نئی تنقید اور ابہام کی سات قسمیں


چوتھی قسم کے ابہام کی وضاحت کے لئے مجید امجد کی نظم توسیعِ شہر بہت مناسب مثال بن سکتی ہے۔

بیس برس سے کھڑے تھے جو اس گاتی نہر کے دوار
جھومتے کھیتوں کی سرحد پر بانکے پہرے دار
گھنے سہانے چھاؤں چھڑکتے بور لدے چھتنار
بیس ہزار میں بک گئے سارے ہرے بھرے اشجار
جن کی سانس کا ہر جھونکا تھا ایک عجیب طلسم
قاتل تیشے چیر گئے ان ساونتوں کے جسم
گری دھڑام سے گھائل پیڑوں کی نیلی دیوار
کٹتے ہیکل جھڑتے پنجر چھٹتے برگ و بار
سہی دھوپ کے زرد کفن میں لاشوں کے انبار
آج کھڑا میں سوچتا ہوں اس گاتی نہر کے دوار
اس مقتل میں صرف اک میری سوچ لہکتی ڈال
مجھ پر بھی اب کاری ضرب اک اے آدم کی آل ( )

اس نظم میں پیڑوں کے کٹنے کا نوحہ ہے لیکن سطروں میں ربط بہت انوکھا قائم کیا ہے، دوسری سطر میں پیڑوں کو پہریدار کہا ہے اور ایک انسان کے طور پر پیش کیا ہے اس لئے اس سطر کا تعلق نویں سطر ”سہمی دھوپ کے زرد کفن میں لاشوں کے انبار“ سے بنتا ہے کیوں انسانوں کے لیے ہی لاش کا لفظ برتا جاتا ہے۔ یہ پہریدار ماحول، زمین، فضا اور زندگی کی بقا کی حفاظت پر معمور ہیں۔

تیسری سطر کا ”گھنے سہانے چھاؤں چھڑکتے بور لدے چھتنار“ میں چھتنار کی مناسبت سے تعلق آٹھویں سطر ”کٹتے ہیکل جھڑتے پنجر چھٹتے برگ و بار“ سے بنتا ہے جس میں ان کے کٹنے، جھڑنے کا منظر پوری طرح عیاں ہوتا ہے۔ چوتھی سطر کا تعلق ”بیس ہزار میں بک گئے سارے ہرے بھرے اشجار“ کا تعلق ساتویں سطر ”گری دھڑام سے گھائل پیڑوں کی نیلی دیوار“ سے بنتا ہے۔

پانچویں اور چھٹی سطر آپس میں جڑی ہوئی ہیں، چونکہ سانس لینے کا تعلق انسان سے ہے اسی مناسبت سے انھیں ساونت کہا گیا ہے۔ شاعر اس نظم میں پیڑوں کو انسان محسوس کرتا ہے۔ آخری دو سطروں میں تو ”آؤ تلوارو مجھ پر ٹوٹ پڑو“ جیسی کیفیت پیدا کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے، گویا یہ میدانِ کربلا تھا۔

ایک اور شعر کی مثال پیش ہے جس میں نحوی انتشار، تعقید لفظی اور شاعر کی کیفیت مکمل بیان کی جا سکتی ہے :، اور تعقید شاید دنیا کی ہر زبان میں موجود ہے اسی حوالے سے ایک شعر بطور مثال پیش کرنا مناسب ہے :

پلکوں سے جن کو جلتے زمانوں نے چن لیا
وہ پھول اس روش پہ ترے نقشِ پا کے ہم ( )

دوسرا مصرع مکمل Object ہے اور پہلے مصرع میں subject جلتے زمانے اور فعل چننا ہے۔ اس شعر کا سادہ مفہوم تو یہی بنتا ہے کہ اس روش پر ہم ترے نقشِ پا کے پھول تھے جن کو جلتے زمانوں نے چن لیا۔ جلتے زمانوں سے مراد غیظ و غضب سے بھرے اہلِ زمانہ ہو سکتے ہیں۔ اس شعر سے شاعر کی عاجزی عیاں ہے کہ وہ خود کو کسی کے قدموں کے ابھرے نشان سمجھتا ہے جنھیں پھولوں سے تشبیہ دی ہے۔ پلکوں سے چننے کا معنی یہی ہو سکتا ہے کہ پھولوں کو بڑی نزاکت سے چنا اور سنبھالا گیا۔ اسی شعر کے لفظ ہم کو فاعل جلتے زمانوں کے ساتھ شمار کریں تو معانی الٹ جاتے ہیں۔ ہم جلتے زمانوں نے اس روش پر ترے نقشِ پا کے پھول پلکوں سے چن لیے۔ شاعر یہاں عاجز نہیں رہا، اس کا غیظ و غضب لفظ جلتے کی وجہ سے عیاں ہے، ہم جلتے زمانوں کی ترکیب سے کئی قسم کے معانی اخذ کر سکتے ہیں۔ بے وفائی، ناقدری، تیرے ہجر، تیرے ظلم و ستم اور تیرے ناروا رویے کی وجہ سے غیظ و غضب تھا اس کے باوجود جہاں بھی تیرے ہونے، تیرے گزرنے کا نشان نقشِ پا ملا اسے نرماہٹ اور محبت سے سنبھال لیا۔ شاعر ناقدری کے باوجود کسی کے لئے بہت نرم گوشہ رکھتا ہے۔

پانچویں قسم کا ابہام تب ظاہر ہوتا ہے جب لکھاری، اپنے لکھنے کے عمل کے دوران میں کسی خیال کی دریافت کر رہا ہو یا فوری طور پر پورے کا پورا ذہن میں سہار نہ پا رہا ہو۔ اس لیے مثال کے طور پر کوئی تشبیہ جس کا اطلاق درست طور پر کسی شے پر نہ ہو سکے لیکن دو اشیا کے درمیان کہیں موجود ہو جب لکھاری ایک سے دوسری چیز کی طرف متوجہ ہو۔ گویا ایک تشبیہ سے دوسری تشبیہ کی طرف منتقلی، پانچویں قسم کا ابہام پیدا کرتی ہے۔ ولیم ایمپسن اس کے لیے ایک مختصر مثال دیتا ہے :

Our Natures do pursue
Like Rats that ravyn downe their proper Bane
A thirsty evil, and when we drinke we die.
) Measure f or Measure, I. ii ()

ہماری فطرتیں ہمارا پیچھا کرتی ہیں
چوہوں کی طرح جو انھیں مناسب و مہلک زہر تک لاتی ہیں
ایک پیاسی برائی، اور جب ہم پیاس بجھاتے ہیں، ہم مر جاتے ہیں۔

فطرتوں کو چوہوں سے تشبیہ دی گئی ہے اور زہر کو پیاسی برائی سے تشبیہ دی گئی ہے جسے پی کر ہم مر جاتے ہیں اور فطرتوں کی بات لٹکی رہ گئی۔ یہ ایک تشبیہ سے دوسری تشبیہ کی طرف جست تھی لیکن اصل بات رہ گئی جس کے لئے اس نظم کا آغاز کیا گیا۔

اردو سے اس قسم کے ابہام کی مثال درج ذیل نظم کا ٹکڑا ہے :
جب شام کا تاگا ٹوٹ رہا تھا
اس نے ساتویں منزل کی کھڑکی سے
نیچے جھا نکا
ایک اشبھ نا دیدہ
موجودگی، جیسے دور سیہ بلی روتی ہو
ایک سیہ کائیں کائیں
چاروں جانب پھرتی سیاہی کو محسوس کیا
کس منحوس گھڑی کا سامنا تھا ( )

نظم میں شام کے اختتام اور رات میں تبدیل ہونے کا عمل ہے، جب شاعر ساتویں منزل سے جھانک کر نیچے دیکھتا ہے تو اسے کسی پراسرار وجود کا احساس ہوتا ہے جسے وہ سیہ بلی سے تشبیہ دیتا ہے۔ اس کے فوراً بعد سیہ کائیں کائیں کی تشبیہ سامنے آ کھڑی ہوتی ہے، یہ دوسری تشبیہ سیاہی پھرنے کے لیے ہے۔ یہ دونوں تشبیہیں منحوس گھڑی کے لئے بھی درست ہیں چونکہ شام کا اختتام ہو رہا ہے تو اس کا تعلق روتی سیہ بلی اور منحوس گھڑی سے قائم کیا جا سکتا ہے۔ کائیں کائیں کی آواز جو بکھرتی اور پھیلتی ہے، اسے رات کی سیاہی کے پھیلنے کے لیے بھی برتا جا سکتا ہے۔ لیکن اشبھ نادیدہ موجودگی کا ذکر درمیان میں لٹکا رہ گیا۔

چھٹی قسم کا ابہام تب ظاہر ہوتا ہے جب کوئی بیاں کسی تکرار، کسی تضاد یا غیر متعلق بیانات پر بھی کچھ ظاہر نہ کرے تاکہ قاری خود سے کچھ بیانات قائم کرے اور وہ بیانات ایک دوسرے کی ضد ہونے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ تکرار سے قائم ہونے والا چھٹی قسم کا ابہام ( غیر متعلق تکرار سے ) درج ذیل صورتوں کی تقلید سے مکمل ہوتا ہے : ذومعنی لفظ کو دو بار استعمال کیا جائے گا اور ہر بار الگ معنی میں۔ پھر ابہام کی گہری دھند اس شک سے ابھرے گی کہ کون سا معنی کس لفظ سے منسوب ہیں۔ اس قسم کا ابہام اردو شاعری میں بہت عام ہے اس لئے اس کی صرف ایک دو انگریزی مثالوں پر اکتفا کرنا صائب ہے :

