوں کی مدد کرنا۔ سعودی سول ڈیفنس کے بنیادی کاموں میں شامل ہوتا ہے۔ یہاں کا سول ڈیفنس پاکستان کے شہری دفاع سے یک دم مختلف ہے اور انتہائی مضبوط اور ہمہ وقت متحرک سرکاری ادارہ مانا جاتا ہے۔

سعودیہ میں نجی دفاتر یا بنکوں میں نوکری عموماً دو شفٹ میں چلتی تھی۔ صبح سے ظہر، جس کے بعد لوگ بچوں کو اسکول سے لے کر ، گھر پر کھانا پینا اور قیلولہ کرنے کے بعد سہ پہر میں پھر آ جاتے، مغرب تک کے لئے۔ لیکن زیادہ تر سرکاری نوکریاں صبح سے لگ بھگ تین بجے تک ختم ہو جاتیں۔ یہاں سرکاری دفتر میں دیر سے تو آیا جاسکتا تھا، لیکن دفتری اوقات کے بعد دفتر میں پائے جانے کو انتہائی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ یوں سہ پہر گھر پہنچنے کے بعد میرے پاس وقت ہی وقت ہوتا تھا۔ اوپر سے ہفتے میں دو دن (بشمول جمعہ) کی چھٹی۔

مملکت میں (اُن دنوں ) حرم زدگی کے لئے انتہائی محدود مواقع ہوتے تھے۔ نتیجتاً، ”مجھ جیسے“ ، خود بخود مذہب سے مزید قریب ہو جاتے۔ کچھ شیو چھوڑ کر داڑھی بھی رکھ لیتے۔ سعودیہ میں داڑھی والوں کی ان دنوں ٹھیک ٹھاک اہمیت ہوتی تھی (یہ مجھے داڑھی رکھنے کے بعد پتہ چلا) بالخصوص اگر آپ وضع قطع سے سعودی یا مطوع (مذہبی پولیس والے ) بھی لگتے ہوں۔

اسلامی تاریخ اور مطالعہ پاکستان میں میری معلومات انتہائی اچھی تھی (وجہ وہی اچھی یادداشت، کوئز پروگراموں میں حصہ لینا اور انعامات جیتنا)۔ لیکن باشرع داڑھی رکھنے کے بعد دل چسپ مسائل آنا شروع ہو گئے۔ مثلاً نماز کا وقت ہو تو مجھے دھکا مار کر امامت پر مجبور کیا جاتا۔ یوں دو چار مرتبہ کے بعد میں نا صرف عادی ہو گیا بلکہ ہاتھ کے ہاتھ امامت اور نماز سے متعلق مسائل پڑھ اور رٹ کر بقلم خود زبردستی مولوی بھی بن گیا (یا یوں کہہ لیں بنا دیا گیا)۔ پھر ایک دن یوں ہوا کہ ایک محفل میں ایک بھابی (فوج میں دوست یا تھوڑے سینیئر کی بیگم کو بھابی اور بہت سینیئر افسر کی بیگم کو آپا کہا جاتا ہے) نے ایک مذہبی مشکل کا حل پوچھ ڈالا۔ ظاہر ہے میں نہ مفتی تھا نہ عالم دین، صرف یک مشت دھڑیل تھا۔ لیکن کون سنتا ہے!

ان ہی دنوں صحاح ستہ کی چھ کتابیں تازہ تازہ پڑھی تھیں (سیلف سٹڈی)۔ اور ان میں موجود ایک حدیث کی روشنی میں ان خاتون کو مسئلے کا ممکنہ حل بتا دیا۔ ساتھ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی طرح مذکورہ حدیث کا حوالہ بھی دے دیا۔ (یاد رہے یہ سال 1998 تھا اور ان دنوں لوگوں کے پاس کمپیوٹر ہی کم کم ہوتا تھا تو انٹرنیٹ یا گوگل کا کیا سوال)۔

پتہ چلا بے چاری کافی عرصے سے پریشان تھیں اور جس سے پوچھتیں وہ اپنے مسلک کی روشنی میں ان کو مزید کنفیوز کر دیتا تھا۔ یوں پاکستانی ”وِز کِڈ“ دیکھتے ہی دیکھتے ”وَعظ کَڈ“ ہو گئے۔ اور ہر ایک کو علم ہوتا تھا کہ کمپیوٹر سے لے کر کسی مذہبی مسئلے کا حل، انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا (ان دنوں کی گوگل) رضی الدین سے جو چاہو سو پوچھو۔

یوں وقت گزرتا گیا اور مجھے ایک سے ایک دل چسپ اور کبھی کبھار پریشان کردینے والی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا رہا۔ کام سے کام رکھنے والے شخص میں خود بخود کئی عادتیں پیدا ہو گئیں۔ ایک تو ارد گرد کیا ہو رہا ہے اس کا بغور مطالعہ کرنا اور کسی کو غلط کام کرتے دیکھ، ٹوک کر، قرآن اور حدیث کی روشنی میں آگاہ کرنا کہ غلط کام کو اور بھی بہتر طریقے سے کیسے، ”مزید غلط“ ، کیا جاسکتا ہے۔

کبھی کوئی پوچھ بیٹھتا، کفن میں کتنا کپڑا لگتا ہے تو کوئی زم زم میں بھیگے کفن کی افادیت پر وعظ کی فرمائش داغ دیتا۔

زم زم میں بھیگے کفن کی بھی عجیب داستان ہے۔ خود اہل سعودیہ زم زم میں بھیگے کفن کے فوائد جاننے سے آج تک محروم ہیں۔ انھے علم ہی نہیں کہ اسے پہننے سے مردے کے گناہ جھڑ جاتے ہیں، منکر نکیر قبر میں سوال نہیں کر سکتے اور ساری زندگی رشوت لینے دینے والے اور زندگی حرام زدگی سے گزارنے والے صاحب قبر کو ’قبر‘ یوں سنبھال لیتی ہے، جیسے ماں کی گود میں اس کا بچہ محفوظ ہوتا ہے۔ تو کیسا عذاب قبر۔

پاکستانی مولوی تو زم زم والے کفن کے مردے کو ، بعد قیامت اور بھی بہت ساری گارنٹیاں دیتے ہیں لیکن بات وہی کہ اہل سعودیہ ان سب سے آج تک لاعلم ہیں۔ بلکہ وہ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ جنت کی سرکاری زبان عربی ہوگی۔ (بقول سہراب گوٹھ کراچی کی ایک مسجد کے مولوی صاحب، جنت کی زبان عربی اور دوزخ کی پشتو ہوگی)۔

ایک دن مسجد الحرام میں امام کعبہ شیخ السدیس سے گفتگو کے دوران جب عربی سیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا، وجہ، ”کیوں کہ جنت کی زبان عربی ہوگی“ ، تو سنجیدہ شخص کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی، کہنے لگے۔ اوّل تو ایسی کوئی بات نہیں، لیکن اگر ہوگی تو کیا اللہ تعالی کے حکم سے اہل جنت کو عربی نہیں آتی ہوگی؟ خود کہنے لگے، ”نیت یہ رکھو کہ قرآن فہمی میں آسانی ہوگی“۔

پاکستان سے آنے والے مکہ کے پاس جبل نور میں واقع، ”غار حرا“، (جہاں نبی اکرم ﷺ عبادت کرتے تھے اور انہیں نبوت ملی تھی) ، ”غار ثور“ ، (جو مکہ اور مدینہ کے پرانے راستے پر واقع ہے اور جہاں نبی اکرم ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق نے کفار مکہ سے چھپ کر تین دن قیام کیا تھا) اور مدینے شریف کے باہر ”جبل احد“ میں واقع ایک پہاڑی کھوہ یا غار (جہاں نبی اکرم ﷺکو صحابہ اکرام نے زخمی ہونے کے بعد کفار مکہ سے بچا کر طبی امداد دی تھی) ضرور چکر لگاتے ہیں۔ اور داؤ لگے تو سوینیئر (یادگار یا تبرک) کے طور پر وہاں کی مٹی نا سہی، ”ایک ایک پتھر“ لانے کی کوشش کرتے ہیں یا اپنی کوئی چیز مثلاً ٹوپی، صافہ یا جاء نماز وہاں استعمال کر کے (زمین یا کچھ بھی صاف کر کے ) اسے مزید متبرک اور یادگار بنا لیتے ہیں۔

جبل نور پر موجود غار حرا، کعبہ سے چار کلومیٹر دور ہے۔ ایک زمانے میں ہر سال کئی لوگ چڑھنے کے دوران گر گر کر مر جاتے تھے اور راستہ ایسا ہوتا کہ پہاڑ کے نیچے ایک ریال کا ملنے والا پیپسی کا کین غار حرا پہنچ کر تین سے پانچ ریال میں مل رہا ہوتا تھا۔ بہر حال حقیقت یہ ہے کہ پچھلے چودہ سو سال میں یار لوگوں نے غار حرا کے اندر اور باہر کوئی ایسا چھوٹا موٹا ٹکڑا کسی کے لئے نہیں چھوڑا تھا اور غار حرا میں موجود سب سے چھوٹا پتھر کا ٹکڑا بھی سیروں نہیں بلکہ منوں ٹنوں وزنی ہو گا۔ مستنصر حسین تارڑ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے سرکاری طور پر اجازت لے کر غار حرا میں ایک رات گزاری اور پھر ان پر جو گزری اس کیفیت پر ایک کتاب بھی لکھ ڈالی۔ کسی زمانے میں عقیدت مند یہاں آ کر آنسو بہاتے او ر کچھ نوافل یا وظائف پڑھ لیتے تھے۔ آج کل اکثریت یہاں پہنچ کر سیلفی کھینچتی ہے اور جلد از جلد آگے شیئر کر دیتی ہے، کیونکہ جانے کب قضا کا فرشتہ آ جائے۔

غار حرا کے برعکس ”غار ثور“ جانا ویسے بھی ہر کسی کہ بس کی بات نہیں۔ حج اور رمضان کے دنوں میں یہ سفر ٹھیک ٹھاک مہنگا ہونے کے ساتھ ساتھ، اس تک پہنچنا، آج بھی انتہائی مشکل کام ہے۔ غار ثور کی سطح سمندر سے اونچائی غار حرا کے 2500 فٹ کے مقابلے میں دوگنی ہے یعنی 5000 فٹ۔ یہ حیران کن طور پر کوئی پہاڑ نہیں بل کہ ایک بہت بڑا کھوکھلا پتھر ہے جس کے اندرونی حصے کو غار ثور کہا جاتا ہے۔ اس بڑے سے پتھر پر آج کل دنیا بھر کے عقیدت مند اپنی محبت کا نشان لگا کر جاتے ہیں۔ جس میں ہمارے لبیک والے بھی شامل ہیں۔ بس ہم یہاں جن سے ڈرتے ہیں وہ وہاں، ”سر تن سے جدا“، لکھتے ڈرتے ہیں۔ کیوں کہ وہاں واقعی سر تن سے جدا ہوتے دیر نہیں لگتی۔

یہ وہی غار ہے جس میں نبی اکرم ﷺ نے ہجرت مدینہ کے وقت حضرت ابوبکر کے ساتھ کفار مکہ سے بچنے کے لئے تین دن قیام کیا تھا۔ اسی لئے حضرت ابوبکر کا ایک نام ”یار غار“ بھی ہے۔ اس غار میں قیام اور ہجرت مدینہ کے دوران چار جاندارو ں کے معجزات رونما ہوئے۔ غار میں قیام کے چند گھنٹوں بعد نبی اکرم ﷺجو کئی راتوں سے سو نہیں سکے تھے۔ مزید سخت دھوپ میں سفر کی تھکان، غار کی پتھریلی زمین میں حضرت ابوبکر کی ٹانگوں پر سر رکھ کر گہری نیند میں چلے گئے۔ اس اثناء میں یار غار کی نظر ایک سوراخ پر پڑی۔ جس میں سے ایک زہریلا صحرائی سانپ اپنا سر نکال رہا تھا۔ حضرت ابوبکر نے اپنے پھیلے پیر کو اس سوراخ کے سامنے کر دیا۔ کیوں کہ اٹھنے یا ہلنے کی صورت میں نبی اکرم ﷺ کی نیند خراب ہو سکتی تھی۔ سانپ نے نتیجتاً ان کو ڈس لیا۔ زہر کے اثر سے حضرت شدید تکلیف میں چلے گئے اور روایت ہے کہ شدت تکلیف سے کچھ آنسو نکل کر چہرہ نبی ﷺ پر گرے۔ آپ ﷺنے نیند سے نکل کر دیکھا کہ یار غار کرب میں مبتلا ہیں۔ سو اپنا لعاب دہن یعنی تھوک لے کر اللہ کے نام سے سانپ کے کاٹے کے مقام پر لگا دیا۔ ایک روایت ہے کہ پیر ہٹا کر اس سانپ کو کہا گیا کہ ابھی ہم لوگ یہاں قیام کریں گے جب تک تم یہاں سے چلے جاؤ۔ تھوک کے اثر سے کہتے ہیں کہ اس دن کے بعد سے حضرت ابوبکر کی اصل آل اولاد یعنی صدیقیوں پر سانپ کا زہر اثر نہیں کرتا۔ واللہ علم بالصواب۔

یہاں آ کر پتہ چلا کہ کئی احادیث کی رو سے مدینے میں موجود لوگوں کو متعدد مرتبہ یہ حکم دیا گیا یا بتایا گیا کہ اگر وہ اپنے گھر میں ایک خاص دھاریوں والا سانپ دیکھیں تو اسے مارنے کی بجائے گھر سے جانے کا تین مرتبہ حکم دیں۔ کہا جاتا ہے کہ اچھے جنات گھروں میں سانپ کی شکل میں آتے ہیں۔ سعودیہ میں ایک اور خاص بات دیکھی کہ یہ لوگ جن کی جڑیں صحراؤں سے منسلک ہیں۔ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے اوقات میں گھر سے نکلنے سے پرہیز کرتے ہیں اور اگر باہر ہوں تب بھی کسی جان لیوا جاندار کو ان اوقات میں مارنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ یہاں کی مقامی روایات کہ مطابق یہ وہ اوقات ہیں جب زمین کی تہہ میں رہنے والی نادیدہ مخلوقات اپنے رزق اور کام کے لئے باہر آ رہی ہوتی ہیں یا واپس جا رہی ہوتی ہیں۔ اور ان سے پنگا نہیں لینا چاہیے۔

غار ثور میں موجود نبی اکرم ﷺ کو گرفتار کرنے یا مارنے پر کفار مکہ نے بہت بڑا انعام (سو اونٹ) مقرر کیا ہوا تھا۔

مکہ کا ایک مشہور کھوجی، نبی اکرم ﷺ کی خوش بو سونگھتے اور کھرا ڈھونڈتے غار ثور پہنچ جاتا ہے۔ اس کے ساتھ متعدد اور کافر بھی ہوتے ہیں۔ حضرت ابوبکر کو باہر سے آتی آوازوں پر تشویش ہوتی ہے۔ جس پر نبی ﷺ فرماتے ہیں۔ ”پریشان مت ہو، اللہ ہمارے ساتھ ہے“۔ دوسری طرف، کھوجیوں کا یہ گروہ جب کھرا اور خوش بو سونگھتے غار کے دہانے پر پہنچتا ہے تو حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ کیوں کہ دہانے پر مکڑی نے ایک بڑا سا جالا بنا رکھا ہوتا ہے۔ جس کا مفہوم کہ کئی دنوں سے نہ کوئی اندر گیا ہو گا اور نہ باہر آیا ہو گا۔ جالے کے ساتھ ہی کبوتر ی/ فاختہ نے ایک گھونسلے میں انڈے دیے ہوئے تھے جو اس بات کی مزید علامت تھے کہ یہاں عرصے سے کوئی نہیں آیا۔ جب کہ کچھ فاصلے پر وہی زہریلا سانپ بھی پھن پھیلائے کنڈلی جمائے بیٹھا تھا۔ کھوجی اور دوسرے لوگ وہاں سے چلے جاتے ہیں۔ یہ اور بات کہ کھوجی کو مسلسل یہی اشارے مل رہے تھے کہ اس کا ہدف بدستور یہیں کہیں ہے۔

بہر حال آج سے سو ڈیڑھ سو سال پہلے تک اصلی غار ثور کا دہانہ، محض اتنا چوڑا تھا کہ کوئی شخص رینگ کر ہی اس میں داخل ہو سکے۔ اسی لئے پرندے نے انڈے اور مکڑی نے بہ آسانی جالا بنالیا تھا۔ لیکن آج سے سو ڈیڑھ سو سال پہلے کوئی زائر جب یہاں آیا تو عقیدت میں رینگ کر اندر تو چلا گیا، مگر غار سے واپسی میں پھنس گیا (شاید جیب میں پتھر بھر کر اسمگل کرنے کی کوشش میں ہو)۔ اور کئی دنوں تک چیختا چلاتا رہا۔ بہرحال ایک فتویٰ کے بعد غار کا دہانہ اتنا چوڑا کر دیا گیا کہ اب کوئی بھی شخص بہ آسانی غار میں آ جا سکے۔

چوتھے جانور کی کہانی ابھی باقی ہے۔

جب کفار مکہ کی محمد ﷺ کے لئے تلاش ٹھنڈی پڑ گئی تو چوتھے دن یہ لوگ یثرب کے لئے نکل پڑے۔ حضرت عامر بن فہیرہ، اُن دونوں کو یثرب ( مدینہ منورہ کا پرانا نام) کا راستہ دکھانے کے لئے ساتھ تھے۔ اُدھر مکہ میں کفار کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کیوں کہ نہ تو محمد ﷺ یثرب پہنچے تھے اور نہ راستے میں کہیں پائے گئے تھے۔ اسی دوران ایک محفل میں یثرب کی طرف سے آنے والے ایک مسافر نے بتایا کہ فلاں فلاں جگہ اس نے چند لوگوں کو یثرب کی سمت جاتے دیکھا تھا۔ اور اس کا قیاس تھا کہ محمد ﷺبن عبداللہ، ان میں سے ایک تھے۔ کفار مکہ نے مسافر کی بات کو درگزر کر دیا لیکن وہاں موجود سراقہ بن مالک کے سر پر سو اونٹوں کے انعام کا لالچ سوار تھا۔ سو اس نے کسی کو بتائے بغیر ایک تیزرفتار گھوڑا لیا (اس زمانے میں تیز سفر کے لئے سانڈنی، خچر یا گھوڑا استعمال ہوتے تھے)۔ اور صحرا کے اس حصے کی طرف چل پڑا۔ کئی گھنٹوں کے بعد وہ ان لوگوں تک پہنچ گیا۔ حضرت ابوبکر نے ایک بار پھر اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔

اللہ کے نبی ﷺنے دعا کی اور یکایک سراقہ کے گھوڑے نے اسے زمین پر پھینک دیا اور کسی نادیدہ خطرے کے پیش نظر ہنہنانے لگا۔ سراقہ دوبارہ گھوڑے پر سوار ہوا۔ کچھ اور قریب پہنچا تو ایک بار پھر یہی ہوا۔ وہ زمین پر تھا اور گھوڑا ہنہنا رہا تھا۔

تیسری بار وہ جب زمین پر گرا ہوا تھا تو اس نے دیکھا کہ صحرا کی ریت میں بگولہ نمودار ہوا۔ اور اس کے گھوڑے کی ٹانگیں ریت میں چھپنے یا دھنسنے لگی ہیں۔ سراقہ کو یقین ہو گیا کہ محمد ﷺبن عبداللہ کوئی عام شخص نہیں۔ ویسے بھی صحرائی بدوؤں کو ایک ہی عقل سے ماورا کام تین مرتبہ ہوتا نظر آئے تو وہ اسے بہت مانتے ہیں۔

سراقہ نے عرض کی کہ مجھے اس مصیبت سے نجات دلائیں میں وعدہ کرتا ہوں۔ آپ کو نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔

اللہ کے نبی ﷺنے دعا کی اور گھوڑا اور سراقہ مشکل سے نکل آئے۔ سراقہ نے اپنی تلوار زمین پر رکھی اور کہا کہ میں آپ کے پاس آنا چاہتا ہوں۔ اجازت ملنے پر وہ پاس گیا اور کہا کہ اگر آپ مجھے زندگی بھر جان کی امان دینے کا وعدہ کریں تو میں اس راستہ پر گھومتا رہوں گا اور اگر کوئی آپ کو ڈھونڈتا نظر آیا یا آپ کے لئے خطرہ بنتا نظر آیا تو میں اس سے نبٹ لوں گا۔ زبانی امان ملی تو اس نے کہا کہ نہیں مجھے لکھ کر دیں۔

عامر بن فہیرہ نے ایک ہڈی (بعض روایات کے مطابق جانور کی کھال) پر وہ تحریر لکھ دی۔ سراقہ نے کہا۔ اب آپ بے دھڑک جائیں۔ سراقہ کی بات سن کر اللہ کے نبی ﷺنے کچھ دیر سوچا اور پھر کہا :

”سراقہ اگر تم ایسا کرو، جیسا تم نے کہا ہے تو ایک دن تمہیں خسرو کے کنگن پہننے کو ملیں گے“۔

اس زمانے میں ایرانی بادشاہ خسرو کے طلائی کنگن اہل عرب میں بہت مشہور تھے اور کوئی ان کا صرف خواب ہی دیکھ سکتا تھا۔ سراقہ کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا اور اس نے پوچھا۔ ایرانی بادشاہ خسرو بن ہرمز کے طلائی کنگن!
نبیﷺ نے کہا: ”ہاں“۔

کچھ روایات میں ہے کہ سراقہ نے وہیں اسلام قبول کر لیا۔ جب کہ زیادہ تر لوگوں کا ماننا ہے کہ فتح مکہ کے دنوں میں وہ مسلمانوں کے قبضے میں آ گیا اور قتل ہونے والا تھا کہ اس نے وہی تحریر پیش کر کے اپنی جان بچالی اور اسلام بھی قبول کر لیا۔

حضرت عمر کے دور خلافت میں حضرت سعد بن ابی وقاص نے ایران فتح کر لیا اور مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ خلیفہ وقت کی خدمت میں روانہ کر دیا۔ یہ سامان مدینہ منورہ پہنچا تو اس میں ایرانی بادشاہ خسرو پرویز کا سونے سے کڑھا لباس، سونے کا کمر بند، تاج اور کنگن بھی شامل تھے۔

حضرت عمر شاہی اشیاء کی شان و شوکت اور امارت کی ان علامات کو دیکھ کر روتے رہے جو نہ نبی اکرم ﷺ کے حصے میں آئیں اور نہ ان کے یار غار کے۔ حضرت عمر نے سراقہ بن مالک بن جعشم کو بلایا (جو اب مسلمان ہوچکے تھے)۔ وہ آ گئے تو انہیں کہا کہ یہ تمام سونے سے بنی چیزیں پہنو۔ سراقہ نے کہا کہ امیر المومنین سونا پہننا تو مرد کے لئے حرام ہے۔ جواب ملا۔ ہاں۔ لیکن تمہیں تو نبی اکرم ﷺنے خود ایک دن پہننے کی بشارت دی تھی۔ یوں سراقہ نے کانپتے ہاتھوں اور روتی آنکھوں سے خسرو کا شاہی لباس پہنا۔ اس کا تاج خود حضرت عمر نے سراقہ کے سر پر سجایا۔ وہی سونے کے کنگن پہنائے۔ جس کا اللہ کے نبی ﷺنے سراقہ کو ایک دن پہننے کی بشارت دی تھی۔ اور سراقہ خود بھی اسے بھول چکے تھے۔

کہتے ہیں ان کنگنوں کی جوڑی میں سے ایک آج بھی ترکی کے توپ کاپی عجائب گھر میں موجود ہے۔

غار حرا / غار ثور کے برعکس، جبل احد کی کھوہ میں ہم کئی مرتبہ گئے، جہاں کے بارے میں روایت ہے کہ جب صحابہ اکرام، زخمی نبی ﷺ کو ابتدائی طبی امداد دینے کے بعد جبل احد کے ایک محفوظ حصے پر چڑھے تو پہاڑ نے تھرتھراتے، عقیدت سے خود میں ایک خلا یا عمودی جھری بنالی۔

یہاں نبی ﷺ نے آرام کیا۔ ان دنوں وہاں راستے میں ایک بڑا سا عمودی پتھر بھی ہوتا تھا۔ جو اندر کی طرف ایک پیالے کی شکل میں دھنسا ہوا تھا۔ لوگوں نے بتایا کہ نبی ﷺ کو زخمی ہونے کے بعد جب اس پتھر کے سہارے بٹھایا گیا تو پہاڑ کا یہ پتھر خود بخود تکئے جیسا اتنا نرم ہو گیا کہ اس میں (سر کے دباؤ سے بننے والا) وہ مبارک پیالہ آج بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ تاریخی کتابوں میں ایسے واقعات نہ پڑھنے کے باوجود ہم ان معاملات میں نہ ”ہاں“ کہتے ہیں اور نہ ”ناں“۔ لیکن یہ تو یقینی بات تھی کہ یہ مقام جبل احد کا حصہ تھا جہاں اسلام اور کفر کی جنگ ہوئی اور جس کی اپنی انتہائی اہم حیثیت ہے۔

مدینے کی زیارات میں کچھ عرصے بعد علم ہوا کہ وہاں سے 15 کلومیٹر دور ایک وادی ہے جسے مقامی لوگ انڈے کی شکل سے مماثلت کی وجہ سے وادی بیضہ کہتے ہیں جب کہ باہر کے لوگ اسے وادی جن (جنات) کہتے ہیں۔ یہاں سیدھی سڑک پر کھڑی گاڑی خود بخود چلنے لگتی ہے جیسے کسی ڈھلان پر ہو۔ زمین پر پانی پھینکیں تو وہ ڈھلان پر نیچے آنے کی بجائے خود بخود اوپر جانے لگتا ہے (یو ٹیوب پر متعدد ویڈیوز موجود ہیں)۔ کوئی اسے جنات کی کارستانی کہتا ہے، کوئی مدینے کی عقیدت میں کشش مدینہ اور کچھ طاقت ور مقناطیسی میدان یا پہاڑیوں کا اثر (جب کہ پانی کا مقناطیس سے کوئی تعلق نہیں )۔

گئے تو مزا تو آیا مگر سائنس پڑھے کا علم : کچھ اور کہتا تھا۔

مسجد الحرام میں ایک مرتبہ حج کے دوران پاکستان سے آئے ایک بزرگ نظر آئے جو سخت پریشان تھے، پاکستان سے آتے ہوئے کسی نے اِن کو قسم دیتے ہوئے کہا تھا کہ واپس آتے ہوئے، وہ اْن کے لئے خاص مکہ کے درخت کی لکڑی سے بنی مسواک ضرور لائیں۔ جب حقیقت یہ ہے کہ دور نبوی ﷺ سے حرم کی مخصوص حدود میں لگے کسی بھی درخت کو کاٹنا اور جانور کا شکار کرنا شرعاً منع ہے (عام دنوں میں بھی کہ حدود حرم ہر جاندار کے لئے دارالامان ہے سوائے مشرکین کے)۔ مکہ ویسے ہی پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے درخت نہیں رکھتا اور اگر کوئی درخت یا جھاڑی کہیں مل بھی جائے تو اس کو کون کم بخت حصول مسواک کے تجارتی مقصد کے لئے کاٹنے کی جرات کر سکتا ہے۔

اسی قسم کی ایک فرمائش کا سامنا ایک اور صاحب کو بھی کرنا پڑا جو خاص مکہ کے درخت کی لکڑی سے تیار کردہ تسبیح کسی کے لئے ڈھونڈ رہے تھے۔ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ پاکستان سے آنے والے لوگ اصلی مکہ کی کھجوروں کے حصول کے لئے در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہوتے ہیں، اور نہ ملنے کی وجہ وہی، حدود حرم۔ جس میں جانور کا شکار اور درخت کاٹنا منع ہے کہ یہ سب جانداروں کے لئے امن کی جگہ ہے۔ یہ اور بات کہ دنیا بھر سے آنے والے متعدد زائرین کی اس دارالحرم میں آنے کی نیت محض فراڈ، چوری اور مال کے لئے دوسرے مسلمانوں کو قتل اور زخمی کرنا بھی ہوتا ہے۔ انہیں مکہ کی مسواک، سرسبز درخت یا جانور کے شکار سے کیا لینا دینا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments