عام آدمی اور شاعر
سماجی زندگی پیچیدگیوں سے عبارت ہے۔ ہم مزاجی کو ذات، عمر، نسب، اور مذہب پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ ہم ایسے لوگوں کے درمیان بیٹھ کر اطمینان محسوس کرتے ہیں جن سے ہم آہنگی ہوتی ہے۔ بنیادی طور پر انسان اپنے مزاج، نفسیات اور جذبات کے تابع ہوتا ہے اور اکثر اس کے مطابق اپنا حلقہ احباب بناتا ہے۔ مجبوری، مفاد اور محبت کی وجوہات الگ ہیں۔ ہماری سوشل زندگی میں اتار چڑھاؤ بھی آتے ہیں لیکن حلقہ احباب تبدیل کرنا خاصا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہاں شہر، علاقے اور ملک سے ہجرت کا معاملہ بھی جدا ہے۔ ایک خاص عمر کے بعد نیا ربط ضبط خاصا دقت طلب کام ہوتا ہے۔
ہر شخص اپنے مطابق جینے کا خواہاں ہے۔ اگر دوسروں سے مطابقت میں دشواری نظر آئے تو محاذ آرائی کا فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ یہ فیصلہ انا، جذبات اور مفاد کے تابع ہونے سے گمبھیر صورت اختیار کر سکتا ہے۔ البتہ تفکر، اخلاق اور تدبیر کا نتیجہ مختلف ہوتا ہے۔ ایک آپشن مصلحت کا بھی ہے اور یہ آپشن مدمقابل کے اختیارات، وسائل اور طاقت کو دیکھ کر کرنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی وسائل اور طاقت کا یکساں توازن بھی بگاڑ کا باعث بن جاتا ہے۔
رشتوں میں دو طرفہ خرابی کی ایک وجہ مسلسل بے اعتنائی قرار دی جا سکتی ہے۔ وسائل کی بے پناہ فراوانی بھی اس کا سدباب کرنے سے قاصر ہے۔ ذاتی زندگی میں کسی دراڑ کا پیدا ہونا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ذہنی ہم آہنگی کا متبادل مادیت نہیں ہو سکتی ہے۔ جدائی کا سبب کچھ بھی ہو ہر شخص دوسرے کو قصور وار گردانتا ہے۔ پیچیدگی کے بعد کسی اصلاح کی توقع دراصل توفیق کی مرہون منت ہوتی ہے۔ باب توفیق سب کے لیے نہیں کھلتا ہے۔ یہ زندگی ہے اور یاد رہے پریشان حال شخص سے کوئی پریشانی مستعار نہیں مانگتا ہے۔ خوشی میں حصے دار بننے کو ہر کوئی تیار ہو جاتا ہے۔
بسا اوقات کسی ایک بات، واقعے یا معاملے کے نتیجے میں پتا چلتا ہے کہ دہائیوں کا سفر ضائع ہو گیا ہے۔ خوش اسلوبی اور شائستگی سے سفر میں راستہ بدلنے سے آئندہ کے گمبھیر حالات سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔ کسی کی زندگی کے بارے میں بے وجہ رائے زنی اخلاقیات کے منافی ہے۔ ہر کوئی اپنے مطابق جینے کا خواہاں ہے اور وہ اپنے بارے میں بہتر فیصلہ کر سکتا ہے۔
زندگی کو یک طرفہ تعلقات کی نذر کرنے کی مثالیں بھی موجود ہیں مگر ہر شخص اتنا عجز پسند نہیں ہوتا ہے۔ کبھی نہ کبھی دل کے اندر کوئی آواز ضرور اٹھتی ہے جو نئے سرے سے تعلقات کا جائزہ لینے پر مجبور کرتی ہے۔ اس آواز کو مسلسل دبا کر رکھنے سے ذہنی پیچیدگی جنم لیتی ہے یہ بھی ممکن ہے کہ اچانک کوئی شدید ردعمل ظاہر ہو جائے۔ شاعری ذہنی پیچیدگی سے بچنے اور ردعمل کے اظہار کی نہایت عمدہ صورت کہی جا سکتی ہے۔ عام آدمی اور شاعر میں یہی فرق ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ شاعری ممکنہ ردعمل کو روک دیتی ہے اور تمام تر جذباتی شدت شعری سانچے میں ڈھل جاتی ہے۔ شاعری آسانی سے ہاتھ آنے والا فن نہیں ہے۔ یہ خدا داد صلاحیتوں سے قطع نظر مطالعے، مشاہدے اور تجربے کا مرہون منت ہوتا ہے۔ شاعری کیتھارسس کا بہترین ذریعہ ہے۔ تخلیقی عمل تمام ذہنی مسائل کو شعری صورت میں ڈھالنے کے بعد حالت سکون میں آ جاتا ہے۔
- گلزار پاویل اور لائل پور کے دوسرے ادیب - 07/09/2024
- جز وقتی سرور یا دائمی لطف - 29/08/2024
- تم کون؟ میں کون؟ رضاکار رضاکار - 10/08/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).