پیانو اور پاکستانی فلمیں


muhammad salim gujranwala

پیانو ایک بڑا آلہ موسیقی ہوتا ہے۔ یہ اٹھارہویں صدی کی ایجاد ہے اور اٹلی میں پہلی بار بنا۔ اس کے موجد کا نام بارٹولومیو کرسٹوفری ہے۔

پیانو مختلف قسم کی چابیوں سے بنا ہوتا ہے۔ اس کا آواز پیدا کرنے والا ڈبہ اس کے اندر ہوتا ہے۔ ایک جدید پیانو 88 سیاہ اور 52 سفید چابیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ جب ایک ایک چابی کو دباتے ہیں تو وہ ایک لمبی سلاخ کی مدد سے ایک آواز پیدا کرنے والے آلہ پر دباؤ ڈالتی ہے جس سے آواز پیدا ہوتی ہے۔ ہر چابی سے ایک مختلف موٹی یا باریک آواز پیدا ہوتی ہے۔ جب ساری چابیوں کو ایک خاص ترتیب سے حرکت دی جاتی ہے تو ایک خاص دھن پیدا ہوتی ہے۔

پیانو مغربی تہذیب کا ایک خاص آلہ موسیقی ہے۔ جو تقریباً ہر امیر اور رئیس کے گھر میں موجود ہوتا تھا۔ مغربی تہذیب کے اثرات جب برصغیر پر مرتب ہوئے تو امراء اور رؤسا کے گھروں میں بھی پیانو کے قدم جمنا شروع ہو گئے اور مخلوط محافل میں پیانو بجانا ایک روایت بن گئی۔ اسی روایت کی عکاسی برصغیر کی فلمی صنعت میں بھی کی گئی۔

فلمی موسیقی میں ہر ایک ساز کی اپنی اہمیت ہوتی ہے اور وہ اسی لحاظ سے استعمال ہوتا ہے۔ غمزدہ اور اداس ماحول میں ستار کی دھیمی دھن کانوں کو بھاتی ہے۔ اگر بیرونی ماحول ہو تو اس میں بانسری کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر کلب کا مخلوط ماحول تو وہاں ڈرم، کانگو، بینجو، گٹار اور اکارڈین کا استعمال لازمی ہوتا ہے۔

60 سے 90 کی دہائی میں تیار ہونے والی پاکستانی فلموں میں دو سے تین نغمات پیانو کے پس منظر میں تیار ہوتے۔ ان سب نغمات کا ایک ہی پس منظر ہوتا۔ ہیرو یا ہیروئن کے گھر میں سالگرہ، شادی یا خوشی کی کوئی تقریب ہوتی یا ہیروئن کی شادی ہیرو کی بجائے کسی اور سے ہو جاتی تو ہیرو یا ہیروئن مہمانوں کی فرمائش پر پیانو پر گیت گانا شروع کر دیتا تھا۔

پاکستانی فلمی صنعت کے موسیقار اعظم خواجہ خورشید انور نے فلم کوئل میں پیانو کا سب سے انوکھا استعمال کیا۔ انہوں نے اس فلم کے گانے، مہکی ہوائیں، مہکی فضائیں جو نور جہاں اور سکھیوں نے کورس کی شکل میں گایا تھا اس کی دھن میں انہوں نے صرف اور صرف پیانو کو ہی استعمال کیا اور کیا خوب استعمال کیا۔ شاید ہی کوئی فلمی یا غیر فلمی موسیقی صرف اور صرف پیانو سے ترتیب دی گئی ہو۔

ایس۔ ایم یوسف کی فلم ”سہیلی“ کا گیت ”ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولے“ جسے لکھا تھا فیاض ہاشمی نے، گایا تھا نسیم بیگم نے! یہ گیت ملکہ جذبات نیئر سلطانہ پر فلمایا گیا اور اس شاہکار اور سدابہار گیت کے خالق موسیقار اے حمید تھے۔ ان کے اس گیت کا میوزک ایک عرصے تک ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے فلمی پروگرام ”دریچہ“ کی ”سائن ٹیون“ کے طور پر بھی استعمال ہوتا رہا ہے، جو اس گیت کی غیر معمولی مقبولیت کا ثبوت تھا۔ 1964 ء کی ریلیز ”عورت کا پیار“ کے لیے احمد رشدی کا گایا ہوا رسیلا گیت ”حالِ دل ہم نے سنایا تو بُرا مانو گے“ کی کمپوزیشن میں پیانو کا استعمال کمال مہارت سے کیا گیا۔ یہی گیت اس فراموش کردہ فلم کا اہم حوالہ ہے۔ موسیقار دیبو بھٹہ چاریہ جی نے رفیق رضوی کی فلم ”شرارت“ کے لیے مسعود رانا جیسے بلند آہنگ سُریلے گلوکار کی آواز، مسرور انور کے گیت ”اے دل تجھے اب ان سے یہ کیسی شکایت ہے“ کے ساتھ ملا کر پیانو سے ہم آہنگ کیا، تو یہ لافانی گیت تخلیق ہوا۔ موسیقار خلیل احمد نے فلم ”تصویر“ کے لیے مہدی حسن کی میٹھی گائیکی سے سجا کر ”اے جان وفا دل میں تیری یاد رہے گی“ اور اسی سال کی ریلیز ”لوری“ کا گیت ”میں خوشی سے کیوں نہ گاؤں“ جسے مجیب عالم نے گایا تھا، ان دونوں گیتوں کے خالق حمایت علی شاعر تھے۔ خلیل احمد نے دونوں گیتوں کو پیانو کی دُھن پر بڑی مہارت اور دل کشی کے ساتھ مرتب کیا۔

پاکستانی سنیما کے مقبول اور رسیلے موسیقار نثار بزمی نے کئی مشہور گیت پیانو کی مدد سے تخلیق کیے جن میں فلم ”عندلیب“ 1969 ء کے گیت ”کچھ لوگ روٹھ کر بھی“ نے سدابہار شہرت اور پسندیدگی حاصل کی۔ اس گیت کو احمد رشدی اور نورجہاں نے الگ الگ گایا تھا، جب کہ شاعر مسرور انور تھے۔ بزمی صاحب کا مرتب کردہ پیانو کی میٹھی طرز پر مبنی فلم ”محبت“ 1972 ء کا گیت ”یہ محفل جو آج سجی ہے، اس محفل میں ہے کوئی ہم سا، ہم سا ہو تو سامنے آئے“ یہ گیت طاہرہ سید کی منفرد آواز سے ہم آہنگ ہو کر ایک امر گیت بن گیا۔ بزمی صاحب نے اس نغمے کو پیانو کے خُوب صورت اور بھرپور استعمال سے ایک غیر معمولی حیثیت کا حامل بنا دیا۔ نامور موسیقار سہیل رعنا نے پیانو سے سجے متعدد سدابہار نغمے مرتب کیے، جن میں فلم ”دوراہا“ کا گیت ”مجھے تم نظر سے گرا تو رہے ہو“ اس قدر مقبول ہوا کہ پڑوسی ملک میں بھی نقل کیا گیا

علاوہ ازیں فلم ”دل دے کے دیکھو“ کا گیت ”ذرا تم ہی سوچو“ جسے مجیب عالم نے گایا اور فیاض ہاشمی نے لکھا تھا، سہیل رعنا کے گیتوں میں پیانو کو خاص اہمیت حاصل رہی۔ معروف موسیقار کمال احمد نے بھی پیانو سے مرتب دُھنوں پر متعدد نغمات تخلیق کیے، جن میں بالخصوص تین عدد گیتوں کو غیر معمولی شہرت اور پسندیدگی ملی۔ ان میں فلم ”رنگیلا“ 1970 ء کا گیت ”ہم نے جو دیکھے خواب سہانے“ جسے رنگیلا نے خود گایا تھا۔ مہدی حسن کا گایا ہوا فلم ”دہلیز“ کے لیے ”آج تو غیر سہی“ بہ طور خاص قابل ذکر ہیں۔ پاکستانی فلموں کے لیے سب سے زیادہ فلموں کی موسیقی مرتب کرنے والے موسیقار ایم اشرف نے پیانو پر جو گیت مرتب کیے، ان میں فلم ”نیند ہماری خواب تمہارے“ کا گیت ”جو بہ ظاہر اجنبی ہیں“ فلم ”میں بھی تو انسان ہوں“ کا گیت ”میرا محبوب میرے پیار کا قاتل نِکلا“ فلم ”شمع“ کا گیت ”کسی مہرباں نے آ کے میری زندگی سجا دی“ نے، بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ یہ گیت بالترتیب مہدی حسن، رنگیلا اور ناہید اختر نے گائے تھے۔

میٹھی دھیمی اور طبع زاد دُھنوں کے خالق موسیقار روبن گھوش نے بھی پیانو سے سجے بہت سے نغمے مرتب کیے ہیں۔ رونا لیلیٰ کا گایا ہوا فلم ”احساس“ 1972 ء کے لیے گیت ”ہمیں کھو کر بہت پچھتاؤ گے“ فلم ”چاہت“ 1974 ء کے لیے مہدی حسن کا گایا ہوا ”پیار بھرے دو شرمیلے نین“ اور مہدی حسن ہی کا گایا ہوا فلم ”امبر“ کا گیت ”جس دن سے دیکھا ہے تم کو صنم“ روبن گھوش کے مرتب کردہ گیتوں میں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اردو اور پنجابی کے معروف موسیقار نذیر علی نے بھی اپنی متعدد دُھنوں کو پیانو سے سجایا، جن میں ”آنسو“ کا گیت ”جان جاں تو جو کہے“ ”مستانہ ماہی“ کا گیت ”ایناں پھل کلیاں دی محفل وچ“ ”میں بنی دلہن“ کا گیت ”ایک حسیں معصوم سا چہرہ“ اور فلم ”کس نام سے پکاروں“ کا گیت ”میرے لبوں پر گیت ہیں تیرے سُن لے اے جان وفا“ موسیقار نذیر علی کے خُوب صورت ترین گیت ہیں۔ نامور موسیقار ناشاد نے بھی اپنے کئی گیتوں میں پیانو کو خُوب صورتی سے استعمال کیا۔ ان گیتوں میں فلم ”نشان“ کا گیت ”خدا کرے کہ محبت میں یہ مقام آئے“ جسے نورجہاں اور مہدی حسن نے الگ الگ گایا تھا اور ناشاد ہی کا مرتب کردہ فلم ”وقت“ سے ایک گیت ”یہ لوگ بڑے ہم لوگوں پر ہنستے ہی رہے ہیں“ کو شہرت دوام ملی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments