دیسی کار مکینکوں کی جگاڑیں جن کی مرسیڈیز کمپنی بھی تعریف کرنے پر مجبور ہو گئی


اکتوبر سینتالیس میں ہجرت کر پاکستان پہنچنے کے چند دن بعد لاہور سے اپنے ننھیال پنڈی بھٹیاں جانے کے لئے سرداری لال کی گیس پلانٹ لاری میں وی آئی پی مسافر تھے۔ بس کے پیچھے بڑے سے چھجے پر پانی والے گیزر کی طرح کا بڑا سا فرنیس لگا تھا جس کو لکڑی اور کوئلہ کے آمیزہ سے جلائی آگ پانی کی بھاپ کو گیس میں تبدیل کرتے انجن تک پہنچا رہی تھی۔ یہ جنگ عظیم دوم میں پٹرول کمی کا متبادل جگاڑ مغرب نے نکالا تھا۔ انجن کے اوپر دائیں بائیں سے اوپر کر رکھے جانے بونٹ کے ساتھ مڈگارڈ پہ بیٹھے کنڈکٹر نے بوتل سے تھوڑا پٹرول کاربوریٹر میں انڈیلا اور پھر ہینڈل پورے زور سے گھما ( دھکا سٹارٹ یا موٹر سائیکل کک لگانے کا پیشرو) انجن سٹارٹ کیا۔

گیس کے پٹرول کی جگہ سنبھالنے پہ بس روانہ ہوئی۔ رستے میں گیس پریشر کم ہوتے یا کہیں رکتے ایندھن ڈالنے پٹرول ڈال گیس میں تبدیل کرنے کا عمل جاری تھا اور کئی مرتب بس چل رہی ہے کنڈکٹر پٹرول کے قطرے ڈال رہا اور آہستہ چلتی بس سے اتر بھاگتے بس میں چڑھتا۔ نظارہ دلچسپ ہوتا اور مہارت پہ مسافر داد دیتے۔ چھیاسٹھ میل کا سفر سات آٹھ گھنٹے میں مکمل ہوا تھا۔ میری یادداشت میں ڈرائیونگ کی دنیا کے یہ پہلے جگاڑ اور پہلا ٹوٹکا تھا۔ جگاڑ مغرب کا ٹوٹکا ہندوستانی۔

موٹر سائیکل پہ آتے پہلا تجربہ اس دن ہوا جب موٹر سائیکل کی ایکسیلریٹر تار کا سرا ٹوٹنے پہ ہم ٹول بکس سے پلاس نکال تار کو اس سے کھینچ منزل تک پہنچنے۔ یہ نسخہ موٹر سائیکل مکینک شفیع کا سکھایا ہوا تھا۔ ایسے ہی نسخے ہینڈ بریک کے لئے تھے۔ انہی دنوں سے امریکہ سے شائع ہونے والا رسالہ، آٹو موبائل انٹر نیشنل ملنا شروع ہوا تو اس میں موٹر سائیکل بلکہ بائیسکل میں ایمرجنسی میں پچھلی بریک لگاتے ساتھ اگلی بریک بھی، پچھلی کی نسبت تقریباً ایک تہائی دباؤ سے لازماً لگانے کی ہدایت پڑھی۔ اس سے موٹر سائیکل کے سلپ ہو جانے کا خطرہ بہت کم ہو جاتا ہے۔ گو اس وقت تک ہم ایک مرتبہ سلپ ہو کے آگے جاتے کالج کی لڑکیوں والے تانگوں سے نکلتی کھی کھی کی آوازیں سن چکے تھے۔ مگر یہ کارآمد نسخہ دوسروں کو بتانا ساری عمر فرض سمجھا۔

کار سوار بنے تو لمبے سفر کی سوچ پڑی۔ آٹو پارٹس کے کاروبار کا ڈرائیور اور مکینک کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جب بھی وقت ہوتا ان سے یہ موضوع چھیڑ دیتے اور ذہن میں اٹھتے اور ان کے بتائے مسائل کے حل کے ٹوٹکے یاد کرتے۔ ان کی ہدایت کے مطابق فالتو ہنگامی ضرورت والے پرزہ جات اور ٹول ٹرنک میں رکھنے شروع کیے ۔ جن میں اول فرسٹ ایڈ بکس۔ مکمل اس وقت کے مروجہ ٹولز، فین بیلٹ ہوز پائپ۔ بریک فلوئڈ۔ پانی کی بوتل ڈسٹری بیوٹر پوائنٹ اور روٹر وغیرہ تھے۔

اسی طرح مکینک کے پاس کھڑے ہو ان کے کام کو غور سے دیکھنا معمول بنا ان سے کاربوریٹر میں کچرا آ جاتے پلگ وائرز کو ادل بدل کر پٹاخے لگوا کچرا صاف کا نسخہ اور دوسرے جگاڑ لگانا سیکھا۔ اور پاکستان میں ڈرائیونگ کے اڑتیس برس یہ بے شمار مرتبہ کام آئے۔ ساٹھ کی دہائی میں لاہور فیصل آباد روڈ فیروز والا سے لے شیخوپورہ تک مکمل ویران اور دونوں طرف جنگل دکھتی گھنے درختوں کی قطاریں تھیں۔ اندھیرے میں بس والے سواری اتارنے اٹھانے سے ڈرتے۔

سوائے شیخوپورہ اور شاہکوٹ ٹائر پنکچر لگانے کی کوئی دکان نہ تھی۔ پرانے ٹائروں والی کھٹارا فیئٹ کار لے بیٹھے۔ سڑسٹھ میں لاہور سے آتے شیخوپورہ موڑ پہ سڑک پر پھیلے شیشے کے ٹکڑوں سے کار نہ بچا سکے تو فیروز وٹواں پہنچتے ٹائر پنکچر تھا۔ ٹائر تبدیل کر رہا تھا کہ بس کے انتظار میں کھڑا ایک لڑکا مدد کو آ گیا۔ اسے ساتھ ہی لے چلنے کی پیشکش کی۔ تھوڑی ہی دور چلتے پتہ چل چکا تھا کہ دوسرا ٹائر بھی دہائی دینے لگا۔

ویرانہ۔ اچانک سبق یاد آیا۔ چارے کے کھیت کے قریب کار روکی۔ لڑکا بھی کسی مکینک کا شاگرد تھا۔ ٹائر اتار اسے کھولا ٹیوب باہر نکالی اب لڑکا کھیت سے چارہ اکھاڑ اکھاڑ لا رہا تھا اور ہم ٹائر میں ٹھونسے جا رہے تھے۔ ممکن حد تک بھر کے ٹائر فٹ کیا تو وہ اتنا ابھرا تھا جیسے بارہ پندرہ پاؤنڈ ہوا ہو۔ ہدایت کے مطابق انتہائی کم رفتار سے شاہ کوٹ سے امیدیں لگائے وہاں پہنچے تو اندھیرا ہو رہا تھا۔ واحد دکان والے نے شادی کی وجہ سے چھٹی کی تھی۔

واحد بائیسکل ٹائر پنکچر دکان کو بند ہوئے بھی چند منٹ گزر چکے تھے۔ ہماری مشکل دیکھتے ہمسایہ سائیکل اٹھا اس کے پیچھے دوڑا اور اسے گاؤں جاتے راہ سے موڑ لایا۔ اسے صرف سائیکل ٹیوب پہ پنکچر کا تجربہ تھا۔ ٹائر کھولنے اور پنکچر مرمت شدہ ٹیوب ڈال کار میں لگانے کی ذمہ داری ہماری تھی۔ سائیکل میں ہوا بھرنے والے پمپ سے آدھ گھنٹہ تینوں زور لگاتے اتنی ہوا تو بھرنے میں کامیاب ہو گئے کہ ہم فیصل آباد خاصے آہستہ رفتار سے آتے اس چارہ والے ٹوٹکا بتانے والے کو یاد کر رہے تھے۔

پاک و ہند کے مکینکس کے جگاڑ لگانے کی مہارت کی تعریف کرتے آٹو موبائل انٹر نیشنل میں کہانی شائع ہوئی۔ جرمنی سے مرسیڈیز کار پہ دنیا کی سیر کو نکلے ایک جوڑے کی کار دلی سے کلکتہ جاتے خراب ہو گئی اور ایک چھوٹے شہر میں کھڑی کرنا پڑی۔ وہاں کے مکینک کی ہدایت پر دہلی میں مرسیڈیز ڈیلر شپ سے رابطہ پر بتایا گیا کہ مطلوبہ پرزہ جرمنی سے وصول ہونے میں کم از کم سوا مہینہ درکار ہے۔ انہیں بہت پریشان دیکھ مکینک نے کہا کہ کہ اجازت دیں تو میں اپنا دیسی جگاڑ لگا اس پرزہ کی اس طرح مرمت اور تبدیلی کردوں کہ آپ کلکتہ پہنچ جائیں۔ دو تین روز بعد وہ ڈیلر شپ کو پرزہ کلکتہ بھجوانے کا کہہ کر اپنی مرسیڈیز پہ کلکتہ روانہ چکے تھے اور ان کی روداد لکھ رسالہ والے اور خود مرسیڈیز بنانے والے حیران تھے کہ اس کار کو کس مہارت کے جگاڑ سے کلکتہ تک پہنچنے کے قابل بنایا گیا۔ اسے دیا گیا مرسیڈیز کا سرٹیفکیٹ رسالہ کی زینت تھا۔

اس وقت تک بی ایم سی ٹرک میں سرمہ واشر کہلاتے کاربن کی بڑی سی پلیٹ کی جگہ اس کا متبادل شیشم کی سیاہی مائل ہو چکی مضبوط لکڑی سے بنوا عارضی حل ہمارے ہاں تجربہ میں آ چکا تھا۔ اور پاکستانی ان پڑھ مکینک اور خرادیے مل کر دماغ لڑاتے روز کسی ورکشاپ میں پھنسی ٹرانسپورٹ کا کوئی نہ کوئی مسئلہ حل کرتے داد سمیٹ رہے تھے۔

وقت گزرتا گیا اور ذہن کی کتاب میں بتائے جاتے رہے جگاڑ اور ٹوٹکوں کے نسخوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ فین بیلٹ ٹوٹ جائے اور فالتو موجود نہ تو ازار بند زور سے ٹائٹ باندھ آپ شاید دو چار میل آہستہ آہستہ کسی محفوظ ٹھکانے پہنچ سکیں۔ ڈھلوان یا چڑھائی پہ رکتے اس سائیڈ پہ کسی رکاوٹ والی جگہ رکیں۔ ڈھلوان پہ رکتے فرنٹ ٹائر کو رکاوٹ کی طرف اور چڑھائی پہ سڑک کی طرف موڑ کے رکھیں۔ تا کسی کوتاہی یا غلطی سے کار چل پڑے تو رکاوٹ سے ٹکرا رک جائے۔ یہی نسخہ چلتے بریک ہونے پر استعمال کریں ریڈی ایٹر لیکیج پہ یا راستہ میں گاڑی گرم ہونے پر احتیاطیں اور ٹوٹکے اور اس کے علاوہ کئی۔ ان میں سے کئی ٹوٹکے اڑتیس سالہ پاکستان کی ڈرائیونگ یا خود استعمال کر منزل پہ یا محفوظ جگہ پہنچنے میں کامیاب رہے یا راستہ میں پھنسے پریشان کار سواروں کی رہنمائی کرتے رہے۔

انیس سو ستر میں جب پہلی مرتبہ پہاڑی علاقوں کی سیر کو نکلنا تھا ایک ٹرک ڈرائیور نے کہانی سنائی۔ شدید گرمی میں مری سے اسلام آباد آتے لگاتار اترائی میں بریک پہ پاؤں رکھے یا بار بار بریک لگانے سے وہیل بریک ڈرم، راٹر، بریک لائننگ وغیرہ بہت زیادہ گرم ہوکے کچھ پھول جاتے اور بریک کام چھوڑ گئی محسوس ہوتی۔ اور وہ اسلام آباد کے نزدیک پہنچ پریشان سڑک کے ساتھ بنی ورکشاپوں کا سہارا لیتے۔ مکینک مسافروں کو سائے میں بٹھا چائے پانی میں مصروف کر دیتے اور خود یونہی ٹھک ٹھک کرتے گھنٹہ بھر بعد بریک ٹھیک ہونے کی خوش خبری سنا ڈیڑھ دو سو کا بل تھما دیتے۔

جب کہ اس وقت یہ پرزے خود ہی یا چھوٹے کے انڈیلے پانی سے ٹھنڈے ہو اپنی بیماری سے نجات پا چکے ہوتے۔ ان مکینکسں کے روزانہ ہزار دو ہزار محض لوگوں کو ٹھنڈی جگہ بٹھا خاطر داری سے خوش کرتے بن جاتے۔ یہ سبق تمام عمر کام آیا جب بھی پہاڑی سفر کیا ہر گھنٹہ دو گھنٹہ بعد کسی مناسب جگہ رک کچھ وقت آرام کیا۔ مری سے اترتے چھرا پانی اور چھتر پلین ضرور رکتے۔

دو ہزار سترہ میں کینیڈا میں نئی ایکورا ایم ڈی ایکس کار نکلوائی۔ چھٹی والے اور خاصے کڑکتی دھوپ والے دن نیاگرا کا پروگرام بنا۔ ٹورنٹو کی حدود نکلتے ہی ٹریفک مکمل جام تھی۔ اور کار کچھوے کی رفتار سے چلتی ہر چند قدم پہ بریک لگواتی۔ ابھی نیاگرا تیس چالیس کلو میٹر دور تھا کہ ڈیش بورڈ پہ ایک سینسر کی لائٹ جلی دو تین منٹ بعد دوسری۔ رستہ کھلتے ذرا رفتار بڑھائی تو کار چل ہی نہ رہی تھی۔ بڑی مشکل سے ہائی وے سے ذیلی سڑک پہ اترے ہی تھے کے کئی سینسر چراغ بن روشن ہو چکے تھے اور کار بند ہو چکی تھی۔

کمپنی کی آن لائن ریپئر سروس کی نصف گھنٹہ کی کوشش ناکام رہی تو کمپنی نے ٹو ٹرک بھیجا۔ کار اور باپ بیٹا اور بیگم ٹرک سوار برامپٹن ڈیلر شپ آئے۔ ٹرک والا مین گیٹ پہ اتار چلا گیا۔ چھٹی کا دن اور پھر غروب آفتاب کا وقت۔ دھکا لگا کار ڈیلر شپ کی حدود میں چھوڑنے کا پروگرام بنا۔ یونہی بیٹے نے سٹارٹ کا بٹن دبایا تو کار بالکل درست اور تمام چراغ بجھے نظر آئے اور آرام سے کار پارکنگ میں کھڑی کر واپس آ گئے۔ اگلے سات دن کار ڈیلر شپ کی ورکشاپ کے تمام حربے اور سنٹرل آفس سے رابطہ کے باوجود کوئی نقص نہ ملنے پر ہمیں بالکل تندرست قرار دے واپس مل چکی تھی۔

مگر میرے ذہن میں مری روڈ والی کہانی چونچیں مارنا شروع تھی۔ اگلے ہفتہ ہی اور چھٹی والے دن بیٹا اپنی فیملی کے ساتھ ہائی وے پہ نیو مارکیٹ جا رہا تھا۔ ٹریفک اس روز کی طرح جام اور بریک پیڈل کی متقاضی تھی۔ مجھے بیٹے کا فون پھر وہی کہانی سناتے سائڈ روڈ پہ بخیریت نکل جانے کا بتا رہا تھا۔ اسے اپنا خدشہ بتا کوئی آدھ گھنٹہ بعد سٹارٹ کرنے کا کہا۔ اور ایک گھنٹہ بعد اس کے بخیریت نیو مارکیٹ پہنچنے کی خبر آ گئی۔ اگلی صبح پھر گاڑی ڈیلر شپ پہنچا گاڑی تبدیل کر نئی گاڑی کا مطالبہ کیا چکا تھا اور ڈیلر شپ نے ایک اور چانس کی درخواست کی۔

فیکٹری سے آئی ٹیم بھی نقص ڈھونڈنے میں ناکام رہی تو ایک ماہ بعد ہم نئی کار کی چابی پکڑ رہے تھے اور پھر ڈیلر شپ ورکشاپ کے انچارج مکینک کو علیحدہ لے جا کار کا درد بیان کر رہے تھے۔ اس کا منہ حیرت سے کھلا تھا اور جھینپتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ آپ کا تجزیہ تو بالکل درست معلوم ہوتا ہے اس رخ پہ غور ہی نہیں کیا گیا مگر پھر بھی ہم تو کمپیوٹر اور سینسر کے غلام ہوچکے ہیں۔ اس سے باہر سوچنے کی بھی اجازت نہیں۔ اتنی تکلیف کے لئے معذرت اور نئی کار مبارک۔ موجیں کریں۔

سب سے دلچسپ سفر کا ہمارا انیس سو اٹھتر کا وہ دن تھا جب ہم لگاتار بارش کی وجہ سے ناران سے ہی واپس ہو جیپ ڈرائیور کے مشورے پر شوگران کا رخ کر چکے تھے۔ وادیٔ کاغان کی تمام سڑکیں ابھی کچی کہیں ون وے ہی تھیں اور شوگران کی جیپ روڈ تو بہت دشوار گزار، نا ہموار پتھر بہت تنگ موڑ اور موڑ مڑتے یک دم انتہائی تیز اونچائی یا ڈھلوان والی تھی اور اس روز تو بارش کے بعد کیچڑ بھری تھی۔ انیس سو اکتالیس کے ملٹری ماڈل کی اس جیپ میں دو فیمیلیز کے ہم چار بڑے اور چھ بچے سوار تھے۔

چڑھائی سے پہلے ادھیڑ عمر پٹھان ڈرائیور نے مجھے اور میری ہم عمر بھانجی کو تربیت دی۔ لکڑی کے دو ترشیدہ ٹکڑے ہماری رانوں پہ تھے۔ میں ڈرائیور کے ساتھ والی نشست اور بھانجی پچھلی نشست پہ دوسری طرف۔ جونہی کوئی خطرناک موڑ آتا ڈرائیور طبل جنگ بجاتا ہم تقریباً رکتی جیپ سے اتر پچھلے ٹائروں کے پیچھے وہ لکڑی کے ڈک کی اصطلاحی نام والے ٹکڑے رکھتے۔ اور ڈرائیور گیئر بدل گاڑی کو کیچڑ میں پیچھے پھسلنے سے پہلے اوپر آگے مناسب جگہ روکتا اور ہم دونوں بھی جا بیٹھتے۔

شوگران ٹاپ پہ پہنچتے ہم تین چار مرتبہ یہ کارنامہ انجام دے چکے تھے۔ اور ریسٹ ہاؤس کے بہت ہی لذیذ کھانے کے دوران باقی افراد کا خوف دور ہو چکا تھا۔ واپسی خیریت سے ہو گئی مگر جیسے ہی پارس کے پاس پہنچے جیپ نے کھڑاک شروع کر دیے۔ اور پارس کے سٹاپ پہ جیپ رُک گئی۔ ڈرائیور نے اعلان کیا کہ کلچ کام چھوڑ گیا ہے۔ مگر فکر نہ کریں۔ میں دیکھ رہا تھا اس نے گیئر بکس کی اوپر والی پلیٹ کھولی، جانے اندر ہاتھ ڈال کیسے گھماتا رہا۔

ہاتھ واپس نکلا تو اس میں مکینک زبان میں آنگڑہ کہلاتا کلچ فورک تھا۔ ”کلچ سے رابطہ گیئر کا ختم ہے۔ فکر نہ کریں سب ٹھیک ہے، چلیں بیٹھیں“ کہتے اس کے چہرے پہ اطمینان تھا اور ہمارے خون خشک۔ ہم سوچ ہی رہے تھے کہ کلچ دبائے بغیر یہ گاڑی سٹارٹ کیسے کرے گا اور گیئر کیسے بدلے گا۔ شاید دھکا سٹارٹ۔ مگر اس نے پہلے گیئر میں ڈال سوچ گھمایا بیٹری کے زور پہ پہیے گھومے اور جیپ سٹارٹ ہو کر دوڑ رہی تھی۔ بالا کوٹ ریسٹ ہاؤس تک آتے وہ ہمیں بغیر کلچ دبائے کار سٹارٹ کرنے بغیر کلچ تمام گیئر اوپر نیچے کرنے کے اسرار و رموز سمجھا ماہر کر چکا تھا۔

اس کے بعد بائیس تئیس برس کی پاکستان میں ڈرائیونگ اس سفر کی سیکھی مہارت، جگاڑ اور ٹوٹکے نہ صرف ہمارے بہت کام آئے بلکہ اپنوں پرایوں اور راہ پھنسے مسافروں کی دعائیں بھی دلواتے رہے۔ اس کے بعد ہمیں کبھی بھی نہ سوات کی مالم جبہ نہ شانگلہ ٹاپ نہ ٹھنڈیانی تک کے اس وقت سنگل روڈ کے سخت چڑھائی اترائی اور تنگ موڑوں والی لکیر جیسی پکی کچی سڑکوں پہ سفر کرتے چوٹیوں پہ پہنچنا کوئی خطرناک مہم سر کرنا لگا۔

قسمت نے کینیڈا لا بٹھایا تو یہاں پہلی بار ڈرائیونگ ٹیسٹ دینے کا تجربہ بھی ہو گیا۔ قواعد کی کتاب میں بہت سے ہمیں بوڑھے ڈرائیوروں کے بتائے ٹوٹکے بطور قاعدہ قانون موجود ملے۔ ابتدا یہاں بھی پرانی کار سے کی۔ کبھی کبھار ضرورت پڑی تو ڈھونڈ کے اور سفارش کروا پہلے پاکستانی اور ان کی دیانت کے کھیل دیکھتے ہندوستانی اور مقامی مکینک شاپس پہ تجربے بھی ویسے ہی خوش گوار نکلے مگر آخر لدھیانہ کا پال سنگھ نامی اپنے فیصل آبادی جہانگیر کی طرح ہمارا مستقل مکینک بن گیا۔

نئی نئی ٹیکنالوجی اور نئے زمانے نے ٹرانسپورٹ کے شعبے میں انقلاب لا چھوڑا ہے۔ کار کا بونٹ اٹھا نہ وہاں ہاتھ ڈالنے کی گنجائش نہ کوئی نظام پلے پڑتا ہے۔ کمپیوٹر کی دنیا ہمارے جگاڑ اور ٹوٹکوں بھری ڈرائیونگ محض یادداشتوں میں دفن کر چکی۔ کار نئی خریدی جاتی ہے چار یا پانچ سال کی بمپر ٹو بمپر وارنٹی ہوتی ہے سوائے روٹین کی ضروری تیل پانی ٹائر قسم کی بدلنے والی اشیاء کے۔ ہر چیز کمپیوٹر اور موبائل فون پہ جا چکی۔

ہم اب بھی چوراسی سال کی عمر تک ڈرائیونگ لائسنس بڑھاپا ماڈل ٹیسٹ دے حاصل کرنے میں کامیاب ہیں اور رش والی سڑکوں لمبی ڈرائیونگ سے خود پرہیز کرنا شروع کر چکے۔ گو کھلی اجازت ہے۔ شاید سات برس ہوچکے روز بونٹ اٹھا تیل پانی بیٹری فین بیلٹ چیک کر کے سٹیئرنگ پہ بیٹھنے والوں نے ایک مرتبہ بھی بونٹ اٹھا یہ تک نہیں دیکھا کہ اندر انجن کی ہیئت کیا ہے اور کس طرح کام کرتا ہے۔ الیکٹرک کار ٹیسلا میں تو کچھ نظر آنے والا ہے ہی نہیں۔ اب ہم انگلی میں کار کی چابی گھماتے باہر نہیں نکلتے اور کار چلانے کے لئے پچاس کی دہائی کی فلم ٹیکسی ڈرائیور کا بس یہی گیت گنگنانا پڑتا ہے۔ بس تھوڑا کمپیوٹرائزڈ کر کے۔ یعنی
” بابو! سمجھو اشارے۔ ہارن پکارے۔ پم پم پم۔ “ کی بجائے ”جانو! سمجھو اشارے۔ موبائل پکارے۔ چل چل چل۔“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments