تم کون؟ میں کون؟ رضاکار رضاکار
غالباً 1985 میں ڈھاکا سٹیڈیم میں پاکستان اور بھارت کے مابین ہاکی کا فائنل میچ ہو رہا تھا۔ جب پاکستانی ٹیم موو بناتی تو تمام سٹیڈیم تالیوں اور نعروں سے گونجنے لگتا۔ بھارتی ٹیم کی موو پر سٹیڈیم میں خاموشی چھا جاتی۔ یہ میچ پاکستان میں لائیو دکھایا جا رہا تھا۔ میچ دیکھ کر اندازہ ہوا کہ شیخ مجیب الرحمٰن کے بنگلہ دیش کو الگ ملک بنانے کے باوجود سٹیڈیم میں عوامی سطح پر پاکستان سے شدید محبت موجود ہے۔ انڈیا نے پاکستان توڑنے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا اور میچ کے دوران میں انڈیا سے واضح نفرت دکھائی دیتی تھی۔ صرف چودہ برس کے عرصے میں بنگلہ دیشیوں کی پاکستانیوں سے محبت کا یہ ثبوت آئندہ کی تصویر کشی کا غماز تھا۔ ان دنوں عوامی سطح کے ساتھ ساتھ فوجی سطح پر تعاون بھی موجود تھا۔ اس کا علانیہ اظہار شاید کبھی سامنے نہیں آیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار بنگلہ دیش میں بڑے پیمانے پر سیلاب کے نتیجے میں فوجی ائر پورٹ پر کھڑے پاکستانی طیارے خراب ہو گئے تھے۔
گزشتہ پندرہ برسوں میں حسینہ واجد نے بربریت اور آمریت سے بنگلہ دیش کو جہنم بنا دیا تھا۔ مخالف سیاسی جماعتوں کو سخت تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ جماعت اسلامی کے اکابرین کو پھانسی کی سزائیں دی گئیں۔ بین الاقوامی سطح پر جس کی شدید مذمت کی گئی مگر حسینہ واجد کی فسطائیت کم ہونے میں نہیں آئی۔ بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ طلبا ملازمتوں میں کوٹے کے خلاف میدان میں نکلے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ پندرہ برسوں کے ظلم و ستم نے ڈو اینڈ ڈائی کی صورت پیدا کر دی تھی۔ حسینہ واجد نے سٹوڈنٹس کو ”رضاکار“ ( سن اکتہر میں پاکستانی فوج سے تعاون کرنے والے افراد) کہ کر جلتی پر تیل ڈال دیا۔ یوں بنگلہ دیش کے ہر طالب علم کی زبان پر یہ نعرہ گونجنے لگا۔ تم کون؟ میں کون، رضاکار رضاکار۔ طلباء تحریک کے لیڈر ناہید اسلام کا تعلق اسلامی جمعیت طلبا بنگلہ دیش سے بتایا جاتا ہے۔
تین سو سٹوڈنٹس اور لوگوں نے اپنی جانوں کی قربانی دے کر جمہوریت کے پردے میں آمریت کو ختم کر دیا ہے۔ انڈیا نے حسینہ واجد کی بھرپور حمایت جاری رکھی اور طلبا تحریک کو کچلنے میں تعاون کرتا رہا۔ بالآخر حسینہ واجد کو ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا اور اس نے انڈیا میں پناہ حاصل کر لی۔ بنگلہ دیش کی موجودہ تبدیلی دنیا کے حکمرانوں کے لیے واضح پیغام ہے۔ خصوصاً پاکستانی اشرافیہ کو خبردار رہنا چاہیے۔ انھیں اندازہ نہیں ہے کہ اس وقت لوگ بجلی کی قیمت کے باعث کس قدر مشکل حالات سے دوچار ہیں۔ راولپنڈی میں جماعت اسلامی کا دھرنا کسی بڑے معرکے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ جبر و استبداد کے ذریعے لوگوں کو تسخیر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ذہنوں پر نقش صرف خیر، محبت اور خدمت سے بنائے جا سکتے ہیں۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے اکابرین اور کارکنان کے عدالتی قتل سے جماعت اسلامی کی عوامی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔ خالدہ ضیاء اور دیگر تمام سیاسی لوگوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔ تاریک دور اپنے انجام کو پہنچا ہے۔ نوجوانوں نے حسینہ واجد کی نفرت میں شیخ مجیب الرحمٰن کے مجسموں کو بھی توڑ دیا ہے۔ بالکل جس طرح سوویت یونین کے خاتمے پر ماسکو میں لینن کے مجسمے توڑے گئے تھے۔ انقلابی گزشتہ حکومت کی ہر نشانی مٹا دینا چاہتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں ایک بڑے انقلاب کا آغاز ہو گیا ہے۔ عبوری حکومت تشکیل دی جا رہی ہے۔ بنگلہ دیشی فوج کو سخت احتیاط کی ضرورت ہے۔ اسے عبوری حکومت سے تعاون کرنا چاہیے ورنہ مداخلت کی صورت میں ایک اور مزاحمت پیش آ سکتی ہے۔ نوبل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات محمد یونس کو نگران وزیر اعظم کا منصب دیا گیا ہے۔
اس وقت بنگلہ دیش میں بھارت کے خلاف شدید نفرت اور پاکستان کے لیے سازگار ماحول موجود ہے۔ پاکستان کو اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے اور نئی حکومت سے ممکنہ حد تک تعاون کرنا چاہیے۔ افغانستان کے بعد اس خطے میں یہ بھارت کی دوسری بڑی شکست کہی جا سکتی ہے۔ چین روس تعاون علاقائی ملکوں میں تیزی سے پھیلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ بھارت اس خطے میں امریکہ کا واحد واضح اتحادی دکھائی دیتا ہے۔ دیگر تمام ملکوں میں چین روس تعاون کا خیر مقدم سیاسی تبدیلیوں کی غمازی کرتا ہے۔ پاکستان کو موجودہ صورت میں گہری سنجیدگی درکار ہے۔ قدرت ایسے مواقع بار بار نہیں دیتی ہے۔
- گلزار پاویل اور لائل پور کے دوسرے ادیب - 07/09/2024
- جز وقتی سرور یا دائمی لطف - 29/08/2024
- تم کون؟ میں کون؟ رضاکار رضاکار - 10/08/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).