Zuleika was not strictly beautiful. ( )
زلیخا بس صحیح خوبصورت نہیں تھی

آپ اسے کوئی مبتذل قسم کی چیز خیال نہ کریں، آپ یہ بھی فرض نہ کریں کہ وہ کس قسم کی تھی اور کس قسم کی نہیں تھی، وہ غالباً مشکل قسم کی چیز تھی جس کی خصوصی طور پر تعریف کرتے ہیں۔ اس طرح ( غالباً یہ ابتدائی چال میں، ہجو ہے ) حسد کی تسکین ہوتی ہے، خیال کو آزاد چھوڑا جاتا ہے اور کچھ بھی نہیں کہا جاتا ہے۔ یہ حسن کی کون سی محدد خوبی ہے جو مصنف کے خلاف بھی استعمال کی جاتی ہے۔

Her eyes were a trifle large, and the lashes longer than they
need have been. ( )

اس کی آنکھیں تھوڑی لمبی تھیں، ابرو ضرورت سے زیادہ لمبے تھے۔

یہ معلوم نہیں ہو سکتا کتنے تھوڑے لمبے تھے، قاری کے پاس کسی تیقن کے کوئی ذرائع نہیں ہیں، وہ سحرزدہ یا حیران ہو سکتا ہے۔ میرے لیے ادبی نکتہ نظر سے، یہ ایک غلط قسم کا چہرہ ہے لیکن عزیزو میری بات کو محسوس نہ کرنا اور نہ ہی اپنی دلچسپی ضائع ہونے دینا۔ اس کا خطِ ابرو شرمناک نہیں تھا، اس کے گیسوؤں کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ گھنگھریالے تھے۔

اردو غزل اور نظم میں اس قسم کے ابہام کی بکثرت مثالیں ہیں۔ ایک مثال پیشِ خدمت ہے :
تسخیر فقط اگلوں نے عالم کو کیا تھا
اور تونے کیا ہے دلِ عالم کو مسخر ( )

عالم کے کئی معانی ہیں لیکن یہاں ان کا استعمال یوں ہوا ہے کہ متضاد نظر آتے ہیں، معانی یوں وضع ہوتے ہیں کہ پہلے کے لوگوں نے کوئی بہت بڑا اور اچھا کام کیا تھا اور تم نے دلِ عالم مسخر کر کے کوئی بہت برا کام کیا ہے۔ اس شعر کو لہجہ بدل بدل کر اور کچھ لفظوں پر زور دے کر پڑھا جائے تو معانی میں مطابقت و تضاد قائم کر کے کئی قسم کے معانی پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ عالم سے مراد زمینی حصے کا کوئی گوشہ علاقہ ہو سکتا ہے لیکن اس کے حدود کا تعین مشکل ہے۔

ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی ( )
اس شعر میں لفظ کوئی کے معانی میں بھی اسی طرح مطابقت و تضاد پیدا کیا جا سکتا ہے۔

ساتویں قسم کے ابہام کی مثال یا اس سلسلے کی آخری قسم جو بہت زیادہ مبہم سمجھی جا سکتی ہے، اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب ایک خاص لفظ کے دو معنی، ابہام کی دو قدریں، دو متضاد معانی ہوں جن کی تشریح سیاق سے ہوتی ہو اور پورا تاثر مصنف کے ذہن میں بنیادی تقسیم کو دکھا سکے۔ اس کے لیے ایمپسن کی مثالوں میں سے صرف دو مثالیں پیش خدمت ہیں :

Wisely you have, whate ’er will please, reveal‘ d,
What wou ’d displease, as wisely have concealed. ( )

جس بات نے تمھیں خوش کیا، وہ دانشمندی سے ظاہر کردی
جس بات سے ناخوش ہوئے اسی عقل مندی سے چھپا لی

ان سطروں میں دانش مندی اور عقل مندی کے لئے ایک ہی لفظ استعمال ہوا ہے اور چھپانا اور ظاہر کرنا سے صنعتِ تضاد کی تشکیل بھی ہو رہی ہے۔ ایک اور مثال دیکھیں :

I taught my silkes, their whistling to forbeare,
Even my opprest shoes, dumb and speechlesse were.
) DONNE, Elegy, iv. 51 ( ) (

میں نے اپنے ریشمی کپڑوں کو سکھا دیا ہے سیٹیوں سے باز رہنا
حتی کہ میرے دبائی ہوئی مخلوق جیسے جوتے بھی گنگ اور خاموش تھے۔

گنگ اور خاموش کے ایک جیسے معانی ہیں لیکن ان کی صوت خاموشی اور شور کو بالترتیب ظاہر کرتی ہے جس سے اس کی توجہ براہ راست ہوتی ہے۔

ان مثالوں پر تھوڑا سا غور کریں تو کئی اشعار سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں۔ ساتویں قسم کے ابہام کے لئے دو شعر بطور مثال پیش ہیں :

کھردرے میلے پھٹوں میں کپڑوں میں بوڑھے مالی
یہ چمن بند جو گزرے ہوئے سلطانوں کی
ہڈیاں سینچ کے پھلواڑیاں مہکاتے ہیں
گھاس کٹتی ہے کہ دن ان کے کٹے جاتے ہیں۔ ( )

مالی اور چمن بند دونوں کا ایک معنی ہے لیکن مالی لفظ کے ساتھ غربت و تنگ دستی اور خستگی کا تصور ہے جو سطر میں اسمائے صفات کھردرے میلے اور پھٹے سے واضح ہے، سلاطین کے ساتھ رعب و دبدبہ، شان شوکت منسوب ہے اور بلند ذوق کے حامل ہوتے ہیں اور آرائش پسند بھی، اس لئے چمن بند برتا گیا ہے کیونکہ چمن بند Artistفنکار بھی ہوتا ہے جو interior decoration آرائش بھی کرتا ہے۔

آخری سطروں میں دونوں کی حیثیت برابر کر دی ہے، پھلواڑیاں مہکانا اور آرائشِ چمن کی حیثیت سلاطین زندہ ہوں یا مردہ ہوں، گھاس کٹنے جیسی ہے۔

ولیم ایمپسن اسی حوالے سے ایک اور واضح مثال دیتا ہے :

Come what come may,
Time, and the Houre, runs through the roughest Day .

جو ہونا ہے ہو جائے
وقت، گھنٹے، بہت برے دن میں چل رہے ہیں۔

ان دو سطروں میں لفظ Come دو بار استعمال ہوا ہے، اردو میں اس طرح کے استعمالات بہت عام ہیں، ایک ہی لفظ کو دو مختلف یا ایک ہی معنی میں استعمال کرنے کی روش اردو کلاسیکی شاعری میں بہت عام ہے۔ درج بالا انگریزی مثال کے قریب تر ابراہیم ذوق کا مشہور شعر ہے :

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

قاری اسے پڑھتے ہی موت کے تمام تکلفات بھول کر اور دیگر اسرارِ نہاں کو سمجھے بغیر یا انھیں نظر انداز کر کے، چین نہ پانے کا مفہوم سمجھ لیتا ہے اور یہی شاعر کی منشا ہے۔ ابہام یہ ہے کہ شاعر نے موت کو بھی زندگی جیسا حشر ساماں کر دکھایا ہے۔ حالانکہ موت زندگی کا نقیض ہے، جہاں زندگی اور اس کے تکلفات اور مسائل معدوم ہو جاتے ہیں۔ موت یا مرنے کو بھی اس دنیا جیسی زندگی قیاس کیا گیا ہے۔

ابہام کے سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ اس کا تعلق معنی آفرینی اور تجزیے سے ہے، نشان دہی سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کے بارے میں کچھ اردو ناقدین نے لکھا ضرور ہے لیکن ابہام کو عیب یا خوبی قرار دینے سے کسی حد تک گریز کرتے رہے ہیں۔ ولیم ایمپسن نے ابہام کو جن بنیادوں پر قائم کیا ہے، ان کی کسی حد تک وضاحت کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ ابہام بطور اصطلاح ایک خوبی ہے جو متن کے تجزیے اور معنی آفرینی میں استعمال ہوتی ہے۔ علم بیان کی طرح کا کوئی سلسلہ نہیں ہے۔ کسی متن میں اگر محض قواعد کی مدد سے معنی کا سلسلہ قائم ہو، اس کا تعلق ابہام سے نہیں بنتا۔ گویا ابہام لفظی اور لسانی تجزیے سے وجود میں آتا ہے۔ اردو میں بے شک ابہام کی کچھ قسموں کے باقاعدہ نام نشان زد کیے جا سکتے ہیں، جیسے صنعتِ تضاد، ایہام، تلمیح، تشبیہ اور استعارہ لیکن ضروری نہیں کہ جہاں ان کا استعمال ہو وہاں ابہام بھی ہو۔ ابہام مختلف اور مخفی معانی کے قیام اور لفظوں کی نئی تجنیسوں سے قائم ہوتا ہے۔ ابہام کی جتنی قسمیں زیرِ بحث رہی ہیں، انھیں اردو کی حد تک آرائشی ابہام کہا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں علمِ بیان بھی شامل ہے۔ کچھ ایسی قسمیں بھی شامل ہیں جن میں صنائع بدائع، تجنیس لفظی و معنوی دخیل نہیں۔ ان کا ذکر ابھی موقوف کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3