ایک غلطی لے ڈوبی
14 جولائی کو ایک نیوز کانفرنس کے دوران، بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد سے ایک رپورٹر نے نوکریوں کے کوٹے کے خلاف طلباء کے احتجاج کے بارے میں پوچھا جو ایک ہفتے سے زیادہ عرصے سے جاری تھا۔ اس کے جواب میں انہوں نے یہ ریمارکس دیے، ”اگر آزادی پسندوں کے پوتے پوتیوں کو نہ ملے۔ فوائد، کون حاصل کرے گا؟ رجاکاروں کے پوتے؟ ’حسینہ نے تحریک چلانے والوں کو کہا یہ سب“ رجاکار ”ہیں
بنگلہ دیش میں، ”رجاکار“ (رضاکار) ایک انتہائی جارحانہ اصطلاح ہے۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے 1971 کی بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کو روکنے کے لیے پاکستانی فوج کے آپریشن کی حمایت کی اور ان پر گھناؤنے جرائم کا الزام لگایا گیا یعنی وہ غدار اور پاکستان کے ایجنٹ ہیں۔ اس زبانی غلطی کا جواب یہ ملا کہ اگلے روز ہزاروں طلبا چھ بڑے شہروں میں یہ نعرے لگاتے سڑکوں پر تھے کہ: توئی کے، آمی کے؟ رجاکار رجاکار ( تو کون، میں کون؟ رضاکار، رضاکار) جیٹے گیلم، آدھی کار بوئے گیلم رجاکار (مطالبات منوانے کا ایک ہی رستہ، رضاکار رضاکار) ۔ اس اصطلاح کو طلبہ نے اپنا ایسا ہتھیار بنالیا جس نے بالآخر حسینہ واجد کے طویل دور اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔ حسینہ کا ردعمل کہ دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ جس کے لیے پارٹی کے طلبہ ونگ، بنگلہ دیش چھاترا لیگ (بی سی ایل) اور پولیس کو شامل کیا گیا۔ چار دنوں میں، 200 سے زیادہ لوگ مارے گئے، جن میں اکثریت طلباء اور عام شہریوں کی تھی۔ تشدد کی مذمت کرنے کے بجائے، حسینہ نے میٹرو ریل اور سرکاری ٹیلی ویژن کی عمارتوں جیسی سرکاری املاک کو پہنچنے والے نقصان پر توجہ دی۔
بڑے بزرگ کہا کرتے تھے کہ ”زبان تخت بھی دکھاتی ہے اور تختہ بھی“ حسینہ نے نوکریوں کے کوٹہ میں اصلاحات کے لیے احتجاج کرنے والے طلباء کو ”رجاکار“ کا لیبل لگا کر جو غلطی کی، اس کے جواب میں جو آگ بھڑکی وہ انہیں تخت سے تختے پر لے آئی۔ یعنی ان کے زوال پر منتج ہوئی۔ اور مظاہرین ایک نعرے پر حسینہ کے استعفے پریک زبان ہو گئے، جو انہیں دے کر ملک سے فرار ہونا پڑا۔
1947 میں مشرقی پاکستان میں پیدا ہونے والی حسینہ چھوٹی عمر سے ہی سیاسی طور پر سرگرم تھیں۔ ان کے والد شیخ مجیب الرحمان، جنہیں ”فادر آف دی نیشن“ کہا جاتا ہے، نے 1971 میں بنگلہ دیش کو پاکستان سے آزادی دلائی اور اس کے پہلے صدر بنے۔
اس وقت تک، حسینہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں ایک ممتاز طالب علم رہنما کے طور پر پہلے ہی اپنا نام بنا چکی تھیں۔ 1975 کی فوجی بغاوت کے دوران اس کے والد اور اس کے خاندان کے بیشتر افراد کے قتل کے دوران وہ اور اس کی چھوٹی بہن صرف اس لیئےزندہ بچ سکیں، کیونکہ وہ اس وقت بیرون ملک جرمنی میں تھیں۔
ہندوستان میں جلاوطنی کا ایک عرصہ گزارنے کے بعد ، حسینہ 1981 میں بنگلہ دیش واپس آئیں اور عوامی لیگ کی قیادت سنبھالی اور جنرل حسین محمد ارشاد کی فوجی حکومت کے خلاف جمہوریت کے حامی مظاہروں کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور تیزی سے قومی شہرت حاصل کی۔ حسینہ جمہوریت نواز بغاوت کی رہنما تھیں جنہوں نے 1990 میں فوجی حکمران حسین محمد ارشاد کو اقتدار سے ہٹایا تھا۔ لیکن اپنے دور اقتدار میں وہ جمہوریت کے بجائے یک جماعتی آمریت قائم کیے رہیں۔ 1996 میں انتخابات جیتنے کے بعد پہلی بار وزیر اعظم بنیں اور 2009 میں دوبارہ برسر اقتدار آئیں اگرچہ معیشت کو بہتر کیا مگر آزادی اظہار، اختلاف رائے اور اپوزیشن کے خلاف کریک ڈاؤن کیا۔
سب سے طویل عرصے تک حکومت کرنے والی خاتون سربراہ کے طور پر حسینہ کے دور کو سکیورٹی فورسز کا دور کہا جاتا ہے جس میں بدنام زمانہ ریپڈ ایکشن بٹالین کے نیم فوجی دستے کو حزب اختلاف کے اراکین اور مخالفین کو اغوا کرنے اور قتل کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ عدلیہ پر وار کیے، جس کی وجہ سے ایک چیف جسٹس نے فیصلے میں حکومت کی مخالفت کی تو انہیں ملک سے فرار ہونا پڑا۔
میڈیا کو بھی مخالفین کے خلاف بیانیہ تیار کرنے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے کنٹرول کیا۔ مرکزی دھارے کے زیادہ تر ذرائع ابلاغ عوامی لیگ سے تعلق رکھنے والے کاروباری اداروں کی ملکیت ہیں۔ میڈیا پر کنٹرول کے ذریعے حسینہ نے اپنے حامیوں کو ملک کی آزادی اور اس کی کامیابیوں کے جائز وارث کے طور پر ، جبکہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور جماعت اسلامی کے مخالفین اور حزب اختلاف کے اراکین کو غدار اور ”انتہا پسند“ دھڑوں کی باقیات کے طور پر پیش کیا۔ سابق وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر بیگم خالدہ ضیا کو 2018 میں کرپشن کے الزام میں قید کیا گیا اور جماعت اسلامی کی کئی اہم شخصیات اور دوسرے لوگوں کو غداری کے الزام میں پھانسیاں دی گئیں۔ انہیں مبینہ بدعنوانی اور بھارت کی جانبداری کی وجہ سے مسلسل تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ 2008 میں، حسینہ دوبارہ وزیر اعظم کے طور پر منتخب ہوئیں اور تقریباً 16 سال حکومت کی۔
اس طویل دور میں حسینہ حکومت بڑے پیمانے پر سیاسی گرفتاریوں، جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل میں ملوث رہی۔ حسینہ نے خوف کے ذریعے حکومت کی، جابرانہ قوانین کا نفاذ کیا ہے اور مظالم کے لیے سیکورٹی فورسز کا استعمال کیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق شیخ حسینہ کے دور 2009 سے، سیکورٹی فورسز 600 سے زائد جبری گمشدگیوں میں ملوث ہیں۔ HRW کی ایک اور رپورٹ کے مطابق، جنوری 2015 سے دسمبر 2020 کے درمیان، 143 مبینہ فائرنگ تبادلوں میں کم از کم 755 افراد کو سیکورٹی فورسز نے ”عسکریت پسند“ یا ”دہشت گرد“ کے طور پر ہلاک کیا۔
لاکھوں لوگ اپنے گھر چھوڑنے اور برسوں روپوش رہنے پر مجبور ہوئے۔ حسینہ واجد نے عدلیہ، الیکشن کمیشن، میڈیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں جیسے اہم اداروں میں کرپشن کو فروغ دیا جنہیں بحال کرنا ایک طویل عمل ہو گا۔
بنگلہ دیش کے حالیہ ہنگامے کسی سیاسی جماعت کی کال کا نتیجہ نہیں تھے، یہ طلبہ تحریک تھی۔ حکومت کی پالیسی تھی کہ تقریباً 50 فیصد سرکاری نوکریاں 1971 ء کے ”شہداء“ کے وارثوں (عوامی لیگ) کے لیے تھی۔ اس پر تحریک شروع ہوئی جس میں کل 350 افراد ( 200 سے زیادہ طلبہ) شہید ہوئے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا کہ کوٹہ سسٹم غلط ہے جس پر تحریک کا پہلا مرحلہ ختم ہو گیا اور پھر اندھا دھند فائرنگ کرنے والے پولیس افسروں کے خلاف کارروائی کے لئے تحریک شروع ہو گئی۔ اس کا پہلا روز ہی تباہ کن تھا۔ سو کے قریب لوگ جاں بحق ہو گئے، جس کے بعد ملک بھر میں کرفیو لگا دیا گیا اور انٹرنیٹ سروس بند کر دی گئی۔ شیخ حسینہ واجد نے کہا کہ اس تحریک کے پیچھے جماعت اسلامی ہے اور تحریک چلانے والے طالب علم نہیں ہیں، دہشت گرد ہیں، عوام کو چاہیے کہ وہ ان لوگوں کو پکڑ کر مار دیں۔ یعنی وزیر اعظم خانہ جنگی پر اْتر آئیں۔ اس کے بعد انہوں نے جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ (چھاترو شنگھو) پر پابندی لگا دی۔
تحریک کی ویڈیو کلپس سے پتہ چلتا ہے کہ پولیس نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر چھپے ہوئے طلبہ کو نکال کر انہیں سروں پر گولیاں مار کر ہلاک کیا۔ بہت سے مظاہرین کی آنکھوں میں چھرے مارے گئے اور انہیں نابینا کر دیا گیا۔ پولیس نے جن لوگوں کو گولی مار کر قتل کیا، ان میں 35 کم سن بچے بھی تھے۔ عوامی لیگ اور اس کے طلبہ ونگ نے ہتھیار لے کر مظاہرین پر حملے کیے۔ تھانے نذرِ آتش کر دیے گئے۔ ایک تھانے میں 13 پولیس اہلکار مارے گئے۔
ملک میں کوئی اپوزیشن لیڈر میدان میں نہیں تھا۔ کچھ بیرون ملک پناہ لیے ہوئے اور باقی جیلوں میں تھے۔ تمام تر تحریک طلبہ نے چلائی اور ان کے نو نکاتی مطالبات سمٹ کر ایک نکتہ میں بدل گئے کہ حسینہ واجد استعفیٰ دیں۔ بالآخر انہیں ملک چھوڑنا پڑا۔ ان کے بیٹے سجیب شیخ کہتے ہیں کہ حسینہ واجد بہت زیادہ مایوس ہیں۔ وہ دوبارہ سیاست میں حصہ نہیں لیں گی۔ کاش! وہ اپنے والد کے انجام سے سبق سیکھتیں تو انہیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا اور ان کے والد کے مجسمے اوندھے منہ اور خود ان کی تصاویر گلی کوچوں میں بکھری نہ ہوتیں۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ
لمحوں نے خطا کی صدیوں نے سزا پائی۔
- قاضی عبد الرشید: کوئی کہاں سے تمہارا جواب لائے گا - 11/09/2024
- اختر مینگل کا استعفا۔ کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا - 06/09/2024
- بلوچستان اور امن۔ جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو - 02/09/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).