نئی تنقید اور ابہام کی سات قسمیں


آئی۔ اے رچرڈز، ایف آر لیوس اور ولیم ایمپسن جیسے ماہرینِ ادبیات نے نئی تنقید کے دبستان کی فکری بنیادیں استوار کیں۔ ان نئے ناقدین نے ادب کے مطالعہ کو منظم کرنے کی کوشش کی۔ ان کی پوری توجہ متن کی Close reading پر مرکوز تھی۔ یعنی اس کی توجہ کا مرکز، متن کی زبان، بحر، منظر کشی، تشبیہ و استعارہ اور کئی قسم کی صنعتوں اور تجانیس جیسے متنی پہلو تھے۔ اس میں تاریخ، مصنف کی سوانح حیات جیسے بیرونی شواہد اور متن کی تخلیق کے سماجی و سیاسی اور ثقافتی حالات کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ اگرچہ نئے ناقدین کولرج کی تاثراتی تنقید کے خلاف تھے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ انھیں نظم کے اس تصور کی بنیادی کلید کولرج سے ملی تھی جو نظم کے اندرونی تضادات کو ہم آہنگ کر کے توازن قائم کرتی ہے۔

نئے نقاد متن کے خود مکتفی ہونے پر یقین رکھتے تھے، اسے اپنی ذات اور اپنی موجودہ صورت میں مکمل اور مصنف کے ارادے، تاریخ وغیرہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں سمجھتے تھے۔ متن کی کلوز ریڈنگ کی تکنیک سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے رسمی پہلو متن کے اندر معنی کی ساخت کو سہارا دیتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ نقاد کا کام قارئین کو فنکار کی فنی صورت اور تکنیک اور مہارت کی تحسین کرنے میں مدد کرنا ہے۔ آرنلڈ اور ٹی ایس ایلیٹ کی طرح، نئے ناقدین کا بھی خیال تھا کہ ”مغربی روایت“ فنکارانہ کنوینشن کے مجموعے کا مکمل تسلسل ہے، اعلی فن اسی روایت سے ابھرتا ہے اور اس میں توسیع کرتا ہے اور یہ کہ ایک نقاد کا کام روایت کو برقرار رکھنا اور اسے کمرشل ازم، سیاسی انداز، فحاشی اور تجاوزات سے بچانا ہے۔ ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ ادبی تنقید داخلی تدوین کا عمل ہے جو ”اچھے“ قارئین کی حساسیت کو تقویت دیتی ہے۔ جدیدیت پسندوں کی طرح، انہوں نے بھی اعلی ”آرٹ اور مقبول آرٹ کے درمیان فرق کیا اور کہا کہ“ اچھا ”ادب آفاقی اقدار کی عکاسی کرتا ہے اور لازوال اہمیت کا حامل ہے۔

نئی تنقید کسی فن پارے کا تخمینہ اور تعینِ مقام و قدر نہیں کرتی بلکہ متن کے معنوی تجزیے پر زور دیتی ہے۔ اسے تنقید کا تجزیاتی طریقِ کار کہا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے ولیم ایمپسن کی کتاب ابہام کی سات قسمیں بہت اہم ہے۔

ولیم ایمپسن آئی اے رچرڈز کا شاگرد تھا۔ آئی اے رچرڈز نے لفظ کے کلی معنی کی بنیاد Sense، feeling، intention اور Tone پر رکھی تھی۔ وہ سنس کو لکھاری کے ادا کردہ مضامین، فیلنگز میں جذبات، دلچسپی، ارادہ، عزم اور خواہشات، کو شامل کرتا تھا، ٹون کا تعلق قاری سے جوڑتا تھا اور انٹینشن میں لکھاری کا شعور اور لاشعور شامل کرتا تھا۔ ولیم ایمپسن نے اپنے استاد کے اسی کام کو آگے بڑھا کر ابہام کے سات سلسلوں تک پھیلا دیا۔ جسے انگریزی ادبیات کی بدیع و بیان کی کتاب کہنا درست ہے کیونکہ اس میں کچھ قسموں کا تعلق بیان سے اور کچھ کا تعلق بدیع سے ہے۔ اس کتاب میں ہر دو کی اقسام بروئے کار لا کر ، ابہام کی قسموں کے درمیان افتراق قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ کام اردو بدیع و بیان کے مباحث سے یکسر مختلف نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو میں بیان اور بدیع کے مباحث صرف نشان دہی تک محدود ہے۔

قاری اردو بیان و بدیع سے تھوڑی بہت آشنائی رکھتا ہو تو بہت سے مقام پر اردو اصطلاحات کی وضاحت اور افتراق و مطابقت کی نشان دہی کر سکتا ہے۔ اردو میں بیان و بدیع کے مباحث میں جو باریکیاں اور پیچیدگیاں ہیں وہ دیگر مغربی زبانوں میں سرے سے مفقود ہیں۔ علمِ بیان کی یہ تعریف کہ اس کی مدد سے ایک معنی کو مختلف طریقوں سے ادا کیا جا سکتا ہے، فی الوقت تک ادھوری محسوس ہوتی ہے۔ کسی ماہر، نقاد اور محقق نے اس ضمن میں کبھی کوئی مثال پیش نہیں کی کہ کس طرح ایک معنی کو مختلف طریقوں سے ادا کیا جاتا رہا ہے۔ اس کی تعریف یہ ہونی چاہیے کہ علمِ بیان ان قاعدوں کا نام ہے جن کی مدد سے نا صرف کسی معنی کو مختلف طریقوں سے ادا کیا جا سکتا ہے بلکہ اس میں معنوی تنوع بھی پیدا کیا جا سکتا ہے اور معانی کو پابند بھی کیا جا سکتا ہے۔ جیسے تشبیہ مفصل میں معنی پابند ہوتے ہیں اور اس سے کوئی اور معنی پیدا نہیں کیا جا سکتا ہے۔ علمِ بیان میں معانی کے تمام سلسلے دلالت سے پیدا ہوتے ہیں۔

ولیم ایمپسن ابہام میں معانی کے ہر اس سلسلے کی مخالف کرتا ہے جس کا باعث کوئی معلوم وجہ یا کوئی صنعت بنتی ہو۔ ولیم ایمپسن کسی فنکار کی اس وجہ سے ستائش نہیں کرتا کہ اس نے فلاں فلاں شے کو بہت مشاقی و مہارت اور ہنر مندی سے برتا ہے بلکہ وہ اس کے معنی آفرینی کے عمل کو کسی نئی معنوی لرزش یا جہت کی بنا پر سراہتا ہے۔ اردو شاعری میں صنعتوں کا بہت استعمال ہے لیکن ان صنعتوں سے پیدا شدہ معانی کا جائزہ کم ہی لیا گیا ہے۔ سندی مقالات میں ان کی سرسری نشان دہی ملتی ہے۔ ولیم ایمپسن نے اگرچہ بدیع و بیان کی جملہ اصطلاحوں کا نام نہیں لیا، البتہ استعارہ و تشبیہ کے علاوہ مبالغہ، رمز، تلمیح اور مجازِ مرسل کی اصطلاحات کا استعمال اس لیے کیا ہے کہ وہاں وہ معنی کی نئی جہت ابھارنے میں معاونت کر رہی تھیں۔

ولیم ایمپسن خود ابہام کی کوئی منطقی تعریف پیش نہیں کرتا، ابہام کے حوالے سے اس کا یہ کہنا ہے :

There is a sort of ambiguity in not knowing which of them to hold most clearly in mind ( )

اگر (معانی کے حوالے سے ) ہم اپنے دماغ میں کسی واضح وجہ کو جگہ نہیں دے سکتے تو یہ ایک قسم کا ابہام ہے۔

اردو میں بدیع اور بیان کے مباحث میں بہت وسعت ہے، جو ولیم ایمپسن کے معنی سازی کے نظام میں کسی نہ کسی صنعت کو نشان زد کیا جا سکتا ہے اور معنی کی کوئی وجہ قائم ہو جاتی ہے۔

ہمارے ہاں ابہام کو آج بھی اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ اکثر ادیب ہر اس فن پارے کو ابہام سے جوڑتے ہیں جس کی توضیح کسی طرح ممکن نہ ہو۔ دوسرے لفظوں میں بے معنی اشعار کو ابہام کے تناظر میں مبہم کہا جاتا ہے۔ اگرچہ اصطلاحات کے لغات میں ابہام کی وضاحتیں اور تشریحیں موجود ہیں، اس کے باوجود ابہام کا بے معنویت کا تصور قائم ہے بلکہ پختہ تر ہوتا جاتا ہے۔ ولیم ایمپسن کی اس عالمانہ کتاب کی اشاعت سے پہلے مغرب میں بھی ابہام کو فنکار کا عجز یا زبان کی خرابی سمجھا جاتا تھا۔ حالانکہ ابہام شعری زبان کی گہرائی اور لطافت کی طرف اشارہ ہے جس میں لفظوں کا معمولی اور باریک سا فرق بھی معنی پر پر ُ نزاکت فرق ڈالتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ابہام تخلیق کو کئی آئینوں کے درمیان رکھ کر اس کے سلسلہ ہائے عکس کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کا عمل ہے۔

ابہام کے لیے ایمپسن انگریزی کلاسیکی ادب کے نامور شعرا اور ڈرامہ نگاروں کے کام سے مثالیں پیش کرتا ہے۔ ان میں نمایاں نام شیکسپئر، ڈرائیڈن، مارول، جان ڈن اور پوپ کے ہیں۔ ابہام عظیم شاعری میں ہر جگہ قابلِ دریافت ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ابہام کی ہر قسم میں وہ استعارے کی بات ضرور کرتا ہے۔ اصل میں انگریزی میں استعارہ کی دو قسمیں ہیں۔ اسی وجہ سے ابہام کی ان اقسام میں کوئی زیادہ فرق محسوس نہیں ہوتا ہے۔ کئی مقامات پر کسی بھی درجے کی مثال دیتے ہوئے تسلیم کرتا ہے کہ مثال فلاں فلاں ابہام کی قسم کے لئے بھی درست ہے۔

ولیم ایمپسن کے ہاں ابہام کی قسموں کا یہ کام بہت انوکھا نہیں ہے جو اردو ادبیات میں موجود نہ ہو۔ البتہ اس کا اختصاص یہ ہے کہ اس میں چیزوں کو دیکھنے کا زاویہ بہت منفرد ہے۔ ولیم ایمپسن کی یہ کتاب اصل میں شعری متن کی قرات کا طریقِ کار ہے۔ اس طریقِ کار کی مکمل فہم ہو تو عام قاری پر بھی متن کے کئی دروازے کھل سکتے ہیں اور فلمی گانے کی اس سطر سے بھی بہت لطف اندوز ہو سکتا ہے :

صدیوں سے لمبی راتیں ہیں

ابہام کے شعور کی وجہ سے قاری اس سطر میں بار بار ایک معنی سے دوسرے معنی کی طرف جست لگاتا رہتا ہے۔ ذہن کسی ایک معنی پر ٹھہرتا ہی نہیں ہے۔ ہر معنی کو بیان کرنے کے لئے ایک مختلف پیرایہ اظہار کی ضرورت ہے۔ یہی خوبی ابہام کہلاتی ہے۔

ولیم ایمپسن پہلی قسم کے ابہام کی بنیاد دو چیزوں کے درمیان تقابل، مطابقت، تضاد اور تشبیہ و استعارہ پر رکھتا ہے۔ بعض دفعہ دو مختلف کیفیات کا بھی استعمال کرتا ہے اور مختلف مثالوں اور اصطلاحات سے وضاحت کرتا ہے۔ اس سلسلے میں اہم اصطلاح synaesthesia ہے جس کا ترجمہ خالد احمد نے احساسِ مرکب کیا ہے لیکن اس کا ترجمہ تشبیہِ مرکبِ حسی ہونا چاہیے۔ قاری اگر وجہ کے لحاظ سے تشبیہ کی اقسام سے واقف ہے تو اس ذیل میں صرف غزلوں سے ہزاروں اشعار کی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ تشبیہ میں وجہ شبہ مفرد، مرکب، متعدد یا کچھ بھی ہو سکتی ہے اور اس کے اجزا حسی یا عقلی ہو سکتے ہیں۔ synaesthesia ایک حس کے عنصر کو دوسری حس سے محسوس کرنے کا نام ہے، دوسرے لفظوں میں سننے والی شے کو ایسی چیز سے تشبیہ دینا جسے دیگر حسوں سے محسوس کیا جا سکتا ہو۔ ولیم ایمپسن اس حوالے سے یہ مثالیں دیتا ہے :

The light is braying like an ass, ( )

روشنی گدھے کی طرح ہینک رہی ہے۔
گدھے کی ہینک کا تعلق سماعت سے اور روشنی کا تعلق بصارت سے ہے۔

Thy voice is an odour that fades in a flame ( )

تمھاری آواز خوشبو ہے جو شعلوں میں مدغم ہو رہی ہے۔

آواز کا تعلق سماعت سے اور خوشبو کا تعلق سونگھنے سے ہے۔ اس حوالے سے اردو کی مثالیں جو فوری طور پر ذہن میں آتی ہیں، حاضر ہیں۔ ان میں مشبہ اور مشبہ بہ حسی ہیں۔ :

اس غیرتِ ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا چمک جائے ہے آواز تو دیکھو ( )
آئی ترے قہقہوں کی آواز
یہ پھول کہاں برس رہے ہیں ( )
سو رہی ہے گھنے درختوں پر
چاندنی کی تھکی ہوئی آواز ( )
زخمِ آواز ہی آئینہ ہے
صورتِ نغمہ سرا کیا دیکھیں ( )

ایسے معاملات میں فہم کا ادراک ایک حس سے دوسری حس یا ان کے تقابل سے ہوتا ہے اور اکثر بہت پر اثر ہوتا ہے۔ قاری کو یہ احساس غیر نمایاں جذباتی کیفیتوں میں مبتلا کرتا ہے جسے وہ کوئی نام دینے سے قاصر ہوتا ہے۔ یہ تمام کیفیتیں ہر قسم کی ہیجان خیزیوں میں مشترک ہیں اور یہ قاری کو بچپن کے دور میں لے جاتی ہیں جہاں ان میں کسی قسم کا امتیاز نہیں ہوتا ہے۔ اس طرح ہیجان خیزی میں ایک انتشار پیدا ہوتا ہے ذہن میں بننے والی شبیہیں آوازوں، رنگوں اور کئی قسم کے دیگر روپ دھار لیتی ہیں بالکل اسی طرح جیسے آدھے سر کے درد میں، مرگی کی حالت میں یا مسکال کھانے سے جو ہیجان پیدا ہوتا ہے۔ مسکال کھانے والے اور خالص شاعری کے قاری، ایک جیسے پر مسرت لیکن نئے رنگ محسوس کرتے ہیں اگر وہ یہ جان لیں کہ یہ سب کچھ کیا ہے؟

سو رہی ہے گھنے درختوں پر
چاندنی کی تھکی ہوئی آواز ( )

گھنے درختوں پر آواز کے سونے کا تصور ذہن پر اس طرح مرتسم ہوتا ہے کہ تھکی ہوئی مضمحل سی آواز سنائی دیتی ہے اور دوسرے لمحے ذہن میں سوئے ہوئے وجود کا تصور بھی ابھرتا ہے۔ تجسیم Personification کی تعریف پڑھ کر لوگوں نے اس قسم کے مضامین لکھے ہیں : فلاں کی شاعری میں تجسیم۔ ان محققین اور ناقدین نے ذرا بھی تجسیم فہمی کی کوشش نہیں کی۔ انگریزی سے مرعوبیت نے انھیں اردو علمِ بیان کی طرف راغب ہی نہیں ہونے دیا۔ تجسیم اصل میں استعارے کا حصہ ہے۔ اسی طرح تمثیل یا پیکر سازی بھی استعارے کا حصہ ہیں۔

ان مثالوں میں مروجہ طریق سے سے کچھ مختلف معانی پیدا کیے جا سکتے ہیں۔

Bare ruined choirs, where late the sweet birds sang ( ) .

ویران اجڑی سرود گاہیں جہاں خوبصورت پرندے نغمے گاتے تھے

پرندے گلوکاروں کا استعارہ ہیں، اردو کی حد تک بات مکمل ہو گئی لیکن ایمپسن اس استعارے کو نوخیز و نوجوان لڑکوں اور موسم اور وقت بدلنے کی وجہ سے ان کے اڑ جانے رخصت ہونے پر منطبق کرتا ہے اور ان کے فعل گانا گانے کی توجیہہ سے ایسے معانی اجاگر کرتا ہے جن کی توجیہ انگریزی ادبیات کی حد تک پیش کرنا مشکل ہے لیکن معانی واقعی قائم ہوتے ہیں۔ اس سطر کے حوالے سے اس کی درج ذیل رائے ہے :

اس سطر میں کوئی تجنیس، کوئی نحوی ترکیب یا احساس کی ذو معنویت نہیں ہے۔ ویران خانقاہوں کی سرود گاہیں وہ جگہیں ہیں جہاں اس لیے گایا جاتا ہے کہ ان میں نشستیں قطار میں ہوتی ہیں، یہ لکڑی کی بنی ہوتی ہیں اور ان میں گانٹھیں پڑی ہوتی ہیں وغیرہ۔ ( )

ان باتوں کے بعد اس کا درج ذیل بیان ہے :

اگر ہم اپنے دماغ میں کسی واضح وجہ کو جگہ نہیں دے سکتے تو یہ ایک قسم کا ابہام ہے۔ افعال کی مدد سے معنی سازی کا یہ عمل استعارے کی عدم موجودگی میں بھی ممکن ہے۔ کیا تم نے سگریٹ نوشی ترک کردی ہے؟ جیسے سوال میں یہ دعوی بھی شامل ہے کہ تم سگریٹ پیتے ہو۔ اسی طرح

سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں ( )

اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہرنے کی وجہ کہ لوگ اسے آنکھ بھر کے کیوں اور کیسے دیکھتے ہیں، ہو سکتی ہے۔ یاوہ بہت ہیبت ناک، بد صورت و کریہ صورت ہے یا بہت خوبصورت ہے، یا محاورے کے معنی میں لوگ اسے غصے کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

ولیم ایمپسن ابہام کی جن اقسام کی بات کر کے مثالیں دیتا ہے، اردو ادبیات میں ان کی بہتات ہے۔ اس قسم کا ابہام غزل اور نظم میں بکثرت دیکھنے کو ملتا ہے۔ تشبیہ اور استعارہ کی مثالیں تو بے شمار ہیں جن پر وہ پہلی قسم کے ابہام کی بنیاد قائم کرتا ہے۔

اس پہلی قسم کے ابہام میں، وہ محض تشبیہ اور استعارہ پر انحصار نہیں کرتا بلکہ جہاں بھی دو چیزوں کے درمیان تقابل ہو وہ اسے بھی پہلی قسم کے ابہام میں شامل کرتا ہے۔

صدیوں سے لمبی راتیں ہیں

میں صدیوں اور راتوں کی طوالت کا تقابل ہے، ایک صدی سو سال کی ہوتی ہے جبکہ صیغہ جمع کا ہے۔ اس مصرع سے قاری کسی حتمی معنی کا تعین نہیں کر سکتا کہ راتیں کتنی صدیوں، زمانوں سے طویل چلی آ رہی ہیں یا یہ راتیں وقت کے پیمانے کے مطابق کئی صدیوں کے برابر ہیں، جیسے یہ کہا جاتا ہے کہ ایک دن ہزار سال کے برابر ہو گا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3