فرخ اور عرفان کا "قائد اسکواڈ”: ناول میں متوازی تاریخ کا تجربہ
حضرات، میں روز ہی مزار قائد کے سامنے سے گزرتا ہوں، وہاں کا شور، ٹریفک، پریشان حال چہرے میرے لیے معمول کا واقعہ ہے ۔ ۔ ۔ لیکن اگر کسی روز اچانک میری نظر وہاں موجود ایک پراعتماد نوجوان پر پڑے، جو اوروں سے کچھ مختلف ہو، اور جس میں محمد علی جناح کی جھلک نظر آتی ہو، تو وہ ایک غیرمعمولی واقعہ ہوگا۔
یہی غیر معمولی واقعہ اس ناول کا مرکزی خیال ہے، جس کا عنوان قائد اسکواڈ ہے۔ اس ناول کا خیال پہلے پہل فرخ شہزاد چوہان کے ذہن میں بیدار ہوا، اور جسے سید عرفان احمد نے الفاظ میں پُرو کر کتاب کا لبادہ پہنایا۔ عرفان احمد سے ان کے پرچے "کامیابی” کے حوالے سے غائبانہ تعارف تھا، مگر فرخ شہزاد چوہان سے یہ پہلا رابطہ ہے۔ اور اُن کا پہلا تاثر پڑھنے والے کو متوجہ کرتا ہے۔
یہ ناول "متوازی تاریخ” کے ژانرا سے تعلق رکھتا ہے، جہاں پلاٹ کو حقیقی، تاریخی واقعات میں گوندھا ضرور جاتا ہے، مگر ان کی معلوم ترتیب کو فالو کرنے کے بجائے اس میں "What if” کا ٹانکا لگاتے ہوئے نئے واقعات ترتیب دیے جاتے ہیں۔ اور یہ تصور پیش کیا جاتا ہے کہ جو کچھ رونما ہوا تھا، اگر اس کے علاوہ کچھ اور رونما ہوتا، تو آج کی حقیقت کتنی مختلف ہوتی۔
اس ضمن میں رابرٹ ہیرس کا ناول "فادر لینڈ” اور فلپ کے ڈک” کا ناول "دی مین ان دا ہائی کاسل” مقبول مثالیں ہیں، جو اس خیال کے گرد گھومتے ہیں کہ اگر اتحادیوں کے بجائے محوری قوتیں یعنی جرمنی جنگ جیت جاتا اور امریکا پر قابض ہو جاتا، تو پھر دنیا کیسی ہوتی۔
ان دونوں ہی ناولز کو فلم کے قالب میں ڈھالا گیا۔ ایک اور مشہور مثال ٹرنٹینو کی فلم "ان گلوریس باسٹرڈز” ہے، جو ایک بار پھر ہٹلر کے گرد گھومتی ہے۔ گویا اگر نازی جرمنی نہ ہوتا، تو امریکی ادب اور فلم سازی کی تاریخ میں ایک دراڑ پڑ جاتی۔ اور یہ دراڑ بھی متوازی فکشن کا ایک موضوع ہو سکتی ہے۔
اگر ہم ناول کی سمت پلٹیں، تو اس کے ابتدائیے میں ہمارا سامنے ایک ہولناک، کرب ناک واقعہ ہوتا ہے یعنی سانحہ بلدیہ ٹاؤن۔ کیسا المیہ ہے کہ بنگلادیش میں تین سو افراد کی ہلاکت یا قربانی کے نتیجے میں حسینہ واجد کی مضبوط حکومت رخصت ہو گئی، لیکن جب کراچی میں تین سو افراد جل کر راکھ ہوئے، تو کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ یہاں تک کہ ہم اس واقعے کو یک سر بھول گئے۔
کتاب کے مصنف کا شکریہ کہ انھوں نے اس واقعے کو یاد رکھا۔ یہ میرا ایک ذاتی دکھ ہے۔ یہ سانحہ مجھ میں اب بھی جاری ہے۔ اسی طرح ہم شاہ زیب قتل کیس یا اس سے مماثل واقعات کے روبرو ہوتے ہیں۔ کتاب میں ہمیں جاگیردارانہ نظام سے تقویت پانے والی پیری فقیری کی ہولناک شکل دکھائی دیتی ہے اور اس کے درمیان سائنس فکشن ناول کے انداز میں ماضی سے نکل کر ایک نوجوان ہمارے سامنے آتا ہے، جو محمد علی جناح ہے۔
قائد اسکواڈ کی تقریب رونمائی، آرٹس کونسل، کراچی
جو لمحہ حال میں مصائب میں گھرے اس معاشرے میں اصلاح کا خواہش مند ہے اور اسی خواہش سے ایک اسکواڈ جنم لیتا ہے۔ یہی قائد اسکواڈ کی کہانی ہے۔
مصنفین کے نزدیک اس کتاب کا مقصد اصلاح معاشرہ ہے۔ یہ ایک نیک مقصد ہے، مگر یہ ناول ایک سسپنس تھرلر بھی ہے، جسے آپ تفریح طبع کے لیے پڑھ سکتے ہیں۔
اور پھر اس کا اختتامیہ، جہاں سے ایک اور ناول کا جنم ہوتا ہے۔ ایک سلسلے کا اشارہ ملتا ہے۔ فرخ شہزاد کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اس پر فلم بنانے کے خواہش مند ہیں۔ یہ ایک مثبت قدم ہے، اور اسی تناظر میں چند تجاویز پیش کرنا مناسب ہوگا۔
اشتیاق احمد کے کردار ہوں یا ابن صفی کے؛ ان کے کچھ سگنیچر جملے یا ڈھب ہوتے ہیں، جیسے اشتیاق احمد کا کردار فاروق، جو ہر بار کہتا ہے کہ یہ تو کسی ناول کا نام ہو سکتا ہے، یا ابن صفی کا عمران۔ تو خواہش ہے کہ آیندہ ناولز میں قائد اسکواڈ کے کرداروں کے کریکٹرسٹکسز مزید ابھر کر سامنے آئیں گے۔
اسی طرح اگر قائد کا کردار محمد علی جناح کے شخصی اوصاف کے مزید قریب ہو، تو اس کی قوت دوچند ہو جائے گی۔ کیوں کہ محمد علی جناح، اگر عملیت پسندی کے نکتہ نگاہ سے دیکھا جائے، تو پاکستانیوں کے لیے سب سے موزوں "رول ماڈل” ہیں۔
سندھ میں موجود لسانی تقسیم کی کچھ جھلک اس ناول میں ملتی ہے، جو فلیٹ ہو سکتی ہے۔
مجموعی طور پر یہ نوجوانوں کو متحرک کرنے کے لیے لکھا گیا ایک ایسا دلچسپ ناول ہے، جو بڑے بھی انہماک سے پڑھ سکتے ہیں۔
ناول میں ایک لمحہ آتا ہے، جب ایک کردار قائد کا اسکواڈ تشکیل دیتا ہے۔ اس لمحے وہ اسکواڈ مکمل نہیں ہوتا۔ انھیں اپنی ٹیم میں مزید افراد درکار ہوتے ہیں، جو ناول کے آخر تک انھیں مل جاتے ہیں۔
البتہ مجھے لگتا ہے کہ قائد اسکواڈ میں مزید پاکستانیوں کی، ہم سب کی شمولیت کی گنجایش موجود ہے، اگر ہم اپنے سماج کو بہتر کرنے لیے یومیہ ایک چھوٹا سے قدم اٹھائیں، تو چاہے پاکستان ایشین ٹائیگر نہ بنے، مگر رہنے کے قابل ضرور بن جائے گا۔
- کڑی دھوپ میں ”سائبان“ کی خبر - 17/09/2024
- کتھا، قاری، اور نور جونیجو کا ”مہذب وحشی“ - 05/09/2024
- کتھا، قاری، اور نور جونیجو کا”مہذب وحشی” - 05/09/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).