کراچی: کنکریٹ کا جنگل


  ایک زمانہ تھا کراچی کو عروس البلاد، روشنیوں کا شہر، غریب پرور شہر اور نجانے کیا کچھ کہا جاتا تھا۔ ہم کراچی کے صنعتی شہر ہونے پر فخر کرتے تھے، ملک بھر سے لوگ یہاں روزگار کی تلاش میں آتے تھے۔ اس وقت یہ کسی نے نہیں سوچا تھا کہ آبادی میں اضافہ اور کارخانوں کا دھواں اور صنعتی فضلہ آگے چل کر ماحولیاتی مسائل پیدا کرے گا۔ امسال پھر کراچی کو ہیٹ ویو Heat Wave کا سامنا کرنا پڑا۔

درجۂ حرارت میں اضافے نے کراچی کی مرطوب آب و ہوا کے ساتھ مل کر وہ ستم ڈھایا کہ لوگوں کا دم گھٹنے لگا اور بہت سے لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ میں ہمیشہ سوچتی تھی کہ ہماری عمارتیں اور مکانات گرمی کو ذہن میں رکھ کر نہیں بنائے جاتے۔ ظاہر ہے اس کی ذمہ داری ہمارے ماہرین تعمیرات پر عاید ہوتی ہے، جو مغربی ممالک سے ڈگریاں لے کر آتے ہیں اور سرد ممالک کے طرز تعمیر کو اپناتے ہیں۔ بہر حال اب تو گلوبل وارمنگ نے سرد ممالک کو بھی گرمی کا مزہ چکھا دیا ہے۔

کراچی میں تو اور ستم ہوا کہ یہاں سیمنٹ اور کنکریٹ عمارتوں کی تعمیر میں استعمال ہوتے ہیں جس کی وجہ سے کراچی کے مکانات گرمیوں میں دوزخ کا نمونہ پیش کرتے ہیں۔ کراچی صحیح معنوں میں کنکریٹ کا جنگل بن چکا ہے۔ انداز تعمیر درجۂ حرارت پر کتنا اثر انداز ہوتا ہے، اس کا اندازہ آپ کو کراچی کے ایک مشہور نجی اسپتال میں جا کر ہوتا ہے جہاں اندر جاتے ہی آپ گرمی کی شدت میں کمی محسوس کرتے ہیں۔ جہاں تک مجھے یاد ہے اس کے آرکیٹکٹ نیر دادا بھائی کو اس عمارت کے ڈیزائن پر ایک بین الاقوامی ایوارڈ بھی ملا تھا۔

لیکن عام لوگوں کے لئے فلیٹ بنانے والے بلڈر حضرات کو صرف منافع کما نے سے غرض ہوتی ہے، متعلقہ سرکاری اہل کاروں کو رشوت کھلا کے قاعدے قانون کی خوب خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ چند دن ہوئے نرگس رحمن کے ماحولیاتی گروپ کی ایک میٹنگ میں شرکت کا اتفاق ہوا۔ سب سے پہلے کراچی کی سڑکوں کی حالت زار کا ذکر ہوا۔ سب شکوہ سنج تھے کہ سڑکیں کھدی پڑی ہیں۔ اگر نئی سڑک بنتی بھی ہے تو کسی اور کام کے لئے اسے دوبارہ کھود دیا جاتا ہے۔

ٹوٹی ہوئی سڑکوں کی صحیح طریقے سے مرمت نہیں کرتے۔ ورکرز سے کہا جاتا ہے مٹی ڈال دو۔ سڑک اوپر ہو جاتی ہے اور بارش میں گھروں میں پانی آ جاتا ہے۔ سیوریج سسٹم بنانے کی بات ہوتی ہے، اس کی ضرورت نہیں، جو ہے، اسے ٹھیک کریں خاص طور پر چند مقامات پر جہاں ضرورت ہے۔ ٹریٹمنٹ پلانٹ کا کچھ نہیں کرتے حالانکہ کراچی پیکیج میں کہا تھا کریں گے لیکن نہیں کیا۔ کراچی کا کچرا سمندر میں ڈال دیتے ہیں جو سمندر واپس ساحل پر پھینک دیتا ہے۔

سیوریج پر کوئی توجہ کا نہیں دی جا رہی۔ ایک پلاٹ جس پر ایک گھر بنتا تھا، اب اس پر کئی کئی منزلیں بنتی ہیں تو ظاہر ہے اتنا ہی زیادہ کچرا نکلے گا۔ کراچی کا سیوریج سسٹم انگریزوں کے زمانے کا بنا ہوا ہے۔ اگر آپ پرانے علاقوں جیسے لی مارکیٹ جائیں۔ تو گٹر بھرے پڑے ہیں۔ لیاری ندی کے اوپر ایک مشہور اسٹور کی پارکنگ بنی ہوئی ہے۔ کراچی میں ایک مضبوط لوکل گورنمنٹ نہیں ہے۔ اربن پلاننگ کے ماہر محمد توحید کے مطابق کراچی میں گورنس کے مختلف نمونے اور سطحیں پائی جاتی ہیں۔ ایسا کوئی میکانزم نہیں کہ۔ ہمیں بلدیاتی بجٹ کے بارے میں پتہ چلے کتنا ملا اور کتنا خرچ ہوا۔ جہاں تک بارش کے پانی کے نکاس کا تعلق ہے۔ 1996 سے پہلے کراچی میں 41 برساتی نالے تھے۔ بیشتر پر تجاوزات بن گئے

اور باقیوں میں کراچی واٹر سیوریج بورڈ نے کراچی کا سارا کچرا ڈال دیا۔ بارشوں کو تو، چھوڑئیے، عام دنوں میں یہاں گٹر ابلتے رہتے ہیں۔ محمد توحید کو حال ہی میں ایک پروگرام کے تحت امریکہ کے پانچ بڑے شہر دیکھنے کا موقع ملا۔ وہاں بلدیاتی ادارے کمیونٹی سے رابطے میں رہتے ہیں۔ ان سے ان کے۔ مسائل اور ان کا حل پوچھتے ہیں۔ ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدنی کا 80 فی صد اسی کمیونٹی پر لگایا جاتا ہے۔ صرف تنخواہوں پر لگنے والا ٹیکس وفاقی حکومت کو ملتا ہے، باقی سب کمیونٹی پر خرچ ہوتا ہے۔

ہمارے ہاں برساتی نالوں کی مینجمنٹ کراچی میونسپل کارپوریشن کے پاس ہے جو تنخواہوں کے لئے حکومت کی شکل دیکھتے ہیں۔ مشینری خریدنے کے لئے تھرڈ پارٹی کو کنٹریکٹ دیتے ہیں۔ وہ آگے آؤٹ سورس کرتی ہے۔ ساری خرابی تھرڈ پارٹی کنٹریکٹر کی وجہ سے ہوتی ہے۔ مئیر، سٹی کونسل، کے ایم سی کوئی اس کے کام کو نہیں دیکھتا۔ کراچی واٹر سیوریج بورڈ برساتی نالوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری پوری نہیں کرتا۔ جہاں کب سے کچرا جمع ہو رہا ہے۔ عوام بھی قصوروار ہیں کیونکہ وہ بھی نالوں میں کچرا ڈالتے ہیں۔

کراچی واٹر سپلائی کارپوریشن کی ذمہ داری شہریوں کو پانی فراہم کرنا ہے۔ لیکن گھروں میں پانی نہیں آتا اور لوگوں کو مہنگی قیمت پر ٹینکرز کا پانی خریدنا پڑتا ہے۔ پانی کی قلت کو جواز بنا کر آفیشل ہائیڈرنٹ بنائے گئے مگر پھر غیر قانونی ہائیڈرنٹ بھی بن گئے جو شہریوں کو فوری طور پر مہنگے داموں پانی پہنچا دیتے ہیں۔ جبکہ سرکاری ہائیڈرنٹ ایک ہفتے بعد ٹینکر پہنچاتے ہیں۔ ڈی ایچ اے فیز 6 عرصہ سے ٹینکرز پر چل رہا ہے خود بلاول نے بھی بات کو تسلیم کیا کہ ان کے گھر میں پانی نہیں آتا لیکن وہاں سب پیسے والے لوگ رہتے ہیں۔

اس لئے ٹینکرز خریدنا ان کے لئے مسئلہ نہیں۔ اسی طرح آپ کراچی میں جہاں بھی گاڑی کھڑی کریں کوئی نہ کوئی پارکنگ فیس لینے پہنچ جاتا ہے، یہ پیسا کہاں جاتا ہے؟ مئیر کا کہنا ہے کہ ہم نے کسی کو پارکنگ فیس لینے کو نہیں کہا۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ کنٹریکٹر کے ایم سی کو ایک سال کی مدت کے لئے ایک رقم دے کے ٹھیکہ لے لیتا ہے اور پھر وہ دس گنا زیادہ رقم لوگوں سے وصول کرتا ہے۔

اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ کراچی کی بد حالی کا سبب دو سیاسی پارٹیوں کی باہمی چپقلش ہے۔ صوبائی حکومت ایک پارٹی کی تھی اور بلدیاتی حکومت دوسری پارٹی کی اور ان کی لڑائی کی وجہ سے کچھ ہو نہیں پاتا تھا لیکن اب مئیر اور صوبائی حکومت ایک ہی پارٹی کی ہے۔ اب کچھ کیوں نہیں ہو پا رہا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اب ہمیں ای گورننس اور ڈیجیٹل شفافیت کی ضرورت ہے۔ معلومات کے حق کے تحت عوام کو سب کچھ معلوم ہونا چاہیے۔ عوام کو سرکاری دفتروں کے چکر لگانے کی ضرورت نہیں۔ ہر چیز کمپیوٹر پر موجود ہونی چاہیے۔ ڈیجیٹلائزیشن بے حد ضروری ہے۔ اور سب سے بڑھ کر کرپشن کا خاتمہ ضروری ہے جو ساری برائیوں کی جڑ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments