کراچی میں ”خوشی“ سے جبری مشقت کرنے والے سیکیورٹی گارڈز


صبح کے 7 بجے کا وقت ہے، ملیر ہالٹ فلائی اوور کے نیچے سیلانی دسترخوان پر مفت ناشتہ کرنے والوں کی ایک قطار لگی ہوئی ہے، جس میں بیس سے تیس افراد کھڑے ہیں۔ اس قطار میں نجی سکیورٹی کمپنیز کے چار گارڈز بھی شامل ہیں۔ چاروں گارڈز کی عمریں چالیس سے پچپن سال کے درمیان ہیں، مختلف سکیورٹی کمپنیز میں کام کرنے والے یہ گارڈز کام بھی مختلف جگہوں پر کرتے ہیں۔ ان میں ایک کا تعلق مظفر گڑھ، دو کا گھوٹکی اور چوتھا سوات کا رہائشی ہے۔

مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والے صدام حسین گزشتہ پندرہ سال سے کراچی میں رہائش پذیر ہیں، کہتے ہیں کہ وہ سات سال سے سکیورٹی کمپنی میں کام کر رہے ہیں، تنخواہ کم ہونے کی وجہ سے وہ ہوٹل پر ناشتہ نہیں کر سکتے اور روزانہ سیلانی دسترخوان پر آتے ہیں۔ گھوٹکی کے رہائشی مبارک و غلام قادر اور سوات سے تعلق رکھنے والے مراد بھی روزانہ یہاں قطار میں لگ کر مفت ناشتہ کرتے ہیں۔

مبارک کا کہنا ہے کہ اس کے خاندان میں بیوی، ایک بیٹا اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔ بیٹا بھی ایک سکیورٹی کمپنی میں کام کرتا ہے۔ حکومت نے اس سال کم سے کم تنخواہ سینتیس ہزار روپے مقرر کی ہے، مگر انہیں تو پچھلے سال بھی بتیس ہزار روپے کے بجائے چھبیس ہزار روپے دیے جاتے رہے۔ مبارک کے مطابق انہیں بارہ گھنٹے ڈیوٹی لینے کے باوجود دوپہر کا کھانا بھی نہیں دیا جاتا۔ سچل گوٹھ سے ملیر پہنچنے میں دو بسیں بدلنی پڑتی ہیں، کبھی کبھی اس سے بھی زیادہ بسوں میں آنا پڑتا ہے۔ بسوں کے کرائے میں اچھی خاصی رقم چلی جاتی ہے۔ مبارک نے بتایا کہ باپ اور بیٹا ایک ساتھ گھر نہیں جا سکتے، بہت خرچ ہو جائے گا۔ اس بار بیٹا گھر گیا ہوا ہے، اس کے آنے پر وہ گھر جائیں گے۔

مراد نے کہا کہ ان کی تنخواہ پچیس ہزار روپے ہے۔ وہ قائد آباد میں رہتے ہیں، بس سے ملیر آنے جانے کا کرایہ ساٹھ روپے بنتا ہے، اگر وہ ناشتہ ہوٹل پر کریں تو ان کے پاس بچے گا کیا؟ مراد کے مطابق ہفتے میں ایک دن بھی چھٹی نہیں ملتی۔ اگر بیماری یا کسی وجہ سے چھٹی کریں تو دیہاڑی کاٹ لی جاتی ہے۔ بہت مشکل سے گزارا ہوتا ہے۔ اپنے گھر گئے بھی چھ مہینے ہو گئے ہیں۔ چھوٹی اور بڑی عید پر بھی گاؤں نہیں جا سکا۔ کچھ پیسے جمع ہو جائیں تو پھر جاؤں گا۔

ویسٹ وہارف میں واقع ایک آئل کمپنی میں کام کرنے والے گارڈ دھنی بخش ایک سال سے اپنے گاؤں جعفر آباد نہیں گئے ہیں۔ وہ ہر مہینے اپنی تنخواہ اپنے رشتہ دار کے ذریعے گھر والوں کو بھجوا دیتے ہیں۔ دھنی بخش کے مطابق کمپنی میں رہائش مفت دی گئی ہے، جہاں وہ دیگر دس گارڈز کے ساتھ رہتے ہیں۔ کمپنی کی کینٹین پر انہیں سبسڈائزڈ تین وقت کا کھانا ملتا ہے، جو وہ دیگر گارڈز کے ساتھ مل کر کھا لیتے ہیں۔

آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع خیر آباد ریسٹورنٹ کے باہر لگے اخبار کے اسٹال پر سرخیاں پڑھنے والے گارڈ قربان علی سے ملاقات ہوئی۔ بائیس سالہ قربان علی انٹر پاس کرنے کے بعد اپنی تعلیم ریگولر جاری رکھنا چاہتے تھے مگر گھر کے مالی حالات کی وجہ سے ایسا نہ کر سکے اور سکیورٹی گارڈ بن گئے۔ وہ ایک منی ایکسچینج میں گارڈ ہیں اور پرائیویٹ تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تنخواہ اور سہولیات کے بارے میں بتاتے ہوئے قربان علی نے کہا کہ سکیورٹی کمپنیز میں بھی وڈیروں اور چوہدریوں کے ذاتی ملازموں والا حال ہے۔ گارڈز کو حکومت کی اعلان کردہ تنخواہ نہیں ملتی، ہر سکیورٹی کمپنی ہمیں پانچ سے دس ہزار روپے کم دیتی ہے۔ یہ اضافی رقم کمپنیز اپنی جیبوں میں ڈال لیتی ہیں۔ کم تنخواہ کے باوجود میں یہ جبری مشقت خوشی خوشی کرتا ہوں کیونکہ میرے پاس دوسرا کوئی آپشن نہیں ہے، بارہ گھنٹے کام سے انکار پر نوکری سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔

غلام اکبر پاک فوج کے ریٹائرڈ حوالدار اور کراچی میں ایک معروف سکیورٹی کمپنی میں سپروائزر ہیں، یہ کمپنی کراچی کے ساتھ ٹھٹھہ میں بھی کام کرتی ہے۔ غلام اکبر نے گارڈز کو تنخواہ کم ملنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ کٹوتی اسلحے اور وردی کی مد میں کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپروائز کی تنخواہ پینتالیس ہزار ہے جبکہ اڑتیس ہزار روپے پینشن ملتی ہے، گزارا اچھا ہو جاتا ہے۔

غلام اکبر نے کہا کہ ان کی کمپنی کا شمار بہترین کمپنیز میں ہوتا ہے، جو تنخواہ دینے کے معاملے میں دوسری کمپنیز کی طرح تاخیر نہیں کرتی، ہفتہ وار چھٹی کے ساتھ تہوار پر بھی بغیر دیہاڑی کاٹے گارڈز کو چھٹیاں دی جاتی ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کراچی میں ایسی بے شمار کمپنیاں ہیں جو رجسٹرڈ نہیں اور جعلی نام سے کام کرتی ہیں۔

آل پاکستان سکیورٹی ایجنسیز ایسوسی ایشن کی ویب سائٹ پر رجسٹرڈ کمپنیز کی تعداد ایک سو نوے ہے، جس میں پینتیس کمپنیوں کے لائسنس کی تجدید ہونی باقی ہے۔ اس تعداد کے برعکس چیئرمین آل پاکستان سکیورٹی ایجنسیز ایسوسی ایشن (اے پی ایس اے اے ) کرنل ریٹائرڈ توقیراسلام نے کہا کہ کراچی میں ایک سو ساٹھ نجی سیکیورٹی کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں جس میں ایک سو پندرہ فعال ہیں۔

توقیر اسلام نے گارڈز کی تنخواہ سے کٹوتی کی تردید کی، کہا کہ دس پندرہ سال پہلے ایسا ممکن تھا، مگر اب نہیں ہوتا، اب اوئیرنیس بہت ہے، گارڈز کم تنخواہ پر کام نہیں کرتے۔ گارڈز کو سندھ حکومت کی مقرر کردہ تنخواہ کے ساتھ ہفتہ وار اور تہوار کی چھٹیاں بھی دی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کوئی بھی کمپنی گارڈز کو کھانا نہیں دیتی، گارڈز سے کہا جاتا ہے کہ وہ گھر سے ناشتہ کر کے اور دوپہر کا کھانا ساتھ لائیں اور رات کا کھانا واپس گھر جاکر کھائیں۔ توقیر اسلام نے گارڈز سے بارہ بارہ گھنٹے ڈیوٹی لینے اور تنخواہ کم دینے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس سلسلے میں کام کر رہے ہیں تاکہ گارڈز کو بارہ گھنٹوں کے حساب سے تنخواہ مل سکے۔

چیئرمین آل پاکستان سکیورٹی ایجنسیز ایسوسی ایشن کی فراہم کردہ معلومات کے برعکس محکمہ داخلہ سندھ کی ویب سائٹ پر رجسٹرڈ سکیورٹی کمپنیوں کی تعداد دو سو تریسٹھ ہے جبکہ اکتیس کمپنیوں کے لائسنس منسوخ کیے جا چکے ہیں۔ اس حوالے سے ہم نے محکمہ داخلہ سندھ سے رابطہ کیا۔ محکمہ داخلہ سندھ میں کام کرنے والے سینیئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کے شرط پر بتایا کہ کراچی کی پینتیس کمپنیز کے لائسنس قانون پر عمل درآمد نہ کرنے پر منسوخ کیے گئے ہیں۔

آل پاکستان سکیورٹی ایجنسیز ایسوسی ایشن اور محکمہ داخلہ سندھ کی ویب سائٹس پر سکیورٹی کمپنیز کے تعداد کے بارے میں تضاد کے بارے میں انہوں نے کہا کہ تمام سکیورٹی کمپنیز ریٹائرڈ فوجی چلاتے ہیں اور ان میں اختلافات ہیں اس لئے تمام کمپنیز آل پاکستان سیکیورٹی ایجنسیز ایسوسی کے پاس رجسٹرڈ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں کئی ایسی سکیورٹی کمپنیز ہیں جو گارڈز کو پندرہ یا سولہ ہزار روپے تنخواہ دیتی ہیں۔ جناح اسپتال میں آج بھی گارڈز کو پندرہ ہزار یا سولہ ہزار تنخواہ دی جاتی ہے۔ اسپتال، ریسٹورنٹس، ہوٹلز، شاپنگ سینٹرز، گیسٹ ہاؤسز اور پمپز پر گارڈز کم تنخواہ پر بارہ گھنٹے کام کرتے ہیں۔ اسپتالوں میں گارڈز مریضوں اور تیمار داروں سے پیسے لیتے ہیں جبکہ ہوٹلز اور ریسٹورنٹس سے تو انہیں چائے کے ساتھ اپنے اور گھر والوں کے لئے کھانا بھی مفت مل جاتا ہے۔ اس لئے وہ ان جگہوں پر بغیر شکایت کیے خوشی خوشی آٹھ گھنٹوں سے زیادہ ڈیوٹی دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملٹی نیشنل کمپنیز یا اس طرح کی کئی اور کمپنیز ہیں، جہاں گارڈز کو ہفتہ وار اور دیگر چھٹیاں ملتی ہیں، تنخواہ بھی وقت پر دی جاتی ہے۔ یہاں چیک اینڈ بیلنس رکھا جاتا ہے اور گارڈز سے آٹھ گھنٹوں سے زیادہ کام نہیں لیا جاتا، اضافی وقت دینے پر انہیں اوور ٹائم کے پیسے ملتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود شہر میں گارڈز کی اکثریت ہے جنہیں تنخواہ بھی کم ملتی ہے، چھٹی نہیں ملتی اور کام بارہ گھنٹے لیا جاتا ہے۔ اس لئے ہم نے ان (کمپنیز ) کو لکھا ہے کہ لیبر ڈیپارٹمنٹ کی مقرر کردہ آٹھ گھنٹوں کی تنخواہ پر عمل درآمد کریں۔ مگر یہ (کمپنیز) اس پر عمل نہیں کرتیں۔ کسی سے مقررہ وقت سے زیادہ کام لینا اور اجرت کم دینا، جبری مشقت کے زمرے میں آتا ہے، عالمی تناظر میں دیکھیں تو دنیا بھر میں جبری مشقت کرنے والوں کی تعداد ساڑھے تین کروڑ ہے۔ جبکہ پاکستان میں پینتیس لاکھ سے زائد افراد جبری مشقت کرتے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان میں اکثریت جبری مشقت کرتی ہے، جس کے اعداد شمار دستیاب نہیں ہیں، اسے وہ وائٹ کالر جبری مشقت کہتے ہیں یہ وہ مشقت ہے جس کا کرنے والوں کو ادراک ہی نہیں ہے۔

محکمہ لیبر سندھ کے ریٹائرڈ افسر صلاح الدین کا کہنا ہے کہ محکمے کے پاس اتنا اسٹاف ہی نہیں ہے جو اپنے طور پر کارروائی کی جائے، تحریری شکایت پر محکمہ کارروائی کرتا ہے اور کیس کو لیبر کورٹ میں بھیجا جاتا ہے، مگر ایسا بہت کم ہی ہوتا ہے۔ یہ تمام سکیورٹی کمپنیز بڑی سرکار کے سابقہ لوگوں کی ہوتی ہیں، کسی شکایت کی صورت میں یہ اثر انداز ہوتے ہیں یا پھر افسران بالا سے دباؤ ڈلواتے ہیں۔ دوسری طرف جب تحریری شکایت ملتی ہے تو بڑی سرکار کے لوگ درخواست گزار تک پہنچ کر انہیں دستبردار ہونے پر مجبور کرتے ہیں، ان حالات میں درخواست گزار کے پاس خاموش رہنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں ہوتا۔

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے پاکستان میں پروجیکٹ منیجر ڈاکٹر فیصل اقبال نے کہا کہ وائٹ کالر ٹرم بہت اچھی ہے۔ مگر آئی ایل او میں اس بارے میں نہ کوئی گائیڈ لائنز ہیں اور نا ہی کنونشن ہے۔

انہوں نے کہا کہ جبری مشقت کے لئے دو چیزیں لازم ہیں، اول کسی کا والنٹیئرلی کام نہ کرنا اور دوئم کسی بھی طرح کے خوف اور جبر کے سائے میں کام کرنا۔ اگر یہ دونوں نہیں ہیں تو جبری مشقت نہیں کہا جاسکتا، یہ کسی انڈیکٹر کے تحت جبری مشقت کا کیس بن سکتا ہے، البتہ آئی ایل او کی ٹرمنالوجی میں یہ اشو کم اجرت کا ہے۔ پاکستان میں جبری مشقت کی وجوہات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہاں لیبر قوانین کے متعلق لوگوں میں آگہی نہیں ہے جس کی بڑی وجہ ناخواندگی ہے۔ اور ناخواندہ اور غیر ہنرمند لوگ ہی سب سے زیادہ جبری مشقت کا شکار ہو جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments