کوڑھ انسان پر عذاب تھا، پھر رُتھ فاؤ نے جنم لیا!
محسنہ پاکستان ڈاکٹر روتھ فاؤ کی ناگہانی وفات پر میرے عزیز دانشور دوست محترم حسین یاسر نے کیا خوبصورت اور جامع تبصرہ کیا ”کوڑھ انسانوں پر ایک عذاب تھا۔ پھر رُتھ فاؤ نے جنم لیا۔ وہ دُکھی پاکستانیوں کے لئے ایک شفیق ماں کی حیثیت رکھتی تھیں۔“ پاکستان سے جذام یا کوڑھ جیسے موذی مرض کے مکمل خاتمے کے لئے اپنی تمام عمر وقف کرنے والی ڈاکٹر رتھ فاؤ 1960 میں عارضی قیام کے لئے ایک میڈیکل مشن پر پاکستان آئیں۔ یہاں انھوں نے جذام کے مریضوں کی حالت زار دیکھی تو واپس نہ جانے کا فیصلہ کیا اور کراچی ریلوے اسٹیشن کے قریب واقع کوڑھیوں کے احاطے کے اندر ایک جھونپڑی میں چھوٹا سا فری کلینک قائم کر کے کُوڑھ کے خلاف جہاد کا آغاز کیا۔ میری ایڈیلیڈ لیپروسی سنٹر کے نام سے قائم ہونے والا یہ شفا خانہ جذام کے مریضوں کے علاج کے ساتھ ساتھ ان کے لواحقین کی مدد بھی کرتا تھا، مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر 1963 میں ایک باقاعدہ کلینک خریدا گیا جہاں کراچی ہی نہیں، پورے پاکستان بلکہ افغانستان سے آنے والے جذام کے مریضوں کا علاج کیا جانے لگا۔ کوڑھ ایسا مرض ہے جس میں مریض کا جسم گلنا شروع ہو جاتا ہے، جسم میں پیپ پڑ جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی انسان کا گوشت ٹوٹ ٹوٹ کر نیچے گرنے لگتا ہے۔ کوڑھی کے جسم سے شدید بو بھی آتی ہے۔ ڈاکٹر رتھ فاؤ پوری زندگی جذام کے خاتمے کے لئے لڑتی رہیں اور کوڑھیوں کی مسیحا بن گئیں۔ وہ لپریسی کنٹرول پروگرام پاکستان کی بانی سربراہ تھیں۔ جرمن نژاد ڈاکٹر رتھ فاؤ نے 56 سال تک پاکستان میں جذام کے مریضوں کا علاج کیا۔ انھوں نے جذام کے مریضوں کے بارے میں مثبت تشخص اجاگر کرنے میں قائدانہ کردار ادا کیا اور اپنی ساری زندگی پاکستان میں ایسے مریضوں کے علاج معالجے اور اس مرض سے جڑے منفی تاثر کو زائل کرنے کے لئے وقف کر دی۔ ایسے میں جبکہ ان مریضوں کے قریبی رشتہ دار بھی ان سے کتراتے تھے وہ نہ صرف جذام کے مریضوں کو مفت سہولت فراہم کرتی تھیں بلکہ ان کے ساتھ رہتی تھیں اور اپنے ہاتھ سے ان کو کھانا کھلاتیں اور ان کی دلجوئی کرتیں۔ لوگ کوڑھ کے مریضوں سے گھن کھاتے تھے اور وہ کوڑھ کے مریضوں کے قریب سوتی تھیں۔
1960 میں پاکستان میں جذام کے ہزاروں مریض تھے۔ اس وقت سہولتیں اور علم کی کمی کی وجہ سے جذام یا کوڑھ کو لاعلاج اور مریض کو اچھوت سمجھا جاتا تھا۔ مخیر حضرات نے ایسے مریضوں کے لئے رہائشی علاقوں سے الگ تھلگ کوڑھی خانے بنا رکھے تھے جہاں یہ مریض سسک سسک کر جان دے دیتے تھے۔
پیغمبر حضرت ایوب ؑ بھی ایک طویل عرصہ تک کوڑھ کے اسی مرض میں مبتلا رہے جبکہ آپؑ کی دولت اور سخاوت سے برسوں مستفید ہونے والے رشتہ داروں، دوستوں اور وظیفہ خواروں نے بھی برے وقت میں آپ کا ساتھ چھوڑ دیا اور اتنی بے اعتنائی برتی کہ حضرت ایوبؑ کو شہر سے دور ویران جگہ سسکنے کے لئے چھوڑ دیا گیا مبادا شہر کے باقی لوگ بھی اس مرض میں مبتلا ہو جائیں۔ آپ برسوں اس مرض کا شکار رہے اور اس حالت میں بھی اپنے رب کی کبریائی بیان کرتے رہے یہاں تک کہ صبر ایوب آپ کی نسبت سے رہتی دنیا تک کے لئے ایک تاریخی حوالہ بن گیا۔ اس عالم میں ان کی زوجہ محترمہ جنھوں نے وفا اور خدمت کی عظیم مثال قائم کی، کے علاوہ کوئی بھی حضرت ایوبؑ کے پاس نہ جاتا تھا۔ کوڑھ کے مریضوں کے لئے ڈاکٹر رتھ فاؤ کی خدمات بھی اس عظیم خاتون کے کردار سے مماثلت رکھتی ہیں۔ ڈاکٹر رتھ فاؤ کا مذہب انسانیت اور ان کا مشن بیمار انسانوں کی خدمت کرنا تھا۔ مادام فاؤنے جذام کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ٹی بی کے مریضوں اور نابینا افراد کی بحالی کے لئے بھی بے مثال کاوشیں کیں۔ انھوں نے پاکستان کے انتہائی پسماندہ علاقوں میں کمیونٹی لیول پر کام شروع کیا جس میں کمیونٹی کی بنیادی ضرورتوں مثلاً پانی، صحت اور تعلیم کو اہمیت دی گئی جبکہ پسماندہ علاقوں میں کمیونٹی سکول قائم کیے ۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ نے 2010 میں آنے والے شدید سیلاب سے متاثر پاکستانی ہم وطنوں کی ہنگامی امداد اور ان کی مکمل بحالی میں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ قوم کی اس محسنہ نے پاکستان کے مختلف علاقوں میں 170 لیپروسی مراکز قائم کیے جہاں پچاس ہزار سے زائد مریضوں کو علاج معالجے کی مفت سہولتیں مہیا کر کے انھیں نئی زندگی دی گئی۔ ڈاکٹر رتھ فاؤ کی مسلسل جدوجہد کی بدولت ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے 1996 میں پاکستان کو ایشیا کے ان اولین ممالک میں شامل کیا جہاں جذام کے مرض پر کامیابی سے قابو پایا گیا۔ انھوں نے پاکستان میں اپنے کام پر چار کتابیں بھی تحریر کیں جن میں سے ٹو لائٹ اے کینڈل ’سرفہرست ہے۔ پاکستان میں جرمنی کے سفیر مارٹن کوبلر نے انھیں بجا طور پر پاکستان جرمن دوستی کی علامت قرار دیا ہے۔ اپنی لازوال خدمات کی وجہ سے انھیں پاکستان کی مدر ٹریسا کہا جاتا تھا۔ ڈاکٹر روتھ اور ان کے ساتھی ہمارے محسن ہیں کیونکہ اگر یہ خاتون، ان کی ساتھی سسٹر بیرنس اور ڈاکٹر آئی کے گل اس مرض کے خلاف خود کو وقف نہ کرتے تو شاید لاکھوں کوڑھی اس وقت بھی یہاں سڑکوں اور گلیوں میں پھر رہے ہوتے۔ ایسی صورتحال میں کچھ بعید نہیں کہ دنیا نے ہم پر اپنے دروازے بند کر دیے ہوتے اور ہم پوری دنیا کے لئے اچھوت بن جاتے۔ وہ بے لوث کام کرتی تھیں اور ہمیشہ اپنی ذات کی تشہیر سے گریز کیا، وہ جس خاموشی سے کام کرتی رہیں اسی خاموشی کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔
حکومت پاکستان نے ڈاکٹر رتھ فاؤ کی آخری رسومات سرکاری اعزازات کے ساتھ ادا کیں کیونکہ وہ بجا طور پر محسنہ پاکستان تھیں۔ امید ہے کہ ان کے نام پر کوئی ادارہ بھی بنایا جائے گا۔ کیا ہی اچھا ہو اگر ایدھی صاحب اور مادام رتھ فاؤ جیسے پاکستانیوں کی سماجی خدمات پر مضامین نصاب کا لازمی حصہ قرار دیے جائیں، تاکہ ہماری آنے والی نسلوں میں انسانیت کا جذبہ پیدا ہو اور وہ ایسی ہستیوں کو اپنا رول ماڈل بنا سکیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک غیر مسلم ’ہمیں اسلام سکھا گئی، کاش کہ ہم واقعی اسلام کو سیکھ سکیں۔ کوڑھ واقعی عذاب ہے اور اندر کا کوڑھ تو بہت بڑا عذاب ہے۔ کاش اس دھرتی پر ڈاکٹر رُتھ فاؤ جیسی لیجنڈری شخصیت کا دوبارہ جنم ہو تا، تاکہ وہ ہم پاکستانیوں کے اندر کے کوڑھ کے خاتمے کے لئے بھی کوئی لائحہ عمل اپنائیں، کہ جس کی اس وقت سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ محسنہ و فخر پاکستان ڈاکٹر رتھ فاؤ ہم آپ کے مقروض ہیں، آپ کی عظمت کو صد سلام!
- ورلڈ میری ٹائم ڈے، بلیو اکانومی کی اہمیت - 27/09/2024
- ملکی دفاع میں پاکستان نیوی کا قائدانہ کردار - 10/09/2024
- سماجی ذمہ داری کا احساس: حکومت اور شہری - 23/08/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).