ٹورنٹو، دبئی اور مانچسٹر


”ٹورنٹو دبئی اور مانچسٹر“ شاہد صدیقی صاحب کی آپ بیتی بھی ہے، رپورتاژ بھی یاد نامہ بھی مگر اس کو سفرنامہ کا نام دیا گیا ہے۔ جس کی پیشانی پر درج ہے

دل فریب شہر
دل کش کردار
دل ربا کہانیاں
انتساب کیا ہے اس کتاب کو اپنے مینٹور راج کے نام

گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ جدید سفر نامے کا کینوس وسیع ہوتا جا رہا ہے لیکن اسے پڑھ کر مجھے شفیق الرحمن کی برساتی کی فضا کا ایک تاثر ملا۔

فہرست کو آبدار موتیوں جیسے عنوانات سے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔
ٹورنٹو اور وقت کا بہتا دریا
دبئی موتی و مرجان کی سرزمین
مانچسٹر بھیگتے دنوں کی کہانی

چونکہ کہیں نہ کہیں میرا تعلق۔ تینوں سے ہے دریاؤں سے، آبگینوں سے، اور کہانیوں سے تو سمجھ نہیں آتی تھی کہاں سے ابتدا کروں۔ ابتدا سے انتہا تک، انتہا سے ابتدا تک یا عین وسط سے

ظاہر ہے مجھے کہانیوں والا باب پر کشش لگ رہا تھا۔ مجھے جاننا تھا کہ ڈاؤن ٹاؤن میں ایک بلند و بالا عمارت جو 35 ویں چارلس سٹریٹ میں واقع تھی جس کی انیسویں منزل کے اپارٹمنٹ نمبر پندرہ میں رہنے والے مکین نے انیس سو اکانویں، بانویں ترانویں چورانویں اور پچانویں میں وہاں قیام کیا اس نے اس وقت کے ٹورنٹو کو کس نظر سے دیکھا تھا۔ وہی کردار جب تین دہائیوں کے بعد ان ہی گلیوں کوچوں میں دوبارہ جاتا ہے تو کیا تلاش کرتا ہے۔

مگر میرے لیے اس سے زیادہ پرکشش تھا کہ انگریزی ادب کا ایک ماہرِ تعلیم جب سکالرشپ پر اسی کی دہائی میں ایم اے انگریزی کرنے مانچسٹر جاتا ہے تو وہاں اس پر کیا گزرتی ہے۔ وہ کن زاویوں سے دیکھتا ہے اور کن کرداروں کے ساتھ وقت گزارتا ہے۔ ان کرداروں کی کہانیوں کے گھونسلے کن پیڑوں پر بنے ہیں۔ وہاں کیسے پرندے ہوتے ہیں۔ ان کے پنکھ اور پرواز کیسے ہوں گے۔ بھیگتے موسموں میں وہ ہوا کے رخ پرواز کرتے ہیں یا مخالف؟

ایک روز مصنف اسلام آباد کے کچنار پارک میں ڈھلتے سورج کے منظر میں یوں ڈوب جاتا ہے جب ابھرتا ہے تو مانچسٹر کی شام میں اپنے دوست اور مینٹور راج کے ساتھ لکڑی کے ایک بینچ پہ بیٹھا ہوتا ہے۔

اسے اس کی روشن آنکھوں میں بے نام اداسی سے لکھی پاروتی کی کہانی یاد آ جاتی ہے جو ایک وعدہ کر کے بھول جاتی ہے۔ سوشل تھیوری کے ساتھ ساتھ۔ اس ادھوری کہانی کو جان کر مصنف کے اندر بھی وہ بے نام اداسی اتر آتی ہے۔

وہ لکھتے ہیں

راج نے مصنف کے بے حد اصرار کے بعد فریم سے جھانکتی اس لڑکی کی تصویر کے بارے میں بتایا جس کے بال کندھوں تک تراشیدہ اور بھورے تھے اور جس کی گالوں میں بھنور پڑتے تھے۔

”آج میں تمہیں بتاؤں گا وہ لڑکی کون ہے۔ اس کا نام پاروتی تھا۔ وہ کالج میں مجھ سے جونئیر تھی۔ اس میں کوئی خاص بات تھی جو اسے سب سے ممتاز کرتی تھی۔ اس کی آنکھیں ہنستیں تو لگتا تھا اس کے ماتھے کی بندیا بھی ہنس رہی ہے“

کبھی کبھی احساس ہوتا ہے مصنف نے راج اور پاروتی کی بے نام اداسی والی کہانی سنانے کے لیے پوری کتاب لکھ دی ہو۔ شہروں شہروں سفر کیا ہو، بارش کی ہنسی کی آواز سنی ہو۔ دھوپ چھاؤں کے اندھیرے اجالے سایوں میں اس کردار کو سوچا ہو جو کہانی میں یک دم اوجھل ہو گیا۔ خوب صورتی اور اوجھل بے کلی کے باب نمبر دو میں رشتہ بناتے ہوئے بتاتے ہیں کہ

”دراصل خوبصورتی ایک mystery ہے۔ یہ ایک راز ہے۔ ایک دھندلکا ہے۔ ایک جھٹپٹا ہے جس میں اظہار تو ہے مگر مکمل نہیں، اخفا بھی ہے مگر پورا نہیں۔ یوں خوبصورتی کو ہم محسوس تو کر سکتے ہیں مگر بیان نہیں کر سکتے۔ یہ تتلیوں کے نازک پروں پر بکھرے ان خوبصورت کچے رنگوں کی طرح ہے جن کو چھوا جائے تو وہ بکھر جاتے ہیں۔“

کہتے ہیں ”تجسس، ادھورے پن اور خوبصورتی کے مابین ایک پر اسرار اور نازک سا رشتہ ہوتا ہے، جو تکمیل کے تقاضے، انجام کی شرط اور کچھ جاننے کے اصرار سے ٹوٹ بھی سکتا ہے۔“

ایسی نثر میں کوئی کچھ بھی سنا دے وہ ساحر کا گیت، انشا کی غزل ہی محسوس ہو گی۔
ایک کہانی ایشا کے مہکتے احساس میں لپٹی خوشبو کی مانند ایک خط کی صورت ہے۔
جس کو سناتے ہوئے آخری سطور ملاحظہ ہوں

”میں نے خط میز پر رکھ دیا اور کھڑکی سے باہر بارش میں جھلملاتی روشنیاں دیکھنے لگا۔ مجھے یوں لگا جیسے وہ روشنیاں نہیں، رات کے بہتے سمندر میں راج کی آنکھیں ہیں جو بارش میں دھل کر اور اجلی ہو گئی ہیں۔ عام دنوں سے زیادہ روشن شانت اور سرشار“

کتاب میں ایک استاد کے کردار سے پھوٹنے والی روشنی کسی عروس البلاد کے اونچے مینار سے فواروں کی طرح پھیل جاتی ہے جب وہ باتوں باتوں میں بڑے بڑے فلسفے چھوٹی چھوٹی معلومات کے تذکرے عام سے الفاظ میں کیے جاتے ہیں۔ کبھی اپنے نظامِ تعلیم میں بہتری کی خواہش کبھی۔ گیت سنتے ہوئے لکھنے والا کا نام اور ایسے ہی پارس بن کر ہر لفظ کو سونا بنائے جاتے ہیں۔

لکھتے ہیں

”اس روز راج حیرت کے موضوع پہ بات کر رہا تھا۔ مجھے یاد ہے اس نے اپنے لمبے سیاہ بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا تھا، ”حیرت زندگی کا حسن ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو زندگی کی یکسانیت ہمیں مار ڈالے۔ اسی لیے تو رومی نے کہا تھا کہ وہ اپنا سارا علم بچے کی آنکھ میں حیرت کے بدلے دینے پر تیار ہے“

اس کتاب کی سطور میں گہرا افسانوی رنگ، ناول کا وسیع کینوس اور آفاقیت کے بہت سے پہلو تہہ در تہہ نظر آتے ہیں۔ جیسے کہ تین شہروں میں بیتے ہوئے دنوں کی کہانیاں۔

اسلوب ایسا ہے جیسے دمِ صبح نرم بادِ بہاری چلتی ہو۔ رواں پانیوں کی لہریں ہوں۔ کہیں دھندلکا نہیں ہے۔ نرم لفظوں کی بارشیں ہیں۔ خیال کے دھارے ہیں۔ رم جھم ہے۔ کافی کی مہک ہے۔ یادوں کی پگڈنڈی ہے جس پر قدم سے قدم ملا کے چلتے ہیں۔ ساتھ لے کر چلتے ہوئے قاری کی نظر سے کوئی شے اوجھل نہیں ہونے دیتے۔ نظارہ اتنا صاف ہے جتنا بارش کے بعد دھلا ہوا نیلا آسمان۔

ایسے لگتا ہے سب وقت کے سمندر میں بہتا جا رہا ہے۔ شہر کردار اور کہانیاں۔ کبھی لگتا ہے یہ داستان ہے۔ کبھی محسوس ہوتا ہے ناول ہے۔ گہرا۔ پراسرار۔ جس کا ایک کھویا ہوا سرا کسی دوسرے باب میں کسی تیسرے کردار سے جڑ جائے گا۔ ماضی اور حال کے بیچ بہتا دریا۔ اور ماہی گیر یادوں پہ چپو چلاتا ہوا گیت گاتا ہوا لہر در لہر گیان بانٹتا ہوا چلے جا رہا ہے۔

صفحہ نمبر چودہ پر کتاب کے بارے میں بات کرتے ہوئے فرماتے ہیں

”یہ کہانیاں ان نقوش کو یکجا کرنے کی تمنا ہے جو وقت کے دریا کے گزر جانے کے بعد خوش رنگ سیپیوں کی صورت باقی رہ گئے ہیں۔ انہیں خوش رنگ سیپیوں کے درمیان بیٹھا میں ان دنوں کو محبت اور رسان سے یاد کرتا ہوں جو مجھ سے بچھڑ گئے لیکن جن کی نرم شیتل چاندنی میرے اندر ٹھہر گئی ہے۔‘‘

اس کتاب کو پڑھتے ہوئے ویسا ہی احساس ہوا جیسے مصنف نے وین گوہ کی ایک پینٹنگ کا ذکر کرتے ہوئے کہا ”اس پینٹنگ میں ایک خاص سحر ہے۔ نیلی رات میں چاندنی کا غبار نامعلوم دنیاؤں کے در کھولتا ہے۔“

مجھے جمیلہ کے کردار سے بھی انسیت ملی۔ وہ سوشیالوجی کی پروفیسر تھی اور ادھوری کہانیاں لکھتی تھی۔ راج کا کردار بھی متاثر کرنے والا ہے۔ پروفیسر راج ایسا ہی تھا۔ وہ اپنے طالب علموں کے دلوں میں بلندیوں میں پرواز کے خواب جگانے والا استاد تھا۔ خوبصورتی کی تعریف کرتے کرتے راج کہتا ہے

، ”ایک خوبصورتی رویے کی بھی ہوتی ہے۔ اگر ہم سے کوئی حسنِ سلوک کا برتاؤ کرے تو وہ شخص ہمیں خوبصورت لگنے لگتا ہے۔“

فلاسفر واک پر چلتے ہوئے۔ وین گوہ کے فن کی کہانی کو پڑھتے ہوئے۔ بارہا محسوس ہوا جیسے سطح آب پر آبی پھولوں کی کونپلیں چٹک رہی ہیں مگر زیریں سطح پر کہیں ان کی جڑوں میں ازلی اداسی، مسافرت، ہجر کا گہرا رنگ ہے، جو تخلیق کار کی روح سے نکل کر پڑھنے والے کی روح تک پھیل جاتا ہے۔ سیراب ہو کر بھی اک تشنہ لبی کا احساس ہے۔ زندگی حاصل اور لاحاصلی کے بیچ کسی ان دیکھے کردار کو، واقعے کو تلاش کر رہی ہے۔ یوں دور دور تک اداسی کا ایک بے نام تاثر ہے۔ جس کا سرا ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا جو نہ ہو کے بھی ہوتا ہے اور ہو کے بھی گرفت میں نہیں آتا۔ یہ سفر نامہ حال سے ماضی اور ماضی سے حال کی طرف رواں دواں ہے۔

یہ کتاب خوبصورت ہے اس میں کافی کی مانوس مہک ہے۔ ناسٹیلجیا ہے۔ سفر کا تحیر ہے، اجنبی شہروں میں بارشوں کی نرم پھوار، دانائی میں بھیگی باتیں اور بہت کچھ ہے۔ اگر میں اس کتاب کے پہلے حصے میں ٹورنٹو کے پروفیسر جو کا ذکر نہ کروں تو میں ادبی بددیانتی کی مرتکب ہو جاؤں گی۔ اس میں استاد کا غیر روایتی تصور بہت پر کشش ہے۔ ڈاکٹر شاہد صدیقی نے یہاں تعلیم کے مختلف ماڈلز پہ بات کی ہے اور وطن عزیز میں رائج تعلیمی نظام میں بہتری کی باتیں لکھی ہیں۔ مختلف حوالوں سے تجزیہ کیا ہے۔ یہاں پتہ چلتا ہے کہ سفر کی داستان افسانوی ڈھنگ میں کہنے والے مصنف ماہرِ لسانیات بھی ہیں، استاد بھی، شاگرد بھی، محقق بھی۔ ماہر تعلیم بھی

تعلیم کا مقصد کیا ہے؟
لکھتے ہیں ”

”پالو فریرے کے نزدیک تعلیم کا محور طالب علموں میں کریٹیکل کانشیس۔ نیس پیدا کرنا ہے۔ یہ اسی صورت ممکن ہے جب تعلیم کا عمل یک طرفہ نہ ہو بلکہ طالبعلموں کو برابر موقع دیا جائے تاکہ وہ ایک باہمی مکالمے میں شریک ہو سکیں اور اپنی گم گشتہ پہچان اور آزادی کو حاصل کر سکیں۔ “

پروفیسر جو کی منتخب شدہ کتابوں کے مطالعے سے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ”تعلیم محض علم، مہارتوں اور اقدار کو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرنے کا نام نہیں، بلکہ یہ تو طلبہ کی انفرادی زندگیوں اور پھر معاشرے میں تبدیلی کا نام ہے۔“

مجھے نثر میں چھوٹے چھوٹے انگلش کے لفظ بھلے معلوم ہوئے جیسے کہ روزمرہ کی گفتگو میں آسانی سے استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے واش روم، بیسمنٹ، ٹیرس، مجھے یہ الفاظ فطری معلوم ہوتے ہیں۔ فطری بہاؤ میں بہتے ہوئے۔

غلام الثقلین نقوی صاحب سفرنامے کے متعلق لکھتے ہیں۔

”سیاح کو انسان کا صحیح عرفان حاصل ہوجاتا ہے۔ وہ طرح طرح کے آدمیوں سے ملتا ہے اور انسان فہمی و انسان شناسی کے بہت سے مدارج طے کر لیتا ہے۔ سیاح کی جذباتی دنیا بہت وسیع ہوتی ہے۔ اس کی آنکھ سے تعصبات کی عینک اتر جاتی ہے۔ وہ ایک فضا سے دوسری فضا میں پہنچتا ہے تو اس کی بوسیدہ و فرسودہ کینچلیاں ایک ایک کر کے اترتی چلی جاتی ہیں۔ اور اس تجربے کے بعد اسے جو نئی جلا عطا ہوتی ہے وہ پہلی سے کہیں زیادہ حساس اور نازک ہے۔ یہی وہ صفت ہے جو سیاحت کو ایک روحانی سفر میں بدل دیتی ہے۔“

میری نظر میں سفر نامہ داخلی اور خارجی سفر کا ایک ایسا (بلیینڈڈ شیڈ) گھلا ملا رنگ ہے جس سے نہ صرف قاری لکھنے والے کی ذات کے سمندر کی تہہ میں چھپی لہروں سے واقفیت حاصل کرتا ہے بلکہ جغرافیائی سطح پر مخصوص شہر کو ایک نئے زاوئیے سے دیکھنے کی صلاحیت سے بھی روشناس ہوتا ہے۔ اس نیلے سحر والی طلسمی کتاب کی اشاعت بک کارنر نے کی ہے جن کا نام خود معیار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